Was Hamas’ decision akin to suicide?
اس بات سے انکار نہیں کہ بغیر تیاری اور بغیر جنگی وسائل کے میدان جنگ میں کودنا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے لیکن
لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتانا کہ کیا حماس کسی محاذ پر کمزور پڑے ہیں؟
کیا حماس نے کسی موقع پر راہ فرار اختیار کی ہے؟
کیا حماس کے قائدین نرم بستروں اور آرام دہ کمروں میں بیٹھے رہے؟
کیا حماس قیادت کا اپنا خاندان جنگ سے دور عیش دیتا رہا؟
وسائل سے زیادہ ہمارے لیے ایمان کی تیاری اہمیت رکھتی ہے، یہی وہ ایمان ہے جس کے دم پر مٹھی بھر مجاہدین نے بارہا لشکر جرار کو شکست دی تھی..
یہی وہ ایمان ہے جس کے غلبہ کہ گارنٹی قرآن مجید نے لی ہے..
یاد کیجیے عرب اسرائیل جنگ کو، عربوں کے پاس نہ وسائل کی کمی تھی نہ فوجی لشکر کی، اس وقت اسرائیل کو یہ خوف تھا کہ اس جنگ کے ساتھ ہی اس کا وجود بھی سمیٹ دیا جائے گا، لیکن عرب فوج کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اس نے واضح کردیا کہ معاملہ صرف آلات و وسائل کا نہیں معاملہ ایمان کی کمزوری کا تھا..
ذرا سوچیے! اسرائیل جیسا پاور فل ملک جس کا دعوٰی تھا کہ ایک ہفتہ کے اندر وہ حماس کو نیست و نابود کردے گا، اس کے ڈیفنس سسٹم کی مثال دی جاتی تھی لیکن حماس کے طوفان کے سامنے اس کا سارا نظام دفاع دھرا رہ گیا، نہ اس کے وسائل کام آئے نہ اس کی انٹلی جینس کو ہوا لگی..
ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا لیکن حماس نے آج تک گھٹنے نہیں ٹیکے، کسی بھی مقام پر اس کے پائے ثبات میں لغزش نہیں، خوف و ہراس سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں جبکہ اسرائیل ہر ہر قدم پر لڑکھڑا رہا ہے، اس کے فوجی ڈائپر پہننے پر مجبور ہیں، خواف و ہراس کے عالم میں اپنے ہی ساتھیوں پر گولیاں برسا رہے ہیں، ذہنی توازن بگڑ چکا ہے اور جنگ سے بھاگنے کے لیے جھوٹے بہانے پیش کیے جارہے ہیں..
ایک طرف اگر حماس کا ایک قائد شہید ہوا تو دوسرے نے اس کی جگہ لے لی، دوسرا شہید ہوا تو تیسرا سینہ سپر ہوچکا ہے، اور اگر تیسرے کی قسمت میں بھی شہادت ہوگی تو انشاءاللہ چوتھا قائد مزید جوش و طاقت کے ساتھ سامنے آیا گا، جبکہ دوسری طرف اسرائیل ہر آن اس جنگ سے فرار چاہتا ہے، وہ خود کو مضبوط دکھانے کے لیے سوانگ رچتا ہے، دنیا بھر سے طاقت کی بھیک مانگتا ہے..
ذراسیاست کے ماہرین سے پوچھو، جنگوں کی تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر دیکھو، میدان کارزار کے سورماؤں سے دریافت کرو تو جانوگے کہ وسائل صرف وسائل ہیں اور وسائل کی ہی حد تک ہیں، وہ حقیقت نہیں ہیں، حقیقی تیاری وہ جذبہ صادق ہے جو میدان جنگ میں دل کو تھامے رکھتا ہے، وہ فولادی جوش ہے جو قدموں کو پھسلنے سے روکتا ہے، سینہ میں جلنے والی وہ آگ ہے جو دشمن کے نخل تمنا کو خاکستر کرنے کے بےقرار رہتی ہے..
حماس کی جنگی تیاری نے ایک تاریخ رقم کی ہے، ایک ایسی مثال پیش کی ہے جس سے تاریخ انسانیت کا دمن بالکل کورا ہے.
کیا آپ نے کبھی کسی ایسی جنگ کے بارے میں سنا ہے جس کی تیاری پورے ملک نے ایک ساتھ کی ہو؟
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جنگ کی تباہی کو دیکھ کر جوش مقابلہ بڑھ گیا ہو؟
کیا کبھی سنا ہے کہ کوئی ماں اپنی اولاد کو خود تیار کرکے جنگ کے میدان تک لے جاتی ہے؟
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ لاشوں کے ڈھیر اور مظلوموں کے بہتے ہوئے خون کو دیکھ رگوں میں خون کی رفتار تیز ہوگئی ہو اور رکت میں ابال آنےگا ہو؟
جنگوں کی تاریخ میں فخریہ طور پر لکھا جائے گا کہ اس جنگ کے لیے حماس نے جو تیاری کی اس نے عقلوں کو شسدر کردیا، اندازوں کو غلط ثابت کردیا اور ایک ایسی مثال پیش کردی جس نے ہزار بار سوچنے پر مجبور کردیا…!!
