امسال عید الاضحی 1442سے قبل فرقہ بجنوریہ کا ایک فتویٰ نظر نواز ہوا،جس میں فتاویٰ رضویہ کے حوالہ سے طوسی کی عدم تکفیر کا ذکر ہے ،پھر اس سے استدلال کرتے ہو ئے اشخاص اربعہ کے کفریات کلامیہ کی تاویل کرنے والے دیابنہ کی عدم تکفیر کا ذکر ہے۔
وجہ اشتراک تاویل کفر ہے ، یعنی طوسی بھی اپنے شیعہ رہنماؤں کے کفریات کی تاویل کرتا تھا ،اور عہد حاضر کے دیابنہ بھی اشخاص اربعہ کے کفریات کی تاویل کرتے ہیں۔جب طوسی تاویل کفر کے سبب کافر نہیں تو دیابنہ بھی تاویل کفر کے سبب کافر نہیں ہوں گے ۔
دراصل حقائق سے چشم پوشی اور اصطلاحات سے ناآشنائی کے سبب ایسے خیالات ذہن وفکرمیں جنم لیتے ہیں ۔ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے دیوبندیوں کا حکم جا بجا رقم فرمادیا ہے کہ جوشخص عناصر اربعہ کے کفریات کلامیہ سے واقف وآشنا ہوکر بھی ان لوگوں کو کافر نہ مانے ،وہ بھی کافر ہے۔اسی طرح یہ بھی رقم فرمادیا ہے کہ کفر کلامی کی تاویل کفر ہے۔
امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیزعظیم المرتبت فقیہ بھی تھے ،اور فقید المثال متکلم بھی ۔ان کے بہت سے فتاویٰ میں مذہب متکلمین کا بیان ہے، اور بہت سے فتاویٰ میںمذہب فقہا کا بیان ہے۔ بعض فتاویٰ علم کلام کے اعتبارسے ہیں اور بعض فتاویٰ علم فقہ کے اعتبارسے ۔ امام احمد رضا قادری کی حیات مبارکہ میں ہی حضورمفتی اعظم ہند قدس سرہ القوی نے ’’الموت الاحمر ‘‘میں اس بات کی صراحت فر مادی تھی۔
اسماعیل دہلوی سے متعلق ’’الکوکبۃ الشہابیہ‘‘ اور’’سل السیوف الہندیہ‘‘ کی اکثر عبارتیں فقہی اصطلاحات کے اعتبارسے ہیں اور دونوں رسائل کا اخیر حصہ علم کلام کے اعتبار سے ہے ، اسی لیے اخیر حصہ میں اسماعیل دہلوی کے کفر کلامی کا انکار ہے ،اور شروع کے حصوں میں کفر فقہی کا اثبات ہے۔ ان مباحث کے سبب بعض دیابنہ حیرت میں مبتلا ہوئے ،اور اعتراض کر بیٹھے۔
انہی سوالوں کے جوابات ’’الموت الاحمر ‘‘میں ہیں۔تمہید ایمان میں سارے مباحث علم کلام کے اعتبارسے ہیں ،اسی لیے اس میں دہلوی کی عدم تکفیر کا ذکر ہے۔
فتاوی رضویہ جلد سوم (قدیم)کے متعددفتاویٰ میںکافر فقہی کی اقتدا میں نماز کو مکروہ تحریمی واجب الا عادہ بتایا گیا ہے ۔ یہ حکم علم کلام کے اعتبارسے ہے۔
فقہا کے یہاں کافر فقہی کی اقتدا میں نماز باطل ہوگی،فرضیت ادا نہیں ہوگی ۔دوبارہ نما ز پڑھنا فرض ہوگا ۔ اس کا ذکر فتاوی رضویہ جلد چہارم (قدیم)میں ہے۔
فقہائے کرام جب عوام مسلمین کو فتویٰ دیں تو نماز کے بطلان کا فتویٰ دیں ۔باب عملیات میں فقہا ئے کرام ہی کا فیصلہ نافذالعمل ہوتاہے۔ باب اعتقادیات میں متکلمین کا فیصلہ نافذالعمل ہوتا ہے۔ اس کا ذکر ہم نے ’’فرقہ وہابیہ:اقسام واحکام‘‘میں کر دیا ہے۔
طوسی سے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کا فتویٰ مذہب متکلمین کے اعتبار سے ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ فرقہ بجنوریہ کی توجہ اس جانب نہیں جا سکی۔ایسے موقع پر اصطلاح سے ناآشنا لوگوں کو مشکل درپیش ہوسکتی ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس مضمون میں مرقوم توضیحات وتشریحات کافی ہوںگی ۔فتاویٰ رضویہ کا سوال وجواب درج ذیل ہے۔
مسئلہ ۴۷: مرسلہ حامد علی، طالب عالم: مدرسہ اہل سنت وجماعت بریلی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص نصیر الدین طوسی ملوم ومذموم کو بلفظ: مولی الاعظم اورقدوۃ العلماء الراسخین اور نصیر الملۃ والدین قدس سرہ تعالیٰ نفسہ روح رمسہ (بڑا مولیٰ، پختہ علما کے پیشوا، دین اور ملت کے مددگار، اللہ تعالیٰ ان کے نفس کو پاک کرے اور ان کی ہڈیوں کو آرام پہنچائے۔ ت) سے تعبیر کرے تو ایسے کو فاسق یا کافرنہ جاننے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوا یا نہیں؟ اگر نہ ہواتوفاسق بھی ہوا یانہیں؟
