تنقید و تبصرہ عقائد و نظریات

المهند علی المفند کی تقریظات اور مہروں کی حقیقت

مکہ معظمہ کے مفتئ حنفیہ کے دستخط اور مہر "المهند” پر نہیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر انبیٹھی جی کی مکاری کھل گئی اور انھوں نے اس کی تصدیق نہیں فرمائی نیز حضرت شیخ الدلائل مولانا مولوی شاه عبد الحق صاحب الہ آبادی مہاجر مکی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی تقریظ تو درکنار "المھند ” پر ان کے دستخط بھی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت شیخ الدلائل عربی اردو دونوں زبانیں جانتے اور دیوبندیوں کے عقائد کفریہ سے بخوبی واقف تھے اگر انبیٹھی جی ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ان کی ساری دجالی کا لفافہ حضرت ہی کھول ڈالتے اس لیے ان کے دستخط بھی نہیں لیے گئے یہ بھی کذابی کی دلیل ہے۔
مدرسہ صولتیہ جو کہ مکہ مکرمہ میں تھا اس کے مدرسین اکثر دیوبندیہ کے عقائدے سے واقف تھے "المهند” میں ان میں سے کسی کے بھی دستخط و تقریظاتا موجود نہیں یہ بھی کھلی ہوئی کذابی کی ایک دلیل ہے۔ (راد المهند صفحہ۱۱۷، ۱۱۸)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر علمائے عرب و عجم، علمائے حقہ میں سے کسی نے بھی تقریظ تو درکنار دستخط تک نہیں کی تو "المهند” پر وہ تقریظات، مہریں اور دستخط جس کے ساتھ وہ چھپتی ہے کہاں سے آئیں؟؟
دوسرا سوال یہ کہ ان تقریظات اور مہروں کی اصل کیا یے؟

حاصلِ جواب یہ کہ جب انبیٹھی جی نے دیکھا کہ کھایا اور کال نہ کٹا اس قدر کذب و فریب کے بعد بھی حرمین شریفین سے کچھ زائد مہریں نہیں ملیں تو مجبوراً اپنے جرگہ کے دیوبندیوں سے ہی تقریظیں لکھوا کر ان کے ترجمے کرکے چھاپ دیں، جس قدر دیوبندی اور وہابیوں کی تقریظیں "المھند” پر ہیں ان کے راقمین کی تعداد ۲۴ ہے ان کے اسماء "راد المھند” صفحہ نمبر ۱۱۶ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
(بحوالہ راد المهند صفحہ ۱۱۶)

ایک کارستانی اور ملاحظہ ہو صاحبِ "المہند” نے علامہ برزنجی کے رسالہ ” تثقیف الکلام “ کے اول سے ایک عبارت نقل کی، ایک عبارت بیچ سے اور ایک عبارت آخر سے اور باقی رسالہ پورے کا پورا ہضم کر لیا اور اس کو "المہند“ کی تقریظ بتایا کیا یہ کھلا ہوا فریب اور دھوکا ہے یا نہیں؟

و علی ھذا برزنجی صاحب کے اس رسالہ پر تئیس (۲۳) مہریں تھیں وہ تیئیس مہریں سب کی سب "المہند” پر اتارلیں کیا یہ انبیٹھی صاحب کا ڈبل فریب نہیں ؟

کیا ہر شخص اس طرح اپنی کتاب پر دنیا بھر کی کتابوں سے مہریں نہیں اتار سکتا ہے ؟

اسی "المهند“ کے صفحہ ۶۶ و ۶۷ پر مفتئ مالکیہ اور ان کے بھائی صاحب کی تقریظیں چھاپی ہیں بمصداق "چہ دلاور است دزدے کی بکف چراغ دارد” کے۔ مزید یہ بھی لکھ دیا کہ مفتئ مالکیہ اور ان کے بھائی صاحب نے بعد اس کے کہ تصدیق کردی تھی مخالفین کی سعی کی وجہ سے بحیلۂ تفویت کلمات واپس لے لیا اور پھر واپس نہ کیا اتفاق سے ان کی نقل کر لی گئی تھی سو ہدیۂ ناظرین ہے٬٬۔

کیا انبیٹھی صاحب سے سیکھ کر اسی طرح ایک شخص اپنی تحریر پر دنیا بھر کے موافق و مخالف تمام علماء کی تقریظیں چھاپ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان حضرات نے بعد اس کے کہ تصدیق کردی تھی مخالفین کی سعی کی وجہ سے اپنی تصدیقات کو بحیلۂ تقویت کلمات واپس لے لیا اور پھر واپس نہ کیا اتفاق سے ان کی نقلیں کرلی گئیں تھیں سو ہدیۂ ناظرین ہیں؟؟

پھر یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اگر مفتئ مالکیہ اور ان کے بھائی صاحب نے انبیٹھی صاحب کا مکر و فریب معلوم کرنے کے بعد اپنی تقریظوں کو واپس لے لیا تو وہ "المھند” کے مقرظ و مصدق ہی نہیں رہے پھر ان کی تصدیق چھاپنا کتنی بڑی بے ایمانی ہے اور اگر مخالفین کی خوشامد کی وجہ سے انھوں نے حق کو چھپایا تو وہ حضرات معاذ اللہ حق پوش باطل کوش ٹھرے پھر بھی ان کی تقریظ کو چھاپنا کتنی بڑی بد دیانتی ہے۔
(مناظرہ ادری صفحہ۱۱۵ تا ۱۱۶) (یہ رد بالغ "راد المہند” میں ۳۶ ویں ،۷۳ ویں نمبر کے تحت بھی صفحہ ۱۱۸ سے دیکھا جا سکتا ہے)

"المھند” پر حرمین طیبین کی ایک بھی قابلِ اعتماد مہر موجود نہیں خیر "المھند” پر جو کل مکہ معظمہ کی اکتیس(۳۱) مہریں ہیں ان میں دو مفتئ مالکیہ اور ان کے بھائی صاحب کی مہریں فرضی ثابت ہوئیں اور ایک مہر مفتی بر زنجی کی ان کے رسالہ سے اتاری گئی ہے اور تیئیسں(۲۳) اس کے ساتھ کی "المھند” پر نہیں علامہ برزنجی کے رسالہ پر ہیں اور ایک محمد صدیق افغانی کی ہے ایک کسی محب الدین مہاجر کی ہے تو "المہند ” پر حرمین شریفین کی نہ رہیں مگر تین مہریں۔ (راد المهند)

پھر حاشیہ میں فرمایا
ان تین کا بھی حال یہ ہے کہ علامہ شنقیطی نے تو "المهند ” ہی کا رد لکھا اور احمد رشید خاں نواب میں نواب اور خاں بتا رہا ہے کہ یہ بھی کوئی "المہندی” ہی ہیں انبہٹی جی کی تلبیس ہے کہ نواب کو نام کے بعد ڈال دیا۔ اب رہے علامہ محمد سعید بابصیل تو ان کی تقریظ پوری نقل نہیں کی بلکہ کتر بیونت، کاٹ چھانٹ کرکے خلاصہ لکھا جس کا صفحہ ۲۰ پر اقرار بھی ہے تو ” المہند” کے پاس اب ایک سر بھی قابلِ اعتماد نہیں رہی۔” (راد المهند)

پھر آگے فرمایا
یہی "المهند” تھی جسے راندیر کے دیوبندیہ لے کر بہت ناز سے اچھلتے تھے کہ "المهند” میں حرمین شریفین کی پچاس مہریں ہیں جب اصل واقعہ انہیں اچھی طرح کھول کر دکھا دیا گیا تو سب ساکت و مبہوت ہو گئے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انبیٹھی جی ” المهند” کے ساتھ ردِّ وہابیہ میں بھی کوئی رسالہ لکھ کر لے گئے تھے جن پر ” المهند” کا جادو چل گیا اُن سے "المہند“ پر تقریظ لکھوائی اور جہاں قریب و مکر سے کام بنتا نہ دیکھا وہاں ردِّ وہابیہ کا رسالہ پیش کر کے اس پر تقریظ لکھوائی اور ہندوستان آکر وہ سب مہریں "المهند” پر چھاپ دیں۔ چنانچہ دمشق کے علامہ شیخ مصطفے بن احمد شطی حنبلی کی تقریظ میں یہ عبارت موجود ہے۔۔!!!
"خاصانِ خدا میں سے جناب عالم فاضل فہیم عقیل کامل اس رسالہ کے مؤلف بھی ہیں جو چند شرعی مسئلوں اور شریف علمی بحثوں پر مشتمل ہے وہابی فرقہ کی تردید کے لیے ہے”

اسی طرح علامہ شیخ محمود رشید عطار کی تقریظ میں یہ عبارت موجود ہے۔۔۔!!!
"میں مطلع ہوا اس تالیف جلیل پس پایا اس کو جامع ہر باریک و باعظمت مضمون کا جس میں رد ہے بدعتی وہابیوں کے گروہ پر”

ان دونوں عبارتوں سے صاف ثابت ہو گیا کہ ان دونوں صاحبوں نے کسی ایسے رسالہ پر دستخط کیے تھے جو وہابیوں کے رد میں تھا اور ظاہر ہے کہ ” المهند” وہابیوں کے رد میں نہیں بلکہ دیوبندیوں کے اوپر سے وہابیت کا الزام دور کرنے میں ہے تو ظاہر ہوا کہ ان دونوں صاحبوں نے ” المھند ” پر مہریں نہیں کیں بلکہ انبیٹھی جی نے رد وہابیہ کے رسالہ پر حاصل کیں اور اس پر سے ” المھند” پر اتارلیں ہے۔
ہم نظر بازوں سے تو چھپ نہ سکا اے ظالم
تو جہاں جا کے چھپا ہم نے وہیں دیکھ لیا

جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ انبیٹھی جی نے رسالہ رد وہابیہ پر بھی کچھ مریں لیں اور اس پر سے "المھند” پر اتار لیں تو اب جتنی تقریظیں ایسی ہیں جن میں مضمون کا تذکرہ نہیں صرف اتنا لکھ کر تصدیق کر دی ہے کہ ہم نے یہ رسالہ دیکھا اسے صحیح پایا وغیرہ وہ سب اعتبار کے قابل نہیں رہیں کیا معلوم وہ مہرمیں بھی ردِّ وہابیہ ہی کے رسالہ پر سے "المہند” پر اتاری گئی ہوں۔

مذکورہ جملہ عبارات سے ظاہر و عیاں اور نہاں و بیاں ہوگیا کہ کیسی کیسی تخریب کاریوں سے یہ مہریں اور توثیق و تائید حاصل کی گئیں "المهند علی المفند” پھر اس کا اردو ترجمہ کر نظرِ عوام کیا گیا میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ کتاب کتنی اہمیت کی حامل ہے کیا اس میں کچھ عبارات ایسے ہیں جو عقائد دیابنہ کے موافق و مطابق اور انکی منشاء طبع ہیں مگر اتنا ضرور واضح کئے دوں کہ اس کتاب میں اکابرین دیابنہ سے سرزد شدہ عباراتِ کفریہ کی تاویل، عبارات میں رد و ابدال، حذفِ عبارات وغیرہ جیسی ناپائیدار لاٹھیوں کا سہارا لیا گیا مزید اپنے اکابرین کی قبیح، پراگندہ اور بکھرے ہوئے زلفوں کو سنوارنے کی کوشش کی گئی ہے۔

لہذا عامی اور خاصی سب سے یہی گزارش ہے کہ اسکی تقریظات اور مہروں پر نہ جائیں وہ تو واضح ہی ہوگیا کہ کس قدر سعی اور تگ و دوانی سے حاصل کردہ ہیں، عامی لوگوں سے تو بالخصوص گزارش ہے کہ ایسی کتابوں سے دور رہیں، مزید معلومات کے لئے "راد المھند” کتاب کا مطالعہ کریں اور اکابرین دیابنہ کی کفریہ عبارت کی توثیق کرنی ہو تو "حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین” کا مطالعہ کریں جس میں وثوق و اعتماد کے ساتھ علمائے عرب و عجم کی مہریں ثبت ہیں اور سب نے ان کی کفریہ اعتقاد پر مطلع ہونے کے بعد بالاتفاق یک زبان ہوکر کفر کا فتوی صادر فرمایا، مولی کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں مکر ودجلِ دیابنہ سے بچنے اور مسلک حقہ اہل سنت والجماعت المعروف بمسلک امام احمد رضا پر سختی سے ساتھ چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔

ازقلم: محمد اختر رضا امجدی

متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی الھند

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے