ازقلم : شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا بازار
میری نظروں میں ہے وہ سب سے سنہرا بادل
میرے سرکار پہ کرتا تھا جو سایہ بادل
میرے محبوب کا پاتا جو اشارہ بادل
میرا ایمان ہے ہو جاتا دو پارہ بادل
میرے سرکار کا بچپن بھی تھا کتنا اچھا!
ان پہ کرتا تھا ہمہ وقت ہی سایا بادل
خاک پاۓ شہ ابرار کا صدقہ پا کر
اپنی تقدیر پہ پھولے نہ سمایا بادل
مزرع فکر پہ الہام کی بارش کرنے
اذنِ سرکار لئے دیکھ لو آیا بادل
فضلِ مولیٰ سے ذرا دیکھئے دنیا بھر میں
"رحمتِ سید کونین کا چھایا بادل”
سوزشِ ہجر سے جلتا ہے کلیجہ میرا!
بارش وصل سے کر اس کو تو ٹھنڈا بادل
خاک کچھ قلزم آلام بگاڑیں گے مرا!
مجھ پہ کرتا ہے ترے نام کا سایا بادل
مرضی سید ابرار ہے بیشک ورنہ!
تیری اوقات ہی کیا تھی تو گرجتا بادل
قدم سید عالم کا ہے صدقہ، ورنہ
اپنا ماتھا نہیں کر پاتا تو اونچا بادل
نعتِ سرکار مدینہ کی تو بارش لے کر
کشت ادراک پہ آ، اور برس جا بادل
واۓ ناکامئ حسرت، تری حسرت کو سلام!
کوچے شہر محمد کا میں ہوتا بادل
بردۂ شہر نبی لا کے مرے لاشے پر
شکل باران میں اے کاش برستا بادل
بادۂ عشق محمد سے ہوا ہے سیراب
تب کہیں جا کے ہوا اتنا سنہرا بادل
دل کے قرطاس پہ ہے نام نبی کا لکھا
دیکھ کر کے اسے ہے خوب مچلتا بادل
پاتا جو شاہ مدینہ کا جوار رحمت
میں تجھے پھر تری اوقات بتاتا بادل
مہرومہ کیاہیں؟شجر کیا ہے ؟یہ کنکر کیاہے؟
حکم دیتے وہ اگر دوڑ کے آتا بادل
لوحِ محفوظ سے میں نعت کے الفاظ چنوں!
میرے بھی مرغ تخیل کو دے رستہ بادل
اخترِ خستہ پہ الطاف کی بارش کرنے
شہر سرکار مدینہ سے ہے آیا بادل