تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
بہاراسمبلی الیکشن:2020 کے نتیجوں کا اعلان
10:نومبر2020 کو ہوا۔مہا گٹھ بندھن کی شکست اور بی جے پی اتحاد کی فتح یابی کو دیکھ کر ملک کا ہر طبقہ اپنے اپنے افکار وخیالات کا اظہار کرنے لگا۔
اس کے بعد مہینہ مکمل ہونے سے قبل ہی حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کے نتائج کا اعلان 4:دسمبر2020 کو ہوا۔اس میں بی جے پی نے اچھی کامیابی حاصل کی۔میونسپل کارپوریشن کے پچھلے الیکشن میں بی جے پی کو صرف 4:سیٹ ملی تھی,جب کہ حالیہ الیکشن میں 48:سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔
دراصل ابھی ہندو سیاست کا میاب ہے اور اسی طرح سیکولر سیاست بھی ایک زمانے تک کامیاب رہی,کیوں کہ ہندو کہلانے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور سیکولر ذہن رکھنے والوں کی بھی کثرت ہے۔
ابھی بھارت میں ہندو سیاست اور سیکولر سیاست میں مقابلہ آرائی جاری ہے۔سیکولر سیاست بھی دراصل برہمنی سیاست تھی,جیسے ہندو سیاست برہمنی سیاست ہے۔کانگریس سیکولر سیاست کی علم بردار ہے اور بی جے پی ہندو سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔
بھارت میں سیکولر سیاست کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے,کیوں کہ برہمنی سیاست کو سیکولر سیاست کا رنگ لگا کر پیش کر دیا گیا تھا۔
ہندو سیاست بھی برہمنی سیاست ہے۔برہمنی سیاست کو ہندو سیاست کی صورت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ان شاء اللہ تعالی اس کا دائرہ بھی رفتہ رفتہ تنگ ہو جائے گا۔
ابھی ہندو مسلم منافرت اور ہندو قوم کی برتری کا جذبہ ابھار کر تمام غیر مسلموں کو اپنی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔حالاں کہ غیر مسلموں میں ہندؤں کی تعداد بہت کم ہے۔ہندو صرف آرین قومیں ہیں۔آرین اقوام کے علاوہ مول نواسی قومیں ہندو نہیں ہیں,لیکن زبردستی ان کو ہندو بنا دیا گیاہے۔
چوں کہ بھارت میں اکثریت مول نواسی قوموں کی ہے اور وہ لوگ خود کو ہندو نہیں مانتے ہیں تو آج یا کل ہندو سیاست کا طلسم ٹوٹ جائے گا اور بہوجن سیاست کو فروغ ملے گا۔
بہوجن سیاست اسی وقت کامیاب ہوگی جب بھارت کی مول نواسی قومیں تعلیم یافتہ اور غربت کی سطح سے اوپر اٹھ جائیں,لیکن ہندو سیاست اور سیکولر ساست کے ٹھیکیدار اس راہ میں پہاڑ کھڑے کریں گے۔وہ مول نواسی قوموں کو تعلیم سے بھی روکنے کے حیلے اپنائیں گے اور ان کو غربت میں بھی ڈھکیلنے کی کوشش کریں گے۔
چوں کہ حکومتی ملازمتوں میں مول نواسی اقوام میں سے ایس سی,ایس ٹی اور اوبی سی کے لئے ریزرو حصے ہیں,اس لئے بہت سی سرکاری کمپنیاں اور حکومتی محکمے مالدار لوگوں اور پبلک کمپنیوں کو فروخت کئے جا رہے ہیں,تاکہ مول نواسی قومیں غربت میں مبتلا رہیں اور ہندو بنے رہیں۔
اسی طرح تعلیم کو بھی مہنگی بنائی جا رہی ہے۔فیس میں اضافہ کیا جا رہا ہے,تاکہ یہ لوگ تعلیم سے بھی محروم رہیں۔
بہوجن سماج میں آریہ سماج(برہمن,راجپوت,بنیا)کے علاوہ تمام مول نواسی قومیں(اوبی سی,ایس سی,ایس ٹی)اورمسلم,بدھ,سکھ,جین,عیسائی وغیرہ شریک ہیں۔ان تمام کی تعداد 85فی صد ہے۔
وقتی طور پر کامیابی کے لئے جذباتی نعرے اور مدہوش کن خیالات مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں,لیکن طویل مدتی پروگرام کے لئے انصاف ومساوات اور حسن تدبیر کی ضرورت ہے۔
مول نواسی قوموں کی بہت سی برادریانہ پارٹیاں ہیں۔اگر یہ پارٹیاں آپس میں اتحاد کرلیں تو ملک کا نقشہ ہی بدل جائے,لیکن دونوں برہمنی پارٹیاں یعنی کانگریس اور بی جے پی تیسرا فرنٹ بننے نہیں دیں گی۔
اسی ماحول میں چند مسلم پارٹیاں بھی کوشش و کاوش میں مصروف ہیں۔
مسلم سیاسی پارٹیاں اسی وقت وسیع اور مستحکم ہو سکتی ہیں جب وہ بہوجن سیاست کا نعرہ لگائیں اور پارٹی کی قیادت میں چند مول نواسی لیڈروں کو بھی شامل کریں,تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ پارٹی نے اپنے انتظامی گروپ میں بھی ہر ایک قوم کا لحاظ کیا ہے۔
مسلمانوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ مول نواسی قوموں کو ہندو کہنا بند کریں۔وہ حقیقی ہندو نہیں۔ان کو سیاسی ہندو بنایا گیا ہے۔اب وہ لوگ حقائق سے آشنائی کے بعد اپنے ہندو ہونے کا انکار کرنے لگے ہیں۔
اسی طرح بھارت کو ہندوستان نہ کہیں۔فرقہ پرست قوتیں ہندوستان بول کر ہندو راشٹر مراد لیتی ہیں۔
جب یہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اردو زبان کی طرح عربی و فارسی کا تعلق بھی مسلمانوں سے ہے,اس لیے اردو,عربی اور فارسی سن کر فرقہ پرستوں کے کان پھٹتے اور دم گھٹتے ہیں تو وہ ملک کا فارسی نام کیسے پسند کر سکتے ہیں۔
جب سے مرکز میں بی جے پی برسراقتدار آئی ہے,سیاسی سطح پر لفظ ہندوستان کا کثیر استعمال سازشی انداز میں ہونے لگا۔