سیاست و حالات حاضرہ

اجمیر شریف: تاریخ، عقیدت، اور فرقہ واریت کے بیچ ایک آزمائش

اجمیر شریف، حضور خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ، صدیوں سے امن، محبت، اور روحانی ہم آہنگی کا مرکز رہا ہے۔ یہ وہ مقدس مقام ہے جہاں نہ صرف مسلمان، بلکہ تمام مذاہب کے لوگ اپنی مرادیں لے کر آتے ہیں اور سکونِ قلب پاتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں اس مقدس مقام کو بھی فرقہ وارانہ سیاست کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو نہایت افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔

حالیہ خبریں:
گزشتہ روز اجمیر کی عدالت میں پیش کی گئی عرضی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ درگاہ شریف کے نیچے ایک شیو مندر ہے (معاذ اللہ)، ایک نہایت افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ قدم ہے۔ یہ نہ صرف ایک تاریخی حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش ہے بلکہ لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کی ایک منظم سازش بھی ہے۔ عدالت کی جانب سے اس عرضی کو قبول کرکے درگاہ شریف کے ذمہ داروں کو نوٹس جاری کرنا اور سروے کی اجازت طلب کرنا، ان طاقتوں کو مزید حوصلہ دینے کے مترادف ہے۔

فرقہ واریت کی سیاست:
گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان میں فرقہ واریت کی سیاست نے جس طرح زور پکڑا ہے، اس نے ملک کے بہت سے روحانی اور تاریخی مقامات کو تنازعات کا شکار بنا دیا ہے۔ کبھی تاج محل کو مندر قرار دینے کی بات ہوتی ہے تو کبھی قطب مینار کو ہندو دھروہر کہا جاتا ہے۔ اور اب اجمیر شریف جیسے مقدس مقام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ سب محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک منظم مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عوام کے بیچ نفرت پیدا کرنا اور ملک کی تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔ اجمیر شریف کی درگاہ کو متنازع بنا کر یہ فرقہ پرست عناصر اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ ان کا مقصد نہ تو مذہب کی خدمت ہے اور نہ ہی تاریخی ورثے کا تحفظ، بلکہ ان کے ایجنڈے کا محور صرف اور صرف فرقہ وارانہ سیاست کو بڑھاوا دینا ہے۔

درگاہ شریف کا تاریخی تناظر:
اجمیر شریف کی درگاہ کا قیام بارہویں صدی عیسوی میں ہوا، جب سیدنا غریب نواز رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اس علاقے کو اپنے روحانی علم سے منور کیا۔ آپ کی تعلیمات کا محور امن، محبت، اور انسانی خدمت تھی۔ تاریخ میں کہیں بھی یہ شواہد نہیں ملتے کہ یہ جگہ کسی مندر یا دوسرے مذہبی مقام پر قائم کی گئی ہو۔

یہ دعویٰ، کہ درگاہ کے نیچے شیو مندر ہے، محض ایک سیاسی ایجنڈا معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد ملک میں نفرت پھیلانا اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو آپس میں لڑانا ہے۔ یہ تاریخ سے کھلواڑ اور عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کی ایک خطرناک مثال ہے۔

مسلمانوں کی ذمہ داری:
درگاہ شریف کے ذمہ داران اور مسلمانوں کو اس وقت نہایت تحمل اور حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ جذبات میں آکر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو فرقہ پرست عناصر کو مزید اشتعال انگیزی کا موقع ملے۔ قانونی طریقوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تاریخی حقائق کس طرح محفوظ ہو۔

اس کے علاوہ، دیگر مذاہب کے افراد، خاص طور پر وہ لوگ جو امن اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں، سے رابطہ کر کے مل کر اس سازش کے خلاف آواز بلند کریں۔ اجمیر شریف نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کا ورثہ ہے۔

ازقلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار 

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے