ازقلم: شیبا کوثر
برہ بترہ ضلع آرہ بہار انڈیا
ایک طرف کرونا وبا ء کی تیسری لہر کی آہٹ ہے تو دوسری طرف بےخوف عوام، جسے زندگی کی کشمکش سے اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ یہ سوچےکہ کرونا کی وبا ء ابھی ختم نہیں ہوا ہے اس لئے کرونا پر و ٹو کول کی پیر وی کی جائے ۔نہ تو منھ پر ماسک نا سماجی دوری کا احساس حکومت کے بار بار اعلان کے باوجود اور سماجی تنظیموں اور مذہبی رہنماؤں کی لاکھ کوشش کے باوجود زیادہ تر آبادی اپنے حال میں مگن نظر آتی ہے شہر وں اور بازاروں کا حال دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ جیسے وبا ئی مرض اب ختم ہو گیا ہے اور لوگ دوسری لہر کے خوفناک مناظر کو بھول گئے جب موت سر پر ناچتی نظر آرہی تھی اور ہر شخص موت کے سائے میں جی رہا تھا ۔یہ ہے ہمارے ہندوستان کی اصل تصویر ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس سماج میں معاشی تنگی رہیگی اور تعلیمی بیداری نہیں پایا جائے گا وہاں کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہوگی ۔کیونکہ بھوکے ننگے لوگوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ کون سی چیز انہیں موت کے قریب کر دے گی اور کیا ان کی صحت کے لئے مضر ہے ۔جہاں لوگ سڑ ے گلے پھلوں کو بھی اس لئے خرید لاتے ہیں کہ وہ انہیں کم قیمت میں مل جاتا ہے اور خراب کھانا بھی کھانے سے نہیں کترا تے ہیں کیونکہ انہیں تو اپنی بھوک مٹا نی ہے گندی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں چونکہ ان کو سر چھپانا ہے ۔سڑک کے فٹ پاتھ پر سونے کو مجبور ہیں اس لئے کہ گندی بستی میں بھی انہیں جگہ میسر نہیں اور شہر میں رہنا مجبوری ہے کہ دو وقت کی روٹی انہیں یہیں سے مل پاتی ہے ایسے حالات میں کوئی کرے تو کیا کرے والا معاملہ نظر آتا ہے ۔ویکسینشن کا بھی یہی معاملہ ہے لوگوں کے اندر کتنے طرح کے بھرم پیدا ہو گئے ہیں کہ پوچھئے مت کوئی کہتا ہے کہ اسے لگوا نے کے بعد لوگ نا مرد اور بانجھ ہو جاتے ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ اس کے لگوا نے کے دو سال بعد لوگ مر جائیں گے ۔اور کوئی ایمانی جذبہ میں اتنا بے خوف ہو جاتا ہے کہ کہتا ہے کہ موت ہوگی تو مر جائیں گے ۔انجکشن لگوا نے کی کیا ضرورت ہے اس بیچارے کو اس کا علم ہی نہیں کہ اللّه کا کیا حکم ہے کہ اگر کوئی وبا ء یا بیماری پھیل جائے تو اس کا علاج اور دوا کرنا ضروری ہے ورنہ خودکشی جیسا معا ملہ ہوگا ۔یہ تو وہی ہوا کہ زلزلہ آئے اور ہم گھر میں بیٹھے رہیں اور یہ کہیں کہ موت آنی ہوگی تو آجاۓ گی ۔جان بچانے کی تد بیر نہیں کریں گے ۔اللّه کا حکم تو یہ ہے کہ ہم جو بھی ہو تدبیر کریں اور پھر اللّه پر پورے طریقے سے بھروسہ کریں مگر ہر جگہ وہی جہالت آڑ ے آتی ہے دنیا کے معاملے میں جو حال ہے وہی حال عام طور سے مذہب کے معاملے میں بھی ہے کہ لوگ مذہب کو تو مانتے ہیں مگر مذہب کیا ہے اس کے تقاضے اور اصول کیا ہیں اس سے کافی دور نظر آتے ہیں وجہ پھر وہی ہے دینی اور دنیا وی تعلیم سے دوری
اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے لوگوں کو ہر طرح کی تعلیم سے آرا ستہ کیا جائے ان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے ،سماج میں جب علم کی روشنی پھیلے گی تو لوگوں کے اندر شعور بیدار ہوگا ۔اچھے برے کی پہچان ہوگی ۔اور پھر کوئی بھی سماجی تحریک کامیاب ہو سکے گی ۔چونکہ کسی بھی تحریک یا سماجی بدلاؤ کو کامیاب بنانے میں عوام کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔جب تک عام لوگوں کا ساتھ نہیں ملتا ہے کوئی بھی سماجی تحریک کامیاب نہیں ہو پاتی ہے کرونا کے معاملے میں بھی ہہی بات آڑ ے آرہی ہے ،نا سمجھ اور بے شعور لوگ اس کی خو فناکی کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں ۔اگر ہم نے اس کو ہلکے میں لیا تو اس کے کتنے برے اور خطرناک انجام ہو سکتے ہیں ۔ہر کچھ دن بعد کرونا وائر س شکل تبدیل کر نئے شکل میں سامنے آ رہا ہے پہلے کووڈ نا ئینٹین ،بلیک فنگس ،و ہا ئٹ فنگس ،ڈ یلٹا _ بی ویرنیٹ اور اب پھر ایک نیا وائرس سامنے آیا ہے جس کا نام منکی بی وائرس ،اس وائرس کا بھی پتہ چین میں ہی چلا ہے ۔دنیا کو کرونا وائرس کی وبا ء میں ڈالنے والے ملک چین سے ہی اس کی آہٹ مل رہی ہے ۔گذشتہ ہفتے میں منکی بی ،وائر س کی وجہ سے ایک ڈاکٹر کی موت ہوگئی جس کی وجہ کر دنیا میں پھر ایک بار ایک نئے وائر س کے خوف کا سایہ منڈ لانے لگا ۔عالمی ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق چین میں ویٹر نر ین ڈاکٹر کی موت منکی بی وائر س کی وجہ سے ہو گئی ۔رپو رٹ کے مطابق جانوروں پر تحقیق کرنے والے تر پن سالہ ڈاکٹر کی موت کی چین نے سرکاری طور پر تصدیق کر دی ۔اس رپو رٹ کے بعد دنیا میں اب یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ منکی بی وائر س کتنا خطرناک ہے اس کے علامت کیا ہیں اور کیا یہ وائر س بھی دنیا میں کرونا وبا ء کی طرح پھیل جائے گا۔گلو بل ٹائمس کی رپو رٹ میں کہا گیا ہے بندر سے پیدا ہونے والے اس وائر س کی تصدیق دار لحکومت بیجنگ میں مقیم ایک ویٹر نر ین میں ہوئی ہے لیکن علاج کے دوران اس ڈاکٹر کی موت ہو گئی ہے اس رپورٹ کے مطابق اس وائر س کا نام منکی بی ،یعنی ( بی و یہے ) ہے۔ ڈاکٹر اس وائرس کے ساتھ رابطےمیں آنے کے بعد کافی بیمار ہوگیا تھا۔تاہم ابھی چین کے سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیا ہے ڈاکٹر کے ساتھ رابطے میں آنے والے تمام افراد ٹھیک ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین اس بار کئی مہینوں سے کرونا وائر س کے بارے میں حقیقت چھپاتا آرہا ہے اور اس بار بھی وہ کتنا سچ بول رہا ہے ۔
گلو بل ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق منکی بی وائر س کی وجہ سے اپنی جان گنوا نے والے ڈاکٹر لیبار ٹری میں مردہ بندر وں پر تحقیق کر رہا تھا ۔رپورٹ میں یہ کہا گیا ہےکہ اس سال مارچ کے شرو عاتی دنوں میں ڈاکٹر کی طبیعت خراب ہوئی تھی اور اسے الٹی اور متلی کی شکایت آنی شرو ع ہوئی تھی طبیعت خراب ہونے پر ڈاکٹر کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا ۔رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر مردہ بندر وں کے رابطوں میں
آنے
کے بعد بیمار ہو گیا۔چینی مرکز برائے بیماریو ں کے کنٹر ول اور روک تھام کے ہفتہ کے روز چائنا سی ڈی سی ویکلی انگلش پلیٹ فارم میں نئے وائرس سے ڈاکٹر کی موت کا انکشا ف کیا ہے ۔ڈاکٹر وں کے مطابق منکی بی وائر س براہ راست رابطے میں آنے کے ذریعہ ایک شخص سے دوسرے شخص تک پھیل سکتا ہے اور یہ وائرس ایک جسم سے دوسرے جسم میں اگر رابطے میں پھیل سکتا ہے سب سے پہلے اس وائر س کا انتخاب( انیس سو تیتس 1933) میں ہوا تھا جس وقت اسے مو کاک بی وائر س کے نام سے جانا جاتا تھا اس وقت لگ بھگ بارہ سالوں میں تقریباً دو درجنوں سے زیادہ افراد۔ ہلاک۔ ہوئے جن میں پانچ کو یا تو بندر نے کاٹ لیا تھا یا ان لوگوں کو نوچ دیا تھا یا پھر کسی بھی طرح سے بندر کے اندر سے نکلے ر قیق مادّہ کے رابطے میں آ گئے تھے۔
منکی بی وائرس بھی مو کاک وائر س کا ایک ویر یںنٹ ہے لیکن یہ زیادہ خطرناک اس لئے ہے کہ اس میں اموات کی شرح ستر فی صد سے اسی فی صد کے لگ بھگ ہو سکتا ہے ۔اس لئے یہ وائر س انسانوں کے لئے بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔عام طور سے ڈاکٹر وں کے مطابق منکی وائر س کی علامت یہ ہے کہ اس وائر س میں متاثر ہ افراد میں پہلے سردی اور بخار کی علامت ظاہر ہوتی ہیں اور پھر قے ہونا شروع ہو جاتا ہے اس کے ساتھ ہی سردی بھی محسوس ہوتی ہے اور جسم میں کافی درد ،تھکاوٹ اور سر درد ہوتا ہے ۔منکی بی وائرس کی علامت ایک سے تین ہفتوں میں ظاہر ہوجاتے ہیں ۔اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ بات واضح ہو چکی ہے منکی بی وائر س کرونا وائر س کی طرح نہیں پھیل سکتا ہے کیونکہ اس وائرس میں موجود اسپا ئک پرو ٹین ہوتا ہے ۔انسانی جسم میں کافی حد تک داخل ہونے کے لئے بہت کمزور ہوتا ہے یہ وائر س ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتا تو ہے اس کے پھیلاؤ کی رفتار بہت کم ہے لیکن ساتھ ساتھ ڈاکٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ وائر س اپنی نئی شکل تیار کر لے تو اس کے پھیلا ؤ کی رفتار تیز بھی ہوسکتی ہے ۔اس لئے ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ کرونا وائر س کی طرح چین کو منکی بی وائر س کے بارے میں جھوٹ نہیں بولنا چاہئے اور حقیقت سے صحیح طورپرآگاہ کرنا چاہئے کیونکہ اس بدلےہوئےویرینٹ سے شرح اموات کافی ہو سکتی ہے۔
اس لئے وبا ء کے اس دور میں حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے لوگوں کے اندر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اسے ایک مہم کی طرح لیکر آگے بڑھنا پڑے گا ۔لوگوں کے اندر جاکر کورونا پرو ٹو کول کی جانکاری دینی پڑے گی اس میں سماجی تنظیم کا رول اہم ہو جاتا ہے ۔جو حکومت کے ساتھ مل کر مقامی سرکاری افسر کی مدد لے کر اور ان کا ساتھ دیکر اپنے اپنے علاقے میں ایک پلاننگ کے تحت کام کریں ۔سچ مچ یہ ایک بڑاکام ہے جس کے لئے وقت ،محنت اور مناسب بجٹ کی ضرور ت ہے اور جب تک ہم پورے طریقے سے کرونا پرو ٹو کول کی پیروی نہیں کریں گے اس مہلک وبا سے نجات ملنا ممکن نہیں ۔!!