یقیناً غزہ تباہ ہوچکا ہے، یقینا پورا غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے، یقیناً لاکھوں جانیں کام آچکی ہیں یقیناً حماس کے بہت سے مجاہدین جام شہادت نوش کرچکے ہیں لیکن
لیکن ایک سال کے بعد بھی کیا اسرائیل نے اپنا ہدف پورا کرلیا؟
کیا اسرائیل حماس کو اپنی شرطوں پر جھکا سکا؟
کیا اسرائیل نے اپنے قیدیوں کو رہا کرالیا؟
آج عزہ میں بارود کے بادل چھائے ہیں، گولیوں اور توپوں سے پوری فضا زہر آلود ہے، چیخوں اور سسکیوں میں دم گھٹ رہا ہے، کھانے پینے کی قلت ہے، دوادارود ناپید ہے، بنیادی ضرورتیں بھی فراہم نہیں لیکن
*لیکن کیا کسی بھی باشندہ نے واویلا مچایا؟*
*کیا کسی ایک فرد نے حماس کے اقدام کو غلط ٹھہرایا؟*
*کیا کسی نے اپنی قیادت کو لعن طعن کی؟*
*کیا کسی کی زبان سے نازیبا الفاظ ادا ہوئے؟*
*کیا کسی نے جھکنے کی، ہتھیار ڈالنے کی، مصالحت کرنے کی، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کہی…؟؟؟*
تعجب صد تعجب! جن کے گھر تباہ ہوگئے، جن کا ملک اجڑ گیا، جن عزیز شہید ہوگئے، جن کے بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں ان کی زبان پر ایک حرف شکایت نہیں، وہ اپنی قیادت سے خوش، حماس کے اقدام سے مطمئن اور اس کی تیاری پر پر سکون ہیں، اور ہم ہزاروں میل دور اپنے عافیت کدوں میں بیٹھ کر یہ فرمان جاری کررہے ہیں کہ حماس نے خوو کو ہلاکت میں ڈالا ہے..!!
دوسری طرف اسرائیل ہے، نہ وسائل کی کمی ہے نہ آلات حرب کی کوئی فکر، پوری مغربی دنیا اس کے دوش بدوش ہے، اور پورا عالم عرب اس کا پشت پناہ ہے لیکن اسرائیل کے سڑکوں پر ہو کا عالم ہے، دہشت کی وجہ سے نیند نہیں آتی، گولیاں نہ کھائیں تو رات کاٹنا مشکل ہے، خطرہ کا سائرن اس قدر بجتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہوچکے ہیں، ان کا زیادہ تر وقت بنکروں میں گذر رہا ہے اور مستقبل کو لے کر وہ سخت مایوسی اور اندھیارے میں ڈوبے ہیں..
عزہ تباہ ہوگیا لیکن وہاں ایمان کی باد بہاری ہے، اللہ اکبر کی بلند صدائیں ہیں، قرآن کی تلاوت اور نمازوں کا اہتمام ہے، وہاں گناہ کبیرہ نہیں ہوتے، وہ شراب نہیں پی جاتی، وہ زنا نہیں کیا جاتا، وہاں چوری نہیں کی جاتی، وہاں گا لیاں نہیں دی جاتی، وہاں دھوکہ اور غداری نہیں پائی جاتی، وہاں صرف شہادت کی باتیں اور مسجد اقصی کی بازیابی کی دعائیں ہیں، وہاں پر ایمان پر خاتمہ کی فکر ہے، اور خود کو شفاعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بنانے کی جد وجہد ہے..
کیا حماس کی یہ تیاری کافی نہیں؟؟؟
حماس کا ایک بنیادی ہدف یہ تھا کہ دنیا یہ جان لے کہ فلسطین کا مسئلہ قومی یا علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے، پوری انسانیت کا مسئلہ ہے، اور اسرائیل صرف فلسطینیوں کا مجرم نہیں ہے بلکہ وہ پوری انسانیت کا مجرم ہے…
آج دنیا بھر میں اسرائیل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، اس کے پروڈکٹس کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے، اس کو ظالم و عالمی دہشت گرد گردانا جا رہا ہے.. جبکہ پوری دنیا میں حماس کے لیے ہمدردیاں پیش کی جارہی ہیں، اس کی حماہت میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں، بیانات جاری ہو رہے ہیں اور پوری دنیا اس کو عالمی مسئلہ کے طور پر دیکھ رہی ہے..
خدا کی قسم!
حماس اپنے مقصد میں کامیاب!
اپنے مشن میں کامیاب!
اپنی تیاریوں میں کامیاب!
اور اسرائیل ہر ہر محاذ پر ذلیل و ناکام!
تحریر: محمد نفیس خان