28 اکتوبر 1921
عظیم المرتبت مفسر، جلیل القدر محدث، بلند پایہ مجتہد، مجدد، مصلح، اور نعت گو شاعر ”حضرت مولانا احمد رضاؔ خان بریلوی رحمة ﷲ عليه کا یومِ وفات……
احمد رضاؔ خان بریلوی رحمة ﷲ عليه کو اعلیٰ حضرت، مجدد مائة حاضرہ جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
آپ کی پیدائش ١٠؍شوال المکرم ١٢٧٢ھ مطابق 14؍جون 1856ء کو سوداگران بریلی میں ہوئی۔ آپ شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے۔ آپ کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ آپ کی وجہ شہرت آپ کی حضور اکرمﷺ سے محبت، آپﷺ کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزا رہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ ہے۔ آپ کے فتاوے تقریباً 12 جلدوں پر مشتمل ہیں جو ”فتاوی رضویہ“ کے نام سے موسوم ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہل سنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتی ہے۔ دینی علوم کی تکمیل گھر پر اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمة ﷲ عليه سے کی۔ دو مرتبہ حج بیت ﷲ سے مشرف ہوئے۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیں۔ قرآن کا اردو ترجمہ بھی کیا جو ”کنز الایمان“ کے نام سے مشہور ہے۔ علوم ریاضی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ آپ کو شعر و شاعری سے بھی خاصہ لگاؤ تھا۔ رسول اکرمﷺ کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں۔ اس فن میں آپ نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی۔ عربی، فارسی اور اردو میں سیکڑوں کتابیں تصنیف کیں۔ احمد رضا بریلوی رحمة ﷲ عليه کا تعلق پٹھانوں کے قبیلہ بڑيچ سے تھا۔ آپ کے جد اعلیٰ سعید ﷲ خان قندھار کے پٹھان تھے۔ سلطنت مغلیہ کے عہد میں محمد شاہ کے ہمراہ ہندوستان آئے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ لاہور کا شیش محل انہی کے زیر اقتدار تھا۔ آپ کو مغل بادشاہ نے شش ہزاری کے منصف سے سرفراز کیا اور شجاعت جنگ کا خطاب دیا۔ اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد احمد رضا بریلوی رحمة ﷲ عليه نے اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمة ﷲ عليه سے عربی زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد مرزا غلام قادر بیگ سے میزان، منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ پھر آپ نے اپنے والد نقی علی خان رحمة ﷲ عليه سے کئی علوم پڑھے۔ آپ نے طریقت کی تعلیم خانقاہ برکاتیہ مارہرہ کے سجادہ نشین حضرت سید آل رسول قادری رحمة ﷲ عليه سے حاصل کی۔ مرشد کے وصال کے بعد تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیرہ حضرت سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی رحمة ﷲ عليه سے حاصل فرمایا۔ شرح چغمینی کا بعض حصہ عبد العلی رامپوری سے پڑھا۔ پھر آپ نے کسی استاذ سے بغیر پڑھے محض خدا داد بصیرت نورانی سے علوم و فنون میں دسترس حاصل کیا۔ آپ نے اردو، عربی اور فارسی تین زبانوں میں نعت گوئی و منقبت نگاری کی۔ آپ کا نعتیہ مجموعہ حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے۔ پہلی دو جلدیں آپ کی حیات میں اور تیسری، بعد از وفات شائع ہوئی مگر اس میں رضا کا تخلص رکھنے والے ایک دوسرے عام سے شاعر کا عامیانہ کلام بھی در آیا جس پر کافی تنقید ہوئی۔ اس کو تحقیق کے بعد نکال دیا گیا۔ حدائق بخشش کا اردو نعتیہ شاعری میں ایک اہم مقام ہے۔ متاخر تمام نعت گو شعرا نے اسے اپنے لئے ایک نمونہ مشق قرار دیا۔ اس سے پہلے اردو نعت صرف عقیدت کے طور پر دیوان کے شروع میں شامل نظر آتی تھی مگر حدائق بخشش کے بعد اردو نعت ادب کا ایک مستقل حصہ بنا۔ حدائق بخشش کی نعتیں آج بھی مشہور و معروف ہیں۔
مصطفیٰﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
آپ کا عربی کلام بساتین الغفران کے نام سے موجود ہے۔ آپ کا فارسی کلام ارمغان رضا کے نام سے ادارہ تحقیقات امام احمد رضا رحمة ﷲ عليه نے پہلی بار 1994ء میں شائع کیا۔ اس میں حمد، نعت، قصاید، مناقب اور رباعیات شامل ہیں۔ یا رب زمن بر شہ ابرار درودی برسید و مولائی من زار، درودی بر آبروی آن قبلہ قوسین سلامی بر چشم خطا پوش، عطا بار، درودی۔
امام احمد رضا خاں بریلوی رحمة ﷲ عليه نے ٢٥؍صفر ١٣٤٠ھ مطابق 28؍اکتوبر 1921ء کو جمعہ کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔ (بحوالہ صوفی نامہ۔ پیشکش : شمیم ریاض)
معروف عالم دین و صوفی شاعر امام احمد رضاؔ خاں بریلوی رحمة ﷲ عليه کے یومِ وفات پر منتخب نعتیہ کلام بطور خراجِ عقیدت…..
زہے عزت و اعتلائے محمدﷺ
کہ ہے عرش حق زیر پائے محمدﷺ
مکاں عرش ان کا فلک فرش ان کا
ملک خادمان سرائے محمدﷺ
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمدﷺ
عجب کیا اگر رحم فرما لے ہم پر
خدائے محمد برائے محمدﷺ
محمدﷺ برائے جناب الٰہی
جناب الٰہی برائے محمدﷺ
بسی عطر محبوبی کبریا سے
عبائے محمد قبائے محمدﷺ
بہم عہد باندھے ہیں وصل ابد کا
رضائے خدا اور رضائے محمدﷺ
دم نزع جاری ہو میری زباں پر
محمد محمد خدائے محمدﷺ
عصائے کلیم اژدہائے غضب تھا
گروں کا سہارا عصائے محمدﷺ
میں قربان کیا پیاری پیاری ہے نسبت
یہ آنِ خدا وہ خدائے محمدﷺ
محمدﷺ کا دم خاص بہرِ خدا ہے
سوائے محمدﷺ برائے محمدﷺ
خدا اُن کو کس پیار سے دیکھتا ہے
جو آنکھیں ہیں محوِ لقائے محمدﷺ
جلو میں اجابت خواصی میں رحمت
بڑھی کس تزک سے دعائے محمدﷺ
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
بڑھی ناز سے جب دعائے محمدﷺ
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دعائے محمدﷺ
رضاؔ پل سے اب وجد کرتے گزریے
کہ ہے رب سلم صدائے محمدﷺ
مناجات
یا الہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کَشا کا ساتھ ہو
یا الہی بھول جاوؔں نزع کی تکلیف کو
شاویؔ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو
یا الہی گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات
ان کے پیارے منہ کی صبح جا نفرا کا ساتھ ہو
یا الہی جب پڑے محشر میں شوِر دارو گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الہی جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے
صاحبِ کوثر شہِ وعطا کا ساتھ ہو
یا الہی گریؔ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الہی جب رضاؔ خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو
نعت رسول
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جو ترے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کیے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر
خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں
ہر چراغِ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہیں ، جان کیا نظر آئے
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مَول کے عیب دار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں ، چار پھرتے ہیں
بائیں رستے نہ جا مسافر سُن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بن ہے ، رات آئی
گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم
کیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
انتخاب : شمیم ریاض