تحقیق و ترجمہ عقائد و نظریات

تحقیق ومناظرہ اور لغزش وخطا(قسط دوم)

تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ

قسط اول میں اس امر کا بیان تھا کہ کوشش صرف کرنے کے باوجود محقق ومفتی سے تحقیق وافتامیں لغزش وخطا سرزد ہو جائے تو وہ معذور ہے،بشرطے کہ علم ہونے پر رجوع کر لے۔

اگرعالم ومحقق سے تساہلی وسستی کے سبب غلطی ہوتو معاف نہیں۔ اسی طرح جاہل نے غلط مسئلہ بتایا تو معذور نہیں،کیوں کہ شرعی حکم بیان کر نے کا منصب اسے حاصل نہیں،لہٰذا مسئلہ بیان کر نے کا عمل بھی غلط ہے،اور مسئلہ کی غلطی بھی غلطی ہے۔وہ معذور نہیں۔

(الف)مناظرہ اورافتا کے درمیان فرق:

مناظرہ اور افتامیں فرق ہے۔مناظرہ میں بہت سے امور فرض وتقدیر کے طورپر کہے جاتے ہیں۔بہت سی باتیں اسکات خصم کے لیے کہی جاتی ہیں۔

چندمثالیں درج ذیل ہیں۔

(1) کوئی رافضی کہے کہ حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت قرآن میں منصوص نہیں ہے،پس یہ حضرات حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلیفہ نہ ہوئے۔

اب سنی مناظر اس کے جواب میں کہے کہ شیرخداحضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت بھی قرآن مجید میں منصوص نہیں ہے،لہٰذا تمہاری دلیل کے اعتبارسے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلیفہ نہ ہوئے۔

سنی مناظر کا یہ قول محض اسکات خصم کے لیے ہے۔یہ اس کے عقیدہ کابیان نہیں، کیوں کہ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ یہی ہے کہ شیرخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چوتھے خلیفہ ہیں۔

(2)امام فخرالدین رازی شافعی (۴۴۵؁ھ-۶۰۶؁ھ)نے حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ تحریر فرمایا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دہریہ کوہمیشہ لاجواب کر دیا کرتے،اس لیے وہ لوگ ہمیشہ آپ کے قتل کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے۔ دہریہ لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ دنیا خودبخود وجود میں آ گئی۔

ایک مرتبہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ قدس سرہ العزیزکوفہ میں اپنی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک بہت سے دہریہ تلواریں لہراتے ہوئے آپ کے پاس آگئے،اور آپ کے قتل کا اراد ہ کیا۔آپ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ مجھے ایک سوال کا جواب دے دو، پھر جو چاہو، کرو۔دہریوں نے کہا کہ آپ سوال پیش کیجئے۔

امام اعظم قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ کوئی آدمی تم سے کہے کہ میں نے سمندرمیں سامانوں سے بھری ہوئی اور مال واسباب سے لدی ہوئی ایک کشتی دیکھی ہے،کہ پے درپے موجوں اور آندھیوں وطوفانوں کے بیچ میں صحیح راستے پر اور درست سمت میں جارہی ہے، اور اس کشتی کا نہ کوئی ملاح ہے،اورنہ کوئی نگہبان۔وہ خود بخود صحیح جہت میں اور صحیح راہ پر جارہی ہے۔بتاؤ! کیا عقل اس بات کو درست قرار دیتی ہے؟

دہریوں نے کہا کہ عقل اس بات کوقبول نہیں کرتی ہے،پس حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشادفرمایا کہ جب ایک کشتی بغیرملاح کے خودسے سمندرمیں نہیں چل سکتی تواتنی بڑی دنیا خود سے کیسے بن سکتی ہے،اوربغیر کسی محافظ کے موسم وحالات کے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں خودبخود کیوں کرہوسکتی ہیں۔

یہ جواب سن کردہریوں کو وجود باری تعالیٰ کا یقین ہوگیا۔وہ لوگ رونے لگے،اپنی تلواروں کونیام میں ڈال لیے،اور توبہ کرکے داخل اسلام ہوگئے۔

حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃوالرضوان نے جو خود سے کشتی چلنے کی بات فرمائی،وہ آپ کا عقیدہ نہیں تھا،نہ ہی حقیقی واقعہ تھا,بلکہ دہریہ کی فہمائش کے لیے آپ نے یہ مثال پیش فرمائی تھی۔

اس سے ظاہر ہوگیا کہ مناظرہ میں الزام خصم کے طورپرکچھ کہا جائے تو ضروری نہیں کہ وہ قائل کا عقیدہ ہو۔ممکن ہے کہ الزام خصم کے طورپر ایسا کہا گیا ہو۔

امام فخرالد ین رازی کی عبارت درج ذیل ہے۔

قال فخرالدین الرازی:(کان ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ سیفًا علی الدہریۃ -وکانوا ینتہزون الفرصۃ لیقتلوہ-فبینما ہو یومًا فی مسجدہ قاعد،اذ ہجم علیہ جماعۃ بسیوف مسلولۃ وہموا بقتلہ-فقال لہم:

اجیبونی عن مسألۃ ثم افعلوا ما شئتم-فقالوا لہ،ہات۔

فقال:ما تقولون فی رجل یقول لکم-انی رأیت سفینۃ مشحونۃ بالاحمال مملوءۃ من الاثقال قد احتوشہا فی لجۃ البحر امواج متلاطمۃ وریاح مختلفۃ-وہی من بینہا تجری مستویۃ-لیس لہا ملاح یجریہا ولا متعہد یدفعہا-ہل یجوز ذلک فی العقل؟

قالوا:لا،ہذا شیء لا یقبلہ العقل۔

فقال ابوحنیفۃ:یا سبحان اللّٰہ! اذا لم یجز فی العقل سفینۃ تجری فی البحر مستویۃ من غیر متعہد ولا مجری
فکیف یجوز قیام ہذہ الدنیا علی اختلاف احوالہا وتغیر اعمالہا وسعۃ اطرافہا وتباین اکنافہا من غیرصانع وحافظ؟

فبکوا جمیعا وقالوا:صدقت،واغمدوا سیوفہم وتابوا)
(التفسیر الکبیر: جلد اول:ص255-سورہ بقرہ-داراحیاء التراث العربی بیروت)

(3)مناظرہ وافتامیں ایک فرق یہ بھی ہے کہ مناظرہ میں ایرادات پیش کیے حاتے ہیں اورخصم کے جواب کا انتظار کیا جاتا ہے،تاکہ مخفی حقائق کی عقدہ کشائی ہو،جب کہ افتامیں بحث وتحقیق کے بعد حکم شرعی بیان کیا جاتا ہے۔مناظرہ میں بحث ومکالمہ کے ذریعہ اظہار حق مقصود ہوتاہے،اورافتا کا مقصد احکام شرعیہ کوبیان کرناہوتاہے۔

قال الشامی:(واما المعتزلۃ فمقتضی الوجہ حل مناکحتہم لان الحق عدم تکفیر اہل القبلۃ وان وقع الزاما فی المباحث بخلاف من خالف القواطع المعلومۃ بالضرورۃ من الدین مثل القائل بقدم العالم ونفی العلم بالجزئیات علی ما صرح بہ المحققون-واقول:وکذا القول بالایجاب بالذات ونفی الاختیار-اھ

وقولہ:وان وقع الزاما فی المباحث-معناہ:وان وقع التصریح بکفر المعتزلۃ ونحوہم عند البحث معہم فی رد مذہبہم بانہ کفر،ای یلزم من قولہم بکذا الکفر-ولا یقتضی ذلک کفرہم،لان لازم المذہب لیس بمذہب)(رد المحتار علی الدرالمختار جلدسوم:ص50-دارالفکر بیروت)

ترجمہ:لیکن معتزلہ،پس دلیل ان سے نکا ح کے حلال ہونے کی متقاضی ہے،اس لیے کہ اہل قبلہ کی عدم تکفیر ہی حق ہے،گرچہ مباحث میں الزامی طورپرتکفیر واقع ہوئی،بر خلاف اس کے جس نے ان قطعیات کا انکار کیا جن کا دین سے ہونا بداہۃً معلوم ہے،جیسے دنیا کے قدیم ہونے کا قائل،اور (اللہ تعالیٰ سے)جزئیات کے علم کی نفی کا قائل (کافر ہے)، جیسا کہ محققین نے اس کی تصریح فرمائی۔

اورصاحب در مختارفرماتے ہیں کہ اسی طرح (اللہ تعالیٰ کے)فاعل موجب بالذات ہونے کا قول اور(اللہ تعالیٰ سے) اختیار کی نفی کا قول(کفر ہے)

علامہ شامی نے فرمایا:صاحب درمختار کا قول ”وان وقع الزاما فی المباحث“ اس کا معنی یہ ہے کہ گر چہ معتزلہ وغیرہ کے ساتھ بحث ومناظرہ کے وقت ان کے مذہب کی تردید کرتے ہوئے ان کے کفر کی صراحت وارد ہوئی کہ یہ کفر ہے،یعنی ان کے ایسے قول سے کفر لازم آتا ہے، اوریہ ان کے کافر ہونے کا مقتضی نہیں،کیوں کہ لازم مذہب،مذہب نہیں ہوتا۔

توضیح:متکلمین کے یہاں معتزلہ کافر نہیں۔ان کوبحث ومناظرہ کے وقت لزوم کفر کے سبب صرف بطریق الزام واسکات کافر کہا جاتا ہے۔ فقہا نے اپنے قواعد کے مطابق معتزلہ کو کافر قرار دیا ہے۔فقہا لزوم کفر کے وقت بھی حکم کفر صادر فرماتے ہیں۔
مذکورہ بالا عبارت میں نکاح کی حلت سے مراد یہ ہے کہ نکاح باطل نہیں اوربعد نکاح قربت زنائے خالص نہیں،ورنہ یہ نکاح ناجائز اور گناہ کا کام ہے۔ اس کی تفصیل امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے رسالہ:”ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار“میں رقم فرمادی ہے۔

(ب)مناظراتی ابحاث اور عقائدونظریات:

امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”عقیدہ وہ ہوتا ہے جو متون یا تراجم ابواب وفصول یا فہرست وفذلکہ عقائد میں لکھتے ہیں۔وہی اہل سنت کا معتقد ہوتا ہے۔وہ ہی خود ان علما کا دین معتمد ہوتاہے۔ہنگام ذکر دلائل وابحاث ومناظرہ جوکچھ ضمناً لکھ جاتے ہیں،اس پر نہ اعتماد ہے، نہ خودان کا اعتقاد ہے،اور تواور خود سب سے اعلیٰ واجلیٰ مسئلہ توحید میں ملاحظہ فرمائیے۔اس کلام محدث(جدید علم کلام)میں اس کے دلائل پر کیا کیا نقض وارد کیے ہیں۔ دلائل عقلیہ بالائے طاق رکھئے۔خود برہان قطعی یقینی ایمانی قرآنی۔

لوکان فیہما آلہۃ الا اللّٰہ لفسدتا۔
اگر زمین وآسمان میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور تباہ ہوجاتے۔ (ت)

پر کیا کچھ شور وشغب نہ ہوا، حتی کہ علامہ تفتازانی نے اسے محض اقناعی لکھ دیا جس پر نوبت کہاں تک پہنچی۔کیا معاذ اللہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کو توحید پر ایمان نہیں،یا اس میں کچھ شک ہے۔نہیں یہ صرف طبع آزمائیاں اور بحث ومباحثہ کی خامہ فرسائیاں ہیں جو گمرہوں کے لیے باعث ضلال ودستاویز اضلال ہوجاتی ہیں،اور اہل متانت واستقامت جانتے ہیں کہ:(ما ضربوہ لک الا جدلا بل ہم قوم خصمون)
انہوں نے تم سے یہ نہ کہی مگر ناحق جھگڑنے کو،بلکہ وہ ہیں جھگڑالولوگ۔(ت)
(فتاویٰ رضویہ:جلد 15:ص 515-جامعہ نظامیہ لاہور)

امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”میں نے ”القمع المبین“میں متعدد نظائر اس کے ذکر کیے ہیں کہ ایمان وعقیدہ کچھ ہے،اور بحث ومباحثہ میں کچھ کا کچھ“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد 15:ص 515-جامعہ نظامیہ لاہور)

توضیح: کبھی الزام خصم کے لیے بے توجہی کے سبب بھی بعض ایسی باتیں صادر ہوجاتی ہیں، جس پر حکم شرع لازم آتا ہے، لیکن یہ ان کا مذہب نہیں ہوتا،کیوں کہ وہ صراحت کرتے ہیں کہ یہ ہمارا مذہب نہیں۔وہ ایسی باتیں فرض وتقدیر کے طورپرمحض الزام خصم کے لیے لکھ جاتے ہیں اوروہ باتیں قابل تاویل ہوتی ہیں، اور وہ ان کا عقیدہ بھی نہیں ہوتا،کیوں کہ ان کی صراحت موجود ہوتی ہے کہ یہ ہمارے عقائد نہیں،بلکہ بحث ومناظرہ ہے۔

امام احمدرضا نے رقم فرمایا:”یہ حضرات خود بھی تصریح کرگئے ہیں کہ عقائد معلوم ومتعین ہوچکے۔ابحاث ومشاجرات وغیرہا میں جوکچھ ہم لکھیں،اس پر اعتماد نہ کرو۔عقیدہ سے مطابقت ومخالفت دیکھ لو“۔((فتاویٰ رضویہ:جلد 15:ص 515-جامعہ نظامیہ لاہور)

امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”شرح مواقف میں فرمایا:علیک برعایۃ قواعد اہل الحق فی جمیع المباحث وان لم یصرح بہا۔
تجھ پر تمام مباحث میں اہل حق کے قواعد کی رعایت لازم ہے،اگر چہ ان کی تصریح نہ کی گئی ہو۔(ت)
فتح القدیر ونہرالفائق ودر مختار کتاب النکاح میں ہے:
الحق عدم تکفیر اہل القبلۃ وان وقع الزامًا لہم فی المباحث۔
حق اہل قبلہ کی عدم تکفیر ہے،اگر چہ مباحث میں الزامی طورپر تکفیر واقع ہوئی۔(ت)
شاہ عبد العزیزصاحب نے تحفہ اثنا عشریہ میں تصریح کی کہ جوکچھ میں اس میں کہوں، میرا مذہب نہ سمجھا جائے۔میری باگ ایک قوم بے ادب کے ہاتھ میں ہے۔جدھر لے جاتے ہیں،جانا پڑتا ہے۔بالجملہ مباحث کلام ومناظرہ کا کچھ اعتبار نہیں۔محل بیان عقائد میں جوکچھ لکھا ہے،وہ عقیدہ ہے،یا جس پر صراحۃً اجماع ملت بتایا جائے،یا اسے تصریحاًعقیدہ اہل سنت کہا جائے،یا اس کے خلاف کومذہب گمراہاں بتایا جائے“۔
(فتاوی رضویہ:جلد 15ص515-جامعہ نظامیہ لاہور)

توضیح:کسی سے بحث ومناظرہ میں تسامح واقع ہوجائے تومعذورہے۔لاعلمی میں اگر کفرلزومی بھی صادر ہوجائے اورقائل کواس کا علم نہ ہوسکے تو قائل پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔

(ج)لغزش کے سبب لزوم کفر کا حکم عائد نہیں ہوتا:

قسط اول میں امام احمدرضا قادری کا مفصل فتویٰ منقول ہواکہ ایک عالم نے کسی کے لیے بوجہ لغزش حکم کفرلکھ دیا،لیکن اس پر کوئی شرعی حکم عائد نہیں کیا گیا،حالاں کہ یہ ظاہر ہے کہ مومن کو کافر کہنا کفر ہے تو مفتی پر حکم کفر عائد ہونا چاہئے، لیکن اگر مفتی سے تحقیق میں لغزش وخطاکے سبب ایسا حادثہ درپیش ہوگیا تو لغزش کا علم ہونے پر رجوع کا حکم ہوگا،کفر کا حکم نہیں۔

(1)علامہ میر سیدشریف جرجانی حنفی(۰۴۷؁ھ-۶۱۸؁ھ) نے کفر لزومی سے متعلق تحریر فرمایا:(من یلزمہ الکفر ولایعلم بہ لیس بکافر)
(شرح مواقف:ص556-مطبع نول کشورلکھنو)

ترجمہ:جسے کفر لازم ہو،اوراسے اس کا علم نہ ہوتووہ کافر نہیں۔
(2)امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (۸۹۸؁ھ-۳۷۹؁ھ)نے تحریریر فرمایا: (لا یکفر اذا لم یعلم بان اللازم کفر)(الیواقیت والجواہر:جلددوم:ص 123:مصر)
ترجمہ: جب لزوم کفر کا علم نہ ہوتو مرتکب کی تکفیرنہیں کی جائے گی۔

توضیح:جب مناظر ومباحث کواپنی لغزش کا علم ہوجائے تو اپنی خطا سے رجوع لازم ہے،ورنہ حسب حال حکم شرع وارد ہوگا۔ایسا نہیں کہ بحث ومناظرہ میں کفریات کہنے کی اجازت ہے،بلکہ بے توجہی کے سبب اگر ایسا ہوجائے تو معذور ہے،نیز ان حضرات کا اقرار سابق اور ان کی وضاحت موجود ہوتی ہے کہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں،اس لیے حکم شرع وارد نہیں ہوتا۔

شریعت اسلامیہ کا حکم ہے جب کسی سے اس کا عقیدہ دریافت کیا جائے تو اپنے صحیح عقیدہ کا اقرار ضروری ہے۔

تصدیق قلبی ہرحال میں ضروری ہے اور ضرورت کے وقت اقرار لسانی بھی لازم ہے۔ اقرارکے وقت وہ اپنا صحیح عقیدہ بیان کرے گا،اور بحث ومناظرہ میں صادر ہونے والے غلط کلمات کا بطلان واضح کرے گا۔اگر اصرار کرے گا تو جیسی بات کہی ہے،ویسا حکم عائد ہوگا:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

(د)حکم شرعی اوربحث محض:

(1)علامہ سید ابن عابدین شامی(۸۹۱۱؁ھ-۲۵۲۱؁ھ) نے تحریرفرمایا:}قال العلامۃ قاسم فی حق شیخہ خاتمۃ المحققین الکمال بن الہمام:لا یعمل بابحاث شیخنا التی تخالف المذہب{(شرح عقود رسم المفتی: ص19)

ترجمہ:علامہ محدث قاسم بن قطلوبغاحنفی (۲۰۸ھ؁-۲۸۸؁ھ)نے اپنے شیخ خاتم المحققین کمال ابن ہمام (۰۹۷؁ھ -۱۶۸؁ھ) کے بارے میں فرمایا کہ ہمارے شیخ کی ان بحثوں پر عمل نہیں کیا جائے گا جومذہب کے مخالف ہوں۔
توضیح: امام ابن ہمام حنفی صاحب فتح القدیرفقہ حنفی کے اصحاب الترجیح میں سے ہیں۔وہ مذہب حنفی کے مخالف مسائل کو ترجیح دیں توان پرعمل نہیں کیا جائے گا۔

(2)(کلام البحرصریح فی ان المحقق ابن الہمام من اہل الترجیح حیث قال عنہ انہ اہل للنظرفی الدلیل-وح قلنا اتباعہ فیما یحققہ ویرجحہ من الروایات او الاقوال ما لم یخرج عن المذہب۔

فان لہ اختیارات خالف فیہا المذہب فلا یتابع علیہا کما قالہ تلمیذہ العلامۃ قاسم-وکیف لایکون اہلًا لذلک وقال فیہ بعض اقرانہ- وہو برہان الانباسی:لوطلبت حجج الدین،ماکان فی بلدنا من یقوم بہا غیرہ)(شرح عقودرسم المفتی:ص27)

تر جمہ:البحر الرائق کا کلام اس بارے میں صریح ہے کہ محقق ابن ہمام اصحاب الترجیح میں سے ہیں،جہاں انہوں نے فرمایا کہ وہ دلیل میں نظر وفکر کی اہلیت رکھنے والے ہیں۔

اور اسی وجہ سے ہم نے کہا کہ امام ابن ہمام کا ان روایات واقوال میں اتباع کرنا ہے جن کی وہ تحقیق کرتے ہیں اور جن کووہ ترجیح دیتے ہیں،جب تک کہ وہ مذہب حنفی سے باہر نہ جائیں،کیوں کہ ان کی بہت سی تر جیحات ہیں،جن میں وہ مذہب حنفی کے خلاف گئے،پس ان امور میں ان کا اتباع نہیں کیا جائے گا،جیسا کہ ان کے شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغا نے فرمایا،اور امام ابن ہمام دلیل میں نظر وفکر کی اہلیت رکھنے والے کیوں نہیں ہوں گے،حالاں کہ ان کے بارے میں ان کے بعض معاصرین یعنی فقیہ برہان انباسی نے فرمایا:

”اگرتم دین کے دلائل طلب کروتو ہمارے شہر میں امام ابن ہمام کے علاوہ کوئی نہیں جو دین کے دلائل پیش کر سکے“۔

توضیح:اصحاب الترجیح فقہا کبھی دلائل کی روشنی میں اپنے فقہی مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب فقہیہ کے اقوال کوبھی ترجیح دیتے ہیں،لیکن بلا حاجت شرعیہ دیگر فقہی مذاہب کے اقوال پر عمل نہیں کیا جائے گا،کیوں کہ یہ تلفیق کی صورت ہوگی،اورتلفیق ممنوع ہے۔

تقلید شخصی کو علمائے امت نے واجب قرار دیا ہے،تاکہ تلفیق کی صورت پیدا نہ ہو، اور اتباع شریعت کی جگہ اتباع نفس کی کیفیت رونما نہ ہوجائے،کیوں کہ لوگ اپنی سہولت کی خاطر بعض مسائل میں ایک مجتہد کی تقلید کریں گے،اوربعض دیگر مسائل میں دوسرے مجتہد کی تقلید کریں گے۔یہی تلفیق کی صورت ہے جو ممنوع ہے۔

(ہ)اقوال علما کا صحیح مفہوم مراد لینا واجب:

شریعت اسلامیہ کا حکم یہ ہے کہ اہل علم کے اقوال کو صحیح مفہوم پر محمول کیا جائے،مثلاً کسی عبارت کا دومفہوم ظاہر ہورہاہوتو جوصحیح مفہوم ہے،وہی مفہوم مراد لیاجائے۔

قال شمس الائمۃ السرخسی:(ان الصحۃ مقصود کل متکلم- فمہما امکن حمل کلامہ علٰی وجہ صحیح یجب حملہ علیہ)
(المبسوط: جلدہفتم:ص 4-المکتبۃ الشاملہ)

ترجمہ:ہر متکلم کا مقصود صحت ہوتی ہے،پس جب تک اس کے کلام کو صحیح مفہوم پر محمول کرنا ممکن ہو تواس کے کلام کو صحیح مفہوم پر محمول کرنا لازم ہے۔

توضیح:اگرکسی کلام کے متعددمفاہیم ظاہر ہوں تو ان میں سے جومفہوم اسلام کے موافق ہو، اسی کو اختیار کیا جائے گا۔بالفرض اگر صحیح مفہوم مرادلینے کی گنجائش نہ ہوتو حقائق سے چشم پوشی کرکے غلط کو صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا،کیوں کہ یہ مسلمات میں سے ہے کہ بشرغیر معصوم سے لغزش وخطا کا صدور ہوتا ہے۔ بے جا تاویلات کی ضرورت نہیں۔ اپنی لغزش سے لاعلم ہونے کے سبب قائل معذور قراردیا جائے گا۔علم کے بعد رجوع کا حکم ہوگا۔

پس اگر ایسی عبارت باب تحقیقات کی ہو تو لغزش وخطا پر محمول کیا جائے گا۔اگر ایسا کلام مناظراتی مباحث میں نظر آئے تو یہی سمجھا جائے گا کہ الزام خصم واسکات مقابل کے لیے یہ کلام پیش کیا گیا ہے۔باب قطعیات میں ایک ہی قول حق ہوتا ہے،یعنی جو اصول وقوانین کے موافق ہو۔

باب ظنیات میں کچھ تفردات بھی ہیں،اور بعض مرجوع ومرجوح اقوال بھی۔بعض مفتی بہ اوربعض غیر مفتی بہ۔بعض صحیح اور بعض اصح۔باب قطعیات میں مختلف صورتیں نہیں۔

قطعیات میں ایک قول حق وصحیح ہوگا،اس کے علاوہ سب باطل وغلط۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:18:مارچ2021
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے