تحریر: فیاض احمد برکاتی مصباحی
ہماری کمزور پالیسی ،انفرادی فکر ، قومیت بیزار جذبے ، شخصی مفاد کی تقدیس ، قومی مفاد سے بے اعتنائی وبے رغبتی ، قائد بننے اور نعرہ لگوانے کی ہوڑ ، جماعتی تفرقہ بازی اور تفرقہ بازی کے گھونسلے کے پروردہ گیدڑی ممولے جو ہر موقع پر جعفر وقاسم کی کمی پورے کرنے کے لیے اتاؤلے ہوئے رہتے ہیں ، ان سب کو جو نتیجہ اور خمیازہ کسی قوم کو بھگتنا تھا آج ہم بحیثیت مسلمان اس شاہراہ تک پہونچ چکے ہیں جہاں پیچھے خون خوار دشمن ہے تو آگے گہری کھائی ہے ۔ ہماری چوطرفہ بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری صف میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے جن کو اٹھااٹھا کر گہری کھائی میں پھینک دینا ہی پوری قوم کی بھلائی کے حق میں ہے ۔
پتھربازی کے بہانے جس قوم کی ساری جائیدادیں روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑائی جارہی ہیں ۔ جس قوم کے بچوں سے جائز زندگی جینے کا حق چھینا جارہا ہے ۔ جس قوم کی عبادت گاہوں اور تعلیم گاہوں پر سرکاری بلڈوذر چل رہے ہیں اسی قوم کے چند افراد بالکل بنی اسرائیلی روش پر ہوں تو اس قوم کی تقدیر بدلنے میں کاتب تقدیر کا قلم بھی بے اعتنائی ہی برتے گا ۔
ابھی جو کچھ ہورہا ہے ؟ جس طرح سے ملکی فضا مسلمانوں کے خلاف بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور کس طرح دنگائی صاحب منصب ہیں یہ عالمی برادری کی نظر میں ہے لیکن اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری قوم میں ایسے افراد بھی پرورش پارہے ہیں جو ہر سانحے کو کسی مسلک کے عینک سے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بے موسم کی بینگ بجاتے رہتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو شک ہوتا ہے شاید یہ سب دشمنان اسلام کی ہی خفیہ اولادیں ہیں جو ہمیں اندر سے کمزور ہوتا دیکھ خوشی مناتی ہیں ۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے احاطے میں زمینی مافیاؤں کے اشارے پر اور فرقہ پرست انتظامیہ کی متعصب ذہنیت کی وجہ سے بلڈوزر پہونچ گیا ۔ کوئی بلڈنگ ٹوٹی یا نہیں ٹوٹی اس سے قطع نظر یہ بہت بڑا حادثہ تھا جس پر پورے ملک کاذی شعور انسان بے چین ہو اٹھا ۔ ایام تعطیل میں جامعہ کے احاطے میں بغیر پیشگی اطلاع یا نوٹس کے بلڈوزر کا پہونچ جانا بہت ہی اہم ہے ۔ یہ کوئی عام حادثہ یا انتظامیہ کی لاپرواہی کا نتیجہ نہیں ہے ۔ اسے افتراقی خاتمے کا خدائی الارم سمجھنا چاہیے ۔ اس معاملے پر بھی کچھ نام نہاد مسلکچی میدان میں دکھائی دیئے جو اشرفیہ پر بلڈوزر چلنے کی عاشقانہ تاویل کررہے اور خوش ہورہے تھے ۔ ایسے افراد کی پرورش کون کرتاہے ؟ کیا یہ لوگ واشنگٹن ، ناگ پور اور یروشلم سے اسلام پڑھ کر آتے ہیں ؟ کہاں سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے خلاف اتنی شدید نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ ہمیں باہری دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ اب گھر کے اندر بیٹھے موسادی ذہنیت کی خاتمے کی فکر کرنی ہوگی ۔ ملک کے دیگر مسالک کے افراد جہاں اس حملے سے بے چین ہوگئے اور سب کی چیخیں نکل گئیں وہیں ہماری ہی صف سے خوشی کی بیم کا بجنا بھی چھوٹا موٹا سانحہ نہیں ہے ۔ ایک طرف یوگی کا بلڈوزر ہے تو دوسری طرف اہل ایمان پر تخریب کار موسادی بلڈوزر بھی ہے جو مختلف شکلوں میں ادھر ادھر سے مسلمانوں کے علم واخلاق اور ایمان پر بڑی بے ترتیبی سے چل رہا ہے ۔ مصباحی برادران کو چاہیے کہ اب اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرکے اتحاد کی طرف بڑھیں ۔ ایسے لوگ جو ہمارے دلوں پر بلڈوزر چلنے کی خوشی منارہے ہیں وہ ہمارے کبھی نہیں ہوسکے ۔ بلکہ ان کا اس قوم سے ہی کوئی تعلق نہیں ہوسکتا ہے ۔
جامعہ اشرفیہ کی زمین پچاس سال پہلے رجسٹری ہوئی ہے ، پچاس سال پہلے مبارک پور کی یہ زمین مزروعہ رہی ہوگی ، مزروعہ زمین پر سرکاری نالہ نہیں ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ کوئی پتلی سی سڑک ہوتی ہے ۔ یا میڑھ ہوا کرتی ہے ۔ جس علاقے میں انتظامیہ کے بلڈوزر کو نالائی بھوت دکھائی دیا ہے اس علاقے میں پچاس سال پہلے نالے کا کوئی کاغذی تصور نہیں ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ نالہ بعد میں لیکھ پال ، وارڈ ممبر، وارڈ پارشد اور میونسپلٹی کی مہربانی سے شامل ہوا ہوگا ۔ اگر یہ نالہ نکالا گیا ہے تو اس کا علاقہ کون سا ہے ؟یہ نالہ کب نکلا ؟ کس سنہ کی چک بندی میں اسے شامل کیا گیا ؟ جامعہ کی زمین اس کے اندر تھی یا باہر ؟ جامعہ کے ذمہ داران کو اس کی خبر کی گئی یا نہیں ؟ اگر یہ نالہ جامعہ کی چہار دیواری کے اندر ہے تو یہ کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتا ہے ؟ ۔ انتظامیہ نے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ خاص کر جو سرکاری افسران اس میں شامل رہے ہیں یا جس بھو مافیا کے اشارے پر یہ سب کچھ ہوا ہے ان سب پر پوری تیاری کے ساتھ سخت قانونی کارروائی کی جائے گی ۔ انتظامیہ سے لے کر افسران تک پر ہتک عزت کاکیس ڈالا جائے گا ۔
تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ جامعہ کے لیے دعاکریں ، آپسی اتحاد کو مضبوط کریں ، ایسے جہلا اور قوم کے دشمن کو اس کی اوقات یاد دلائیں جو ہمارے خون بہنے سے خوش ہوتا ہے ۔ یاد رکھیے ایسا شخص جسے مسلمانوں کی تکلیف سے خوشی ہوتی ہے وہ لاکھ دعوے کرے لیکن سچائی یہی ہے کہ مسلمانی اسے چھوکر ابھی نہیں گزری ہے ۔