امید کہ دلیل عقلی ونقلی سے اس کا اثبات فرمایا جائے۔
الجواب:طوسی کا رفض حدکفرنہ تھا ،بلکہ اس نے حتی الامکان اپنے اگلوں کے کفر کی تاویلات کیں، اور نہ بن پڑی تو منکر ہوگیا اور اس کی ایسی توجیہ گناہ ضرور ہے ،اور منطقی فلسفی شراح ومحشین معصوم نہیں ۔جہاں جہاں اس نے خلاف اہل سنت کیا ہے ،اس کا رد کردیا گیا : واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ :جلد21 :ص220-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح:اگرمذکورہ بالا فتویٰ کی یہ تشریح کی جائے کہ طوسی چوں کہ متقدمین روافض کے کفریات کی تاویل کرتا تھا ،اس لیے وہ کافر نہیں ،بلکہ کفریات کی تاویل کے سبب صرف گنہگار ہے،پس اس تشریح پرمندرجہ ذیل سوالات واردہوں گے۔
(الف)جب طوسی صرف گنہگار تھا تو اس کا شمار روافض میں کیوں ہوا؟اس کا شمار اہل سنت میں ہونا چاہئے ۔کیوں کہ گناہ یعنی فسق عملی کے سبب کوئی اہل سنت سے خارج نہیں ہوتا ۔اگر شعار رفض کے سبب اس کا شمار روافض میں ہے تو شعاربدمذہبیت اختیار کرنے کے سبب اس پر حکم ضلالت عائدہوگا ۔وہ محض گنہ گار نہیں ،بلکہ گمراہ تسلیم کیاجائے گا ۔
(ب)کفر کلامی کی تاویل کے ذریعہ کافر کلامی کو مومن ماننا کفر کلامی ہے۔ اسی طرح کفر فقہی قطعی کی تاویل کے ذریعہ کافر فقہی قطعی کو مومن کامل ماننا کفر فقہی ہے ۔جب طوسی کفریات کی تاویل کرتا تھا تو وہ کفریات جیسے ہوںگے،ویسا ہی حکم اس پر وارد ہوگا ۔
(۱)اگر کفر کلامی کی تاویل کرکے روافض کو مومن مانتاتھا تووہ کافر کلامی ہوگا۔
(۲)اگر کفر فقہی قطعی کی تاویل کرکے روافض کومومن کامل مانتا تھا تو کافر فقہی ہوگا ۔
(۳)کفر فقہی ظنی میں فقہا کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ اس کے حکم میں تفصیل ہے ۔کفرفقہی ظنی سے متعلق قاضی مقلد اور مفتی مقلد کے لیے جدا گانہ احکام ہیں۔
(۴)وہ کفر احتمالی جس میں جانب کفر مرجوح ہو، اور جانب ایمان راجح ہو، اس کی تاویل کفر نہیں ،اور ایسے کلام کے سبب قائل پر حکم کفر نہیں ،بلکہ ایسا کلام کرناکبھی حرام وناجائز اورکبھی خلاف اولیٰ واسائت شمار ہوتا ہے ۔ الحاصل احتمال کفر جس قدرمرجوح ومضمحل ہوگا ، اسی قدر حکم میں تخفیف ہوگی۔
(ج)اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایا کہ جہاں جہاں طوسی نے خلاف اہل سنت کوئی قول کیا ہے ،اس کا رد کر دیا گیا ہے۔ خلاف اہل سنت جوبات ہو، وہ یاتو ضلالت غیر کفریہ ہوگی ،یا ضلالت کفر یہ ہوگی۔ ضلالت کفریہ کی دوقسم ہے ۔کفر فقہی اور کفر کلامی ۔
جو شخص خلاف اہل سنت قول کرے ،وہ محض گنہ گار نہیں ہوگا ،بلکہ خلاف اہل سنت امریا تو ضلالت غیر کفریہ ہوگا ،جیسے تفضیلیہ کا عقیدئہ تفضیل مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔یا وہ امر کفر فقہی ہوگا ،یا کفر کلامی ۔ایسی صورت میں طوسی محض گنہ گار نہیں ہوگا ،بلکہ گمراہ (غیرکافر)،یا کافر فقہی، یا کافر کلامی ہوگا۔جوابات میں طوسی او ر عہدماضی کے روافض کا حکم مرقوم ہے ۔
مذکورہ سوالوں کے اجمالی جوابات
جوا ب اول:
طوسی کوجس کفر سے بری بتایا گیا ہے ،وہ کفر کلامی ہے ۔عہد ماضی کے روافض کافر فقہی تھے ،کافر کلامی نہیں تھے۔طوسی بھی متقدمین روافض میں سے ہے۔عہد ماضی کے روافض کے کفر فقہی کے اسباب ووجوہات رسالہ:رد الرفضہ میں مرقوم ہیں ۔
جواب دوم:
یہاں گنہ گار ہونے سے کافر فقہی ہونا مرادہے۔ اس کفر فقہی کو متکلمین ضلالت کا نام دیتے ہیں ۔متکلمین وفقہابسا اوقات گنہ گار (آثم)کالفظ کافر کلامی کے واسطے ،کبھی کافر فقہی وگمراہ کے لیے اور کبھی ناجائز وحرام کے مرتکب کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔سیاق وسباق اورقرائن حالیہ وقرائن مقالیہ کے ذریعہ معنی مرادکا تعین ہوتاہے۔
جواب اول کی تفصیل
امام احمدرضا قادری نے عہد ماضی کے مشہور رافضی مجتہدین کو غیر کافر کہا ہے، حالاں کہ وہ لوگ کوئی تاویل نہیں کرتے تھے ۔ان کو کافر نہ کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ سب کافر کلامی نہیں ۔ امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز باب تکفیر میں متکلمین کے مذہب پر تھے ۔ متکلمین کافر فقہی قطعی کو گمراہ کہتے ہیں ، اورکفر فقہی قطعی کو ضلالت سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ محض اصطلاح کا فرق ہے۔ ذیل کے اقتباس میں اس امر کی جانب بھی اشارہ ہے۔
امام احمد رضا قادری نے رسالہ:’’الادلۃ الطاعنۃ فی اذان الملاعنہ‘‘میں رقم فرمایا:
’’ اگر کوئی شخص کہے:((قوم شیعہ میں بعد عبدالرزاق بن ہمام کے جس نے ۲۱۱ھ میں انتقال کیا، بلا فصل بہاؤ الدین املی ہونے سے محفوظ اور بظاہر نام اسلام سے محفوظ رہے) ) ۔
تو کیا اس نے ان دونوں کے بیچ میں جتنے شیعے گزرے، مثل طوسی وحلی وکلینی وابن بابویہ وغیرہم سب کو کافر ملعون نہ کہا۔ نہیں نہیں یقینا اس کے کلام کا صاف صاف یہی مطلب ہے جس کے سبب ہم اہل حق بھی اس لفظ پر انکار کریں گے اور اسے ناپسند رکھیں گے کہ ہمارے نزدیک بھی ان سب پر علی الاطلاق حکم کفر ولعنت جائز نہیں۔
انصاف کیجئے ،کیا اگر یہ بات ا علانیہ برسر بازار پکاری جائے تو شیعہ کو کچھ نا گوار نہ ہوگا، یا وہ اسے صریح توہین وتذلیل نہ سمجھیں گے ، حالاں کہ اس بیچ میں جتنے شیعے گزرے ، کسی کی مدح وعقیدت شیعہ کے اصول مذہب میں داخل نہیں، نہ معاذاللہ قرآن وحدیث یا اقوال ائمہ اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم ان لوگوں کی نیکی وخوبی پر دال‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد23-ص472-473-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح:(۱)مذکورہ بالا عبارت کا درج ذیل اقتباس زیر بحث ہے:
((قوم شیعہ میں بعد عبدالرزاق بن ہمام کے جس نے ۲۱۱ھ میں انتقال کیا، بلا فصل بہاؤ الدین املی ہونے سے محفوظ اور بظاہر نام اسلام سے محفوظ رہے)
اقتباس بالاکا مفہوم یہ ہے کہ قوم شیعہ میں محدث عبدالرزاق بن ہمام(م 211ھ) سے بہاء الدین آملی(۹۵۳ھ-۱۰۳۰ھ) تک نہ کوئی مجتہد ہوا ،نہ ہی کوئی مسلمان ہے۔
(۲)مذکورہ بالا عبارت کے منقولہ ذیل اقتباس پر غور کریں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ واضح ہو جائے گا کہ ان مذکورین کے کفر کلامی کا انکار ہے۔ اس انکار کا سبب شیعہ روافض کے کفریات کی تاویل نہیں ،بلکہ درحقیقت متقدمین شیعہ کافر کلامی نہیں تھے ،بلکہ کافر فقہی تھے ۔
’’مثل طوسی وحلی وکلینی وابن بابویہ وغیرہم سب کو کافر ملعون نہ کہا۔ نہیں نہیں یقینا اس کے کلام کا صاف صاف یہی مطلب ہے جس کے سبب ہم اہل حق بھی اس لفظ پر انکار کریں گے اور اسے ناپسند رکھیں گے کہ ہمارے نزدیک بھی ان سب پر علی الاطلاق حکم کفر ولعنت جائز نہیں ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ:جلد23-ص472-473-جامعہ نظامیہ لاہور)
مذکورہ بالا افراد مذہب روافض کے اکابر مجتہدین ہیں ،اور متقدمین میں سے ہیں ۔
فلسفی نصیر الدین طوسی (579ھ-653ھ)،حسن بن یوسف بن مطہر حلی (648ھ -726ھ)، ابو جعفر کلینی(249ھ-329ھ)،ابن بابویہ :علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی(م329ھ)وغیرہ متقدمین شیعہ مجتہدین میںسے ہیں ۔بہاء الدین عاملی :محمدبن عز الدین حسین اصفہانی (953ھ-1030ھ)روافض کے فرقہ اثنا عشری کا مجتہد تھا ۔
بفرض محال یہی مان لیا جائے کہ طوسی نے تاویل کی تھی ،اس لیے امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے اس کی تکفیر نہیں کی ،لیکن دیگر مجتہدین کی عدم تکفیر کی وجہ کیا ہے ؟
درحقیقت متکلمین کافر فقہی کو گمراہ اور کفر فقہی کو گمرہی کا لقب دیتے ہیں ۔امام اہل سنت علیہ الرحمۃ والرضوان باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر تھے ،اسی لیے فرما رہے ہیں کہ :
’’ہمارے نزدیک بھی ان سب پر علی الاطلاق حکم کفر ولعنت جائز نہیں ‘‘۔
(۳)متقدمین روافض پر کفر کلامی کا حکم نہیں ۔ان پر صرف کفر فقہی کا حکم ہے۔ بعد کے روافض نے ایسے عقائد اختیار کیے جوکفر کلامی پر مشتمل ہیں ،تب ان پرکفر کلامی کا حکم عائد ہوا۔
(الف)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے عہد ماضی کے رافضیوں کوصرف بحکم فقہا کافرومرتد قراردیا۔کافر کلامی قرار نہیں دیا ۔عبارت مندرجہ ذیل ہے۔
’’جواب سوال دوم:بلاشبہہ رافضی تبرائی بحکم فقہائے کرام مطلقا کافر مرتد ہے۔اس مسئلہ کی تحقیق وتفصیل کو ہمارا رسالہ: رد الرفضہ بحمداللہ کافی ووافی ‘‘ ۔
(فتاویٰ رضویہ :جلد ششم ص36-رضا اکیڈ می ممبئ)
(ب)عہد حاضر کے روافض قرآن عظیم کو ناقص بتانے اور حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل بتانے کے سبب کافر کلامی قرار پائے ۔ مندرجہ ذیل عبارت میں دونوں قسم کے روافض کا ذکر ہے۔
تبرائی روافض کے بارے میں رسالہ :رد الرفضہ میں ہے:’’یہ حکم فقہی مطلق تبرائی رافضیوں کا ہے،اگرچہ تبرا وانکار خلافت شیخین کے رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوا ضروریات دین کا انکار نہ کرتے ہوں: والاحوط فیہ قول المتکلمین انہم ضلال من کلاب النار،لا کفار-وبہ ناخذ۔
اور روافض زمانہ توہرگز صرف تبرائی نہیں ،بلکہ یہ تبرائی علی العموم منکران ضروریات دین اور باجماع مسلمین یقینا قطعا ً کفار مر تدین ہیں،یہاں تک کہ علمائے کرام نے تصریح فرمائی کہ جوانہیں کافر نہ جانے ،وہ خود کافر ہے ۔بہت عقائد کفریہ کے علاوہ دو کفرصریح میں ان کے عالم ،جاہل،مرد،عورت،چھوٹے ،بڑے سب بالاتفاق گرفتار ہیں ‘‘۔
(رسالہ :ردالرفضہ ص259-فتاویٰ رضویہ : جلد 14:جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح:دو کفر صریح یہ ہیں:(۱)قرآن مقدس کوناقص ماننا (۲)حضرات ائمہ اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام سے افضل ماننا ۔
مذکورہ دونوں امر کفر کلامی ہیں ،اسی سبب سے عہد حاضر کے شیعہ کافر کلامی ہوئے۔
(ج)امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے رسالہ:رد الرفضہ کے اخیر میں تیرہویں صدی کے رافضی مجتہدین کے بارے میں رقم فرمایا :’’روافض کے مجتہدان حال نے اپنے فتووں میں ان صریح کفروں کا صاف اقرار کیا ہے‘‘۔
(رسالہ: ردالرفضہ ص264-فتاویٰ رضویہ : جلد 14:جامعہ نظامیہ لاہور )
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے اس کے بعد تیرہویں صدی کے روافض مجتہدین میں سے میرآغا کا دوفتویٰ اور سیدعلی محمد کا دوفتویٰ نقل فرمایا۔چاروںفتاویٰ ضروریات دین کے انکار پر مشتمل ہیں ۔سیدمحمد علی کی مہر میں1263ھ اور میر آغا کی مہر میں 1283ھ مر قوم ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ یہ دونوں تیرہویں صدی کے شیعہ مجتہدین ہیں ۔
مذکورہ فتاویٰ میں قرآن مجید کو ناقص بتایا گیا ہے ،اور حضرات ائمہ اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل بتایا گیا ہے۔صرف ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کو مستثنی قرار دیا گیا ہے۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ تیرہویں صدی سے روافض کفر کلامی میں مبتلا ہوئے۔دیابنہ یعنی مقلد وہابیہ بھی پہلے کافر فقہی تھے ۔اشخاص اربعہ کے کفریات کلامیہ کے سبب مقلدوہابیہ یعنی دیابنہ کفر کلامی میں مبتلا ہوئے ۔ابتدائی عہدمیں مقلد وہابیہ کو گلابی وہابی اور اسحاقی وہابی کہا جاتا تھا ۔بعدمیں یہ لوگ دیوبندی کہلائے ۔فرقہ بجنوریہ، مقلد وہابیہ کے عشق میں مبتلا ہوکراپنا ایمان تباہ کررہا ہے۔
امام احمد رضا قادری علیہ الرحمۃوالرضوان نے مذکورہ بالادونوں رافضی مجتہدین کے چارکفری فتاویٰ نقل فرماکر رقم فرمایا کہ عہد حاضر کے تمام رافضی کافرکلامی ہیں،کیوں کہ روافض باب عقائد میں !پنے مجتہدین کے مقلدہوتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی رافضی اپنے اکابر کے کفری عقائد نہ بھی مانتاہو تو بھی وہ ان کفری عقائد کے سبب اپنے مجتہدوں کو کافر نہیں مانتاہے ،بلکہ مومن مانتاہے ،اور کافر کلامی کے کفریات کلامیہ پر مطلع ہوکر ان کو مومن ماننا بھی کفر ہے ۔امام احمدرضاقادری کی تحریر مندرجہ ذیل ہے۔
’’روافض علی العموم اپنے مجتہدوں کے پیروکار ہوتے ہیں ۔اگربفرض غلط کوئی جاہل رافضی ان کھلے کفروں سے خالی الذہن بھی ہوتو فتوائے مجتہدان کے قبول سے اسے چارہ نہیں ،اوربفرض باطل یہ بھی مان لیجیے کہ کوئی رافضی ایسا نکلے جو اپنے مجتہدین کے فتویٰ بھی نہ مانے تو الاقل اتنا یقینا ہوگا کہ ان کفروں کی وجہ سے اپنے مجتہدوں کوکافر نہ کہے گا ،بلکہ انہیں اپنے دین کا عالم وپیشوا ومجتہد ہی جانے گا اورجوکسی کافر منکر ضروریات دین کو کافر نہ مانے ، خودکافرومرتد ہے‘‘۔(رسالہ رد الرفضہ:فتاویٰ رضویہ جلد14 ص265-جامعہ نظامیہ لاہور )
توضیح:منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ جس فرقہ کے بنیادی عقائد میںکفریات کلامیہ ہوں ،اور اس فرقہ کے تمام افرادباب عقائدمیںخودکو اپنے پیشواؤں کے تابع قرار دیتے ہوں تواس فرقہ کے تمام افراد کو کافر کلامی تسلیم کیا جائے گا ۔امام احمدرضا قادری نے رسالہ کے اخیر میں عہدحاضرکے روافض سے متعلق درج ذیل فیصلہ کن عبارت رقم فرمائی۔
امام احمدرضا نے رقم فرمایا:’’بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مر تدین ہیں ۔ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے ۔ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام ،بلکہ خالص زنا ہے۔معاذاللہ مرد رافضی اورعورت مسلمان ہوتو یہ سخت قہر الٰہی ہے۔اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں میں کی ہو،جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا ۔محض زنا ہوگا ۔اولاد ،ولدالزنا ہوگی ۔باب کا ترکہ نہ پائے گی ۔اگر چہ اولاد بھی سنی ہی ہوکہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں ۔عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی ،نہ مہر کی کہ زانیہ کے لیے مہر نہیں ۔
رافضی اپنے کسی قریب حتی کہ باپ بیٹے ،ماں ،بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتا ۔سنی توسنی کسی مسلمان ،بلکہ کسی کافر کے بھی یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حصہ نہیں ۔ان کے مرد عورت، عالم جاہل کسی سے میل جول ،سلام کلام ،سب سخت کبیرہ اشد حرام ،جوان کے ان ملعون عقیدوں پرآگاہ ہوکر ، پھر بھی انہیں مسلمان جانے ، یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے ،باجماع تمام ائمہ دین خود کافر بے دین ہے ، اور اس کے لیے بھی یہی سب احکام ہیں ،جوان کے لیے مذکورہوئے ۔مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کوبگوش ہوش سنیں ،اوراس پر عمل کرکے سچے پکے مسلمان بنیں ‘‘۔
(رسالہ:رد الرفضہ :فتاویٰ رضویہ: جلد 14ص 268-جامعہ نظامیہ لاہور )
توضیح:عہد حاضر کے روافض ضروریات دین کے انکار کے سبب کافر کلامی ہیں ۔عہد ماضی کے تبرائی روافض جو کسی ضروری دینی کا مفسر انکار نہیں کرتے تھے ،وہ کافر فقہی تھے ۔
(د)عہد حاضر میں شیعوں کاصرف فرقہ تفضیلیہ محض گمراہ ہے ،یعنی کافر فقہی یا کا فر کلامی نہیں ۔امام احمد رضا قادری نے ایک ہی فتویٰ میں روافض کے تینوں گروہ یعنی گمراہ محض(غیر کافر )، کافرفقہی وکافر کلامی کا ذکر فر مایا ہے۔وہ فتویٰ مندرجہ ذیل ہے۔
مسئلہ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اہل شیعہ کی نمازِ جنازہ پڑھنا اہل سنت وجماعت کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کسی قومِ سنّت والجماعت نے نماز کسی شیعہ کی جنازہ کی پڑھی تو اس کے لیے شرع میں کیا حکم ہے؟
الجواب:اگر رافضی ضروریاتِ دین کا منکر ہے، مثلاً قرآن کریم میں کُچھ سورتیں یا آیتیں یا کوئی حرف صرف امیرا لمومنین عثمان ذی النورین غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا اور صحابہ خواہ کسی شخص کا گھٹایا ہوا مانتا ہے،یا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم خواہ دیگر ائمہ اطہار کوا نبیائے سابقین علیہم الصّلوٰۃ والتسلیم میں کسی سے افضل جانتاہے۔
اور آجکل یہاں کے رافضی تبرائی عمومًا ایسے ہی ہیں۔ اُن میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے جو ان عقائدِ کفریہ کا معتقدنہ ہو جب تو وہ کافر مرتدہے ،اور اس کے جنازہ کی نماز حرام قطعی وگناہ شدیدہے۔اللہ عزوجل فرماتا ہے:
(وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُم مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّہُمْ کَفَرُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہٖ وَمَاتُوا وَہُمْ فٰسِقُونَ)
کبھی نماز نہ پڑھ اُن کے کسی مردے پر، نہ اس کی قبر پرکھڑا ہو، انہوں نے اللہ ورسول کے ساتھ کفر کیا اور مرتے دم تک بے حکم رہے۔
اگر ضروریاتِ دین کا منکر نہیں ،مگر تبرائی ہے تو جمہور ائمہ وفقہا کے نزدیک اس کا بھی وہی حکم ہے:کما فی الخلاصۃ وفتح القدیر وتنویر الابصار والدرالمختاروالھدایۃ وغیرھا عامۃ الاسفار ۔
اور اگر صرف تفضیلیہ ہے تو اُس کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہئے۔
متعدد حدیثوں میں بد مذہبوں کی نسبت ارشاد ہوا:
ان ماتوا فلا تشہدوھم:وہ مریں تو ان کے جنازہ پر نہ جائیں۔
ولا تصلوا علیہم:ان کے جنازے کی نمازنہ پڑھو۔
نماز پڑھنے والوں کو توبہ ،استغفار کرنی چاہئے۔
اوراگر صورت پہلی تھی یعنی وہ مُردہ رافضی منکرِ بعض ضروریاتِ دین تھا اور کسی شخص نے با آں کہ اُس کے حال سے مطلع تھا ،دانستہ اس کے جنازے کی نماز پڑھی، اُس کے لیے استغفار کی جب تو اُس شخص کو تجدید اسلام اوراپنی عورت سے ازسر نو نکاح کرنا چاہئے۔
(فی الحلیۃ نقلًا عن القرافی واقرہ-الدعاء بالمغفرۃ للکافرکفر لطلبہ تکذیب اللّٰہ تعالٰی فیما اخبربہ)
(فتاویٰ رضویہ: جلد چہارم :ص53-رضا اکیڈمی ممبئ)
جواب دوم کی تفصیل
آثم و،خاطی ،کافراورفاسق کی اصطلاح
متکلمین وفقہا کبھی کافرکلامی کے لیے گنہ گار(آثم )کا لفظ استعمال فرماتے ہیں ۔کبھی کافر فقہی وگمراہ کے لیے اور کبھی حرام وناجائز کے مرتکب کے لیے ۔
کبھی کافر کے لیے فاسق کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔کبھی گمراہ کے لیے خاطی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔جس امر کا انکار ہواہے ،اور التزامی یالزومی جیسا انکارہواہے ،اس اعتبارسے فیصلہ ہوگا کہ یہاں کون سا معنی مراد ہے۔
کافر کلامی وگمراہ کوآثم کہنا
(۱)قال بحر العلوم الفرنجی محلی:((المصیب)من المجتہدین ای الباذلین جہدہم(فی العقلیات واحد -و الا اجتمع النقیضان)لکون کل من القدم والحدوث مثلًا مطابقًا للواقع(وخلاف العنبری)المعتزلی فیہ (بظاہرہ غیر معقول)بل بتاویل کما سیجئ ان شاء اللّٰہ تعالٰی
(وَالْمُخْطِئُ فِیْہَا)ای فی العقلیات(اِنْ کَانَ نَافِیًا لِمِلَّۃِ الاسلام فکافرٌ واٰثِمٌ علٰی اختلاف فی شرائطہ کَمَا مَرَّ)من بلوغ الدعوۃ عند الاشعریۃ ومختار المصنف-وَمضیء مُدَّۃِ التَّأمُّل والتمییز عند اکثرالماتریدیۃ(وَاِنْ لَمْ یکن)نافیًا لِمِلَّۃِ الاسلام(کخَلْقِ القراٰن)ای القول بہ ونفی الرویۃ والمیزان وامثال ذلک(فَاٰثِمٌ لَاکَافِرٌ) ………
(وَالشَّرعیات القطعیات کذلک)ای مثل العقلیات(فمنکر الضروریات)الدینیۃ(مِنْہَا کَالْاَرْکَانِ)الاربعۃ الَّتِیْ بُنِیَ الاسلامُ عَلَیْہَا- الصَّلٰوۃِ والزَّکَاۃِ وَالصَّوْمِ وَ الْحَجِّ (وحجیۃ القراٰن ونَحْوِہِـمَاکافرٌ اٰثِمٌ۔
وَمُنْکِرُ النَّظریات)منہا(کحجیۃ الاجماع وخبرالواحد)وَعَدُّوْا مِنْہَا حجیۃَ القیاس اَیْضًا(اٰثِمٌ فقط)غَیْرُ کَافِرٍ-والمراد بالقطع المعنی الاخص- وہومَا لَایَحْتَمِلُ النَّقیض وَلَوْ اِحْتَمَالًا بعیدًا-وَلَوْغَیْرَ نَاشٍ عن الدلیل)
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت جلددوم:ص377)
توضیح: منقولہ بالا اقتباس کے پہلے پیراگراف میں ’’فکافر وآثم‘‘سے مراد کافر کلامی ہے،اور’’فآثم لاکافر‘‘سے گمراہ مراد ہے ۔دوسرے پیراگراف میں ’’کافر آثم‘‘سے مراد کافر کلامی ہے،اور ’’آثم فقط غیر کافر ‘‘ سے گمراہ وکافر فقہی مرادہے۔
(۲)قال الغزالی:(واما الفقہیۃ:فالقطعیۃ منہا وجوب الصلوات الخمس والزکاۃ والحج والصوم وتحریم الزنا والقتل والسرقۃ والشرب وکل ما علم قطعًا من دین اللّٰہ فالحق فیہا واحد وہو المعلوم-والمخالف فیہا آثم۔
ثم ینظر:فان انکرما علم ضرورۃً من مقصود الشارع کانکار تحریم الخمر والسرقۃ ووجوب الصلٰوۃ والصوم فہوکافر-لان ہذا الانکار لا یصدر الا عن مکذب بالشرع۔
وان علم قطعًا بطریق النظر،لا بالضرورۃ ککون الاجماع حجۃ وکون القیاس وخبرالواحد حجۃ و کذلک الفقہیات المعلومۃ بالاجماع فہی قطعیۃ فمنکرہا لیس بکافر-لکنہ آثم مخطئ)
(المستصفٰی جلددوم:ص407-مؤسسۃ الرسالہ بیروت)
توضیح: منقولہ بالا اقتباس کے پہلے پیراگراف میں ’’آثم‘‘سے مراد کافر کلامی وکافر فقہی دونوں مرادہے۔دوسرے پیراگراف میں ’’کافر ‘‘سے مراد کافر کلامی ہے۔تیسرے پیراگراف میں ’’آثم ومخطی ‘‘سے کافر فقہی وگمراہ وبدعتی مرادہے۔
(۳)غیر مقلدین کے بارے میں امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:’’ہم زنہار ان کو کفار نہ کہیں گے۔ہاں ،ہاں ،یوں کہتے ہیں اور خدا ورسول کے حضورکہیں ۔یہ لوگ آثم ہیں ،خاطی ہیں ،ظالم ہیں ،بدعتی ہیں ،ضال ہیں ،مضل ہیں ،غوی ہیں ،مبطل ہیں ،مگر ہیہات کافر نہیں ، مشرک نہیں ،اتنے بدراہ نہیں ،اپنی جانوں کے دشمن ہیں ،عدواللہ نہیں ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلدششم ص۷۱۵ -جامعہ نظامیہ لاہور)
کافرکوفاسق کہنا
معتزلہ صفات الٰہیہ کا صریح انکار نہیں کرتے ،بلکہ وہ صفات کوثابت مانتے ہیں ،گرچہ ان کے قول سے انکار لازم آتا ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ اگر صفات الٰہیہ کو ذات الٰہی کے مغایر تسلیم کیا جائے تو متعددامور کا قدیم ہونا لازم آئے گا ،حالاںکہ صرف رب تعالیٰ کی ذات قدیم ہے۔اہل سنت کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے کہ چند ذات کا قدیم ہوناممنوع ہے،لیکن ایک ذات کی متعددصفات قدیم ہوں تو اس سے متعددذات کا قدیم ہونا لازم نہیں آتا ۔اس عقیدہ کے سبب معتزلہ کوگمراہ قراردیا جاتا ہے ،لیکن کافر نہیں کہاجاتا ۔
ذیل کی عبارت میں کفرکے لیے فسق کا لفظ وارد ہوا۔ کبھی کافرکوفاسق اور کفرکو فسق سے تعبیرکیا جاتاہے۔
(۱)قال الامام احمدرضا:(وفی مسلم الثبوت وشرحہ للمولی بحر العلوم ملک العلماء قدس سرہ: (وَاَمَّا) البدعۃ(الغیر الجلیۃ)لم یکن فیہا مخالفۃ لدلیل شرعی قاطع واضح(کنفی زیادۃ الصفات)فان الشریعۃ الحقۃ انما اَخْبَرَتْ بِاَنَّ اللّٰہ تَعَالٰی عالمٌ قَادِرٌ-وَاَمَّا اَنَّہٗ عَالِمٌ قادر بِعِلْمٍ وَقُدْرَۃٍ،ہُمَا نَفْسُ الذَّاتِ-اَوْبِصِفَۃٍ قَائِمَۃٍ بِالذَّات-فَالشَّرْعُ سَاکِتٌ عَنْہُ۔
فَہٰذِہِ الْبِدْعَۃُ لَیْسَتْ اِنْکَارُ اَمْرٍ وَاضِحٍ فِی الشَّرْعِ(فَتُقْبَلُ)شَہَادَتُہٗ وَرِوَایَتُہٗ (اِتِّفَاقًا)-لِاَنَّ ہٰذِہِ الْبِدْعَۃَ لَا تُوْجِبُ الْفِسْقَ-اِذْ لَیْسَ فِیْہَا مُخَالَفَۃٌ لِاَمْر شَرْعِیٍّ (اِلَّا اَنْ دَعَا)ہٰذَا الْمُبْتَدِعُ(اِلٰی ہَوَاہُ)فَاِنَّ الداعی الی الہوٰی مخاصم،لَا یؤتمن عَلَی الْاِجْتِنَابِ عَنِ الْکذب)(المعتمد المستند ص 43)
توضیح: بدعت غیر جلیہ یعنی بدعت غیر صریحہ جس میں کسی دلیل شرعی قطعی کی صریح مخالفت نہ ہو،اس کی بنیادپر کفر کا حکم نہیں ہوگا ،جیسے معتزلہ کاقول ہے کہ وہ ذات الٰہی اور صفات الٰہی کو متغایر نہیں کہتے ،بلکہ ذات ہی کو نسبتوں کے اعتبارسے صفت قرار دیتے ہیں۔
اب قرآن وحدیث واجماع متصل میں یہ صراحت نہیں ہے کہ صفات الٰہیہ عین ذات الٰہی ہیں یاذات کے ساتھ قائم ہیں؟گرچہ علمائے اہل سنت وجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ صفات الٰہیہ ذات الٰہی کے ساتھ قائم ہیں اور وہ نہ عین ذات ہیں ،نہ ہی غیرذات،یعنی مستقل طورپر وہ ذات نہیں ہیں،نہ ذات سے جدا ہیں۔
(۲)قال الامام احمد رضا: (والْاَصْوَبُ عِنْدِیْ فِیْ خُصُوْصِ الْمَسْئَلَۃِ-اعنی نفی زیادۃ الصفات مَا قَدَّمْتُہٗ عَنْ(مسلم الثبوت) وشرحہ(فواتح الرحموت)مِنْ اَنَّہٗ بِدْعَۃٌ،لَا تُوْجِبُ فِسْقًا-اِذْ لَیْسَ فِیْہِ اِنْکَارُ قَطْعِیٍّ:وَاللّٰہ تَعَالٰی اَعْلَمُ) (المعتمد المستند ص51-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح: کفر کو کبھی فسق کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔مذکورہ بالا دونوںعبارتوں میں فسق سے کفر مراد ہے،کیوںکہ قطعی کا انکار صرف گناہ نہیں ،بلکہ وہ کفر ہے۔ اگرقطعی بالمعنی الاخص کا انکار ہے تو کفر کلامی ہے۔ قطعی بالمعنی الاخص ضروریات دین ہیں ۔اگر قطعی بالمعنی الاعم کا انکار ہے توکفر فقہی ہے ،اور متکلمین کے یہاں ضلالت ہے۔
جب یہاں زیادتی صفات کے انکار کوبدعت کہا جارہا ہے تو یہ کفرفقہی اور متکلمین کے یہاں ضلالت ہے،اورمذکورہ عبارت میں قطعی سے قطعی بالمعنی الاخص مراد ہے،کیوںکہ زیادتی صفات کے مسئلہ کی قطعیت کا انکار ہے ،اور زیادتی صفات کا مسئلہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے اور ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہیں اور قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتی ہیں تو یہاں زیادتی صفات کے مسئلہ کوغیر قطعی کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہے اورقطعی بالمعنی الاخص کا انکار متکلمین کے یہاں کفر ہے۔
جب یہاں قطعی بالمعنی الاخص کا انکار ہی نہیں تومتکلمین کے یہاں کفر بھی نہیں ۔اس انکار کو بدعت اس لیے کہا گیا کہ ضروریات اہل سنت وشعار اہل سنت کا انکار متکلمین کے یہاں بدعت وضلالت ہے،کفر نہیں ۔ یہ عبارت متکلمین کے مذہب کے مطابق ہے۔
پہلی عبارت میں شرعی سے وہ امر مراد ہے ،جو شریعت سے ثابت ہو۔شریعت کے بہت سے مسائل عقل سے ثابت ہیں ۔ان عقلی امور میں جن امورپر شریعت موقوف ہے ،وہ ضروریات دین میں سے ہیں ۔خواہ شریعت سے اس کی تائید ہو، یا نہ ہو۔گرچہ ان امور کی شریعت سے تائید ہوچکی ہے۔عدم تائید کی صورت میں بھی وہ ضروری دینی قرار پاتے،جیسے نبوت ورسالت ،وجود الٰہی وغیرہ ۔البرکات النبویہ:جلد چہارم میں تفصیل مرقوم ہے۔
عقلیات میں وہ امور جواہل سنت وجماعت کے یہاں اجماعی ہیں ،لیکن نہ شریعت ان پر موقوف ہے ،نہ شریعت میں ان کی صریح تائید موجود ہے تو ایسے بہت سے عقلی امور ضروریات اہل سنت میں اوربہت سے عقلی امور شعار اہل سنت میںشمار ہوتے ہیں اور ان کا منکر گمراہ وبدعتی قرار پاتا ہے۔تفصیل کے مقام میں ہم نے تفصیل رقم کردی ہے۔
اگر دلائل شرعیہ سے غیرتائید یافتہ عقلی امور میں اہل سنت وجماعت کا اختلاف ہو تو وہ اختلافی امور ہیں ،جیسے صفت تکوین میں اشاعرہ وماتریدیہ کا اختلاف ہے۔اس قسم کے غیر اجماعی عقلی اعتقادیات میں اختلاف کفر یا گمرہی نہیں ہے۔
اسی طرح ظنی وفرعی غیر اجماعی اعتقادیات میں اختلاف بھی کفر یا گمرہی نہیں ۔محقق ومجتہداپنے دلائل کی روشنی میں اختلاف کرسکتا ہے ،جیسے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے علوم خمسہ کا مسئلہ۔اس مسئلہ میں محقق ومجتہد کودلیل کی روشنی میں اختلاف جائز ہے۔
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم ::والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم::وآلہ العظیم
ازقلم : طارق انور مصباحی