تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
یہ تحریر چند ماہ بعد رقم کر نے کا ارادہ تھا،لیکن پھر خیال آیا کہ اگر اس مدت میں کسی کی وفات غلط عقیدہ پر ہوگئی تو اس کی آخرت برباد ہوجائے گی،اس لیے آج ہی لکھ رہاہوں اور جسے کچھ تردد لاحق ہو، اس کے لیے بھی حکم آخرت سے محفوظ رہنے کا نسخہ تحریر کردیتا ہوں۔
(1)کافرکلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔ جو کافر کلامی کومومن مانے، وہ بھی اسی طرح کافر کلامی ہے۔”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“ کا یہی مفہوم ہے۔
(2)لا علمی کی حالت میں کسی نے کافر کلامی کومومن سمجھ لیا تو وہ معذور ہے،جیسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ایک مدت تک منافقین کومومن سمجھتے رہے۔
(3)جو یہ عقیدہ رکھے کہ جس پر کفر کلامی کا صحیح حکم عائد ہوچکا ہو، دوسرا مفتی اس صحیح فتویٰ سے یقینی طورپرواقف ہوکراختلاف کر سکتا ہے،اوراپنی تحقیق کی بنیاد پرمجرم کومومن مان سکتا ہے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا بھی کافر کلامی ہے،جیسے کوئی ایک ہی معبود مانتا ہو، لیکن یہ عقیدہ رکھتا ہوکہ جودومعبود مانے،وہ بھی مومن ہے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے۔
دراصل جس عقیدہ کے سبب کسی ضروری دینی کا من کل الوجوہ بطلان ہوجائے،وہ عقیدہ بھی کفریہ ہوتا ہے۔جب دو معبود ماننے والے کو مومن تسلیم کیا تو عقیدۂ توحید کا من کل الوجوہ بطلان ہوگیا۔ایسا عقیدہ ونظریہ کفرکلامی ہے۔کفر پر رضا بھی کفر ہے۔ دوخدا ماننے والے کومومن ماننا کفر پر رضا ہے۔ کفر کلامی سے اختلاف پر رضا دراصل کفر پر رضا ہے۔
رسالہ:”اہل قبلہ کی تکفیر“میں الزام خصم کے طورپر تکفیر کلامی سے اختلاف کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ان کوہرگز عقیدہ نہ بنایا جائے۔وہ مناظراتی مباحث ہیں۔
تکفیر کلامی سے اختلاف کرنے والے پر بعض صورتوں میں کفر کلامی کا حکم عائد ہوتا ہے،اور بعض صورتوں میں کفر فقہی کا حکم عائد ہوتا ہے۔لاعلمی کے سبب کافر کلامی کومومن سمجھ لیا تو یہ عذر کی صورت ہے۔ جان بوجھ کر اختلاف کی کوئی صحیح صورت نہیں۔
خلیل بجنوری نے یہ نظریہ ظاہر کیا تھا کہ ہر ایک کو اپنی تحقیق کے مطابق کسی کو کافر ماننا ہے۔میں نے اس نظریہ کا رد اپنے رسالہ”مسئلہ تکفیر کس کے لئے تحقیقی ہے؟”میں کر دیا ہے۔
(4)اگر کسی کو ترددلاحق ہوتو فی الحال یہ عقیدہ رکھے کہ جوعنداللہ حق ہے،وہی میرا عقیدہ ہے۔اس کے بعد حکم شرعی کو معلوم کرنے کی کوشش کرے، توقف نہ کرے۔
(5)اکابر علمائے کرام سے یہ مسئلہ دریافت کیا جائے تو جن کا قول ہمارے قول کے خلاف ہو،ان سے دعویٰ اور دلیل تحریر ی شکل میں طلب کریں، نیز عرض کردیں کہ معروضا ت کے جوابات دینے ہوں گے۔اگرنظر انداز کیا گیاتوان شاء اللہ تعالیٰ قاہررد رقم کیا جائے گا۔
دین کا تحفظ مقدم ہے۔ دیوبندی مذہب میں شخصیات کا تحفظ مقدم ہے:فضلوا واضلوا
اکابرین کے لیے صحت لازم،اصاغرین کے لیے خطا لازم۔یہ نظریہ غلط وباطل ہے۔
حضرات اہل بیت کرام علیہم الرحمۃوالرضوان کے بارے میں شیعہ لوگ مبالغہ آمیز عقائد رکھتے ہیں۔اسی طرح دیابنہ اپنے اکابرین سے متعلق۔اب یہ مرض مہلک مسلک اہل سنت وجماعت کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔
(6) علم کلام کا مسئلہ متکلم حل کرسکتاہے۔ مفسر ومجود،فقیہ ومحدث، ادیب وخطیب، فلسفی ومنطقی، نحوی وصرفی عدم ممارست کے سبب تسامح کا شکار ہوسکتا ہے۔
اکابر علمائے اہل سنت میں ماہرمتکلم کون ہیں؟تلاش کیا جائے۔
ماضی قریب میں امام احمدرضا قادری ایک وسیع النظر متکلم تھے۔ ان کے بعد ان کا مماثل ونظیر نہ آنکھوں نے دیکھا،نہ کانوں نے سنا:فجزاہ اللہ خیر الجزاء (آمین)
علم حدیث میں امام بخاری علیہ الرحمۃوالرضوان کی بلندی شان اورعظمت ومہارت مسلما ت میں سے ہے، لیکن جب وہ علم فقہ کی طرف آئے تو تسامحات نے ان کا استقبال کیا۔
عہدحاضر میں علم کلام کو ایک مستقل حیثیت نہیں دی جاتی،بلکہ فقہا اس کو علم فقہ کا ایک ذیلی شعبہ سمجھنے لگے ہیں۔ نتیجہ وہی ہوا،جو امام بخاری کو علم فقہ میں در پیش ہوا تھا۔
تکفیر کلامی سے اختلاف کفر کلامی:
جب کسی پر کفر کلامی کا صحیح حکم عائد ہوتو اس زمانے کے علما بھی اس حکم پر متفق ہوتے ہیں،کیوں کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں، پھر بعد والوں کو بھی اس میں اختلاف کی اجازت نہیں۔علم یقینی کے بعد اس مجرم کو مومن ماننا کفر کلامی ہے۔
قال القاضی:(وَقَد اَحرَقَ علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ مَن اِدَّعٰی لَہُ الاِلٰہِیَّۃَ-وقد قتل عبد الملک بن مروان الحارث المتنبی وَصَلَبَہ-وَ فَعَلَ ذلکَ غیر واحدٍ من الخلفاء والملوک باشباہہم-وَاَجمَعَ علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم-وَالمُخَالِفُ فِی ذٰلِکَ مِن کُفرِہِم کَافِرٌ)
(کتاب الشفا:جلددوم:ص297)
ترجمہ:حضرت علی مر تضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کوجلادیا،جنہوں نے ان کے معبودہونے کا دعویٰ کیا۔اموی بادشاہ عبد الملک بن مروان نے مدعی نبوت حار ث کو قتل کیا،اور اس کوسولی پر لٹکا دیا۔
متعددخلفا وسلاطین نے ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا، اور اس زمانے کے علما نے ان خلفاوسلاطین کے فعل کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا،اور ان مرتدین کے کفر کی مخالفت کرنے والا کافر ہے۔
توضیح:حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الوہیت مر تضوی کے قائلین کو مرتد قرار دے کر انہیں آگ میں جلادیا،اسی طرح دیگر سلاطین اسلام نے مرتدین کو قتل وہلاک کیا۔ اس عہدکے علما نے اس سزا کو اور اس تکفیر کو صحیح قرار دیا،اور اس تکفیر کے منکر کو کافر قرار دیا، کیوں کہ وہاں کسی ضروری دینی کا قطعی انکار تھا۔
ان لوگوں کی تکفیر کے انکار مطلب یہی تھا کہ تکفیر کا منکر اس ضروری دینی کو ضروری دینی نہیں مانتا،ورنہ ضرور اس ملزم کو کافر مانتا۔
عہد حاضر میں مسلک دیوبندکے عناصراربعہ کے متبعین کی کثرت دیکھ کر بعض مذبذبین طواغیت اربعہ کی تکفیر کا انکار کرنا چاہتے ہیں اوراس انکار کے لیے دلائل وتاویلات کے متلاشی ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے مذبذبین سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے:آمین
قال الخفاجی:((واجمع علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم)ای تصویبہ اَو ہو من اضافۃ الصفۃ للموصوف-وذلک لکذبہم عَلَی اللّٰہ بِاَنَّہ نَبَّأہُم وتکذیب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی-انہ خاتم الرسل-وَاَنَّہ لَا نبی بعدہ(و)اَجمَعُوا اَیضًا عَلٰی(اَنَّ المُخَالِفَ فِی ذٰ لِکَ)اَی تَکفِیرِہِم بِمَا إدَّعُوہُ(مِن کُفرِہِم)ہومفعول المخالفِ اَی مَن خَالَفَ مَذہَبَہُم فی تکفیرہم فَقَالَ:لَا یُکَفَّرُونَ(کَافِرٌ)لانہ رضی بِکُفرِہِم وَتَکذِیبِہِم لِلّٰہِ وَرَسُولِہ)
(نسیم الریاض جلدچہارم:ص536-دارالکتاب العربی بیروت)
ترجمہ:(اور اس زمانے کے علما نے ان خلفاوسلاطین کے فعل کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا)یعنی ان خلفا وسلاطین کے فعل کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا،یا یہ موصوف کی طرف صفت کی اضافت کے قبیل سے ہے (یعنی خلفا وسلا طین کے صحیح فعل پر اتفاق کیا)او ر ان مرتدین کی تکفیر اللہ تعالیٰ پر ان کے کذب افترا کے سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کونبی بنایا، اور (ان کی تکفیر)حضو ر اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس امر میں تکذیب کے سبب ہے کہ وہ خاتم پیغمبراں ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اور علما نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ (اس بارے میں مخالفت کرنے والا)یعنی ان کے دعویٰ باطل(دعویٰ نبوت) کے سبب ان کی تکفیر کی مخالفت کرنے والا(کافر ہے) (من کفر ہم)یہ لفظ”مخالف“کا مفعول ہے،یعنی جو ان علما کے مذہب کی مخالفت کرے،ان مر تدین کی تکفیر کے سلسلے میں،پس وہ کہے کہ وہ لوگ کافر نہیں ہیں، تویہ مخالف کافر ہے،کیوں کہ وہ ان کے کفرپر راضی ہے، اوران مدعیان نبو ت کی جانب سے اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی تکذیب پر رضا مندی ہے۔(اور کفرپر رضا بھی کفر ہے)
قال الملا علی القاری:((والمخالف فی ذلک)الفعل(مِن کُفرِہِم) اَی مِن جہتہ (کَافِرٌ) لِجَحدِہ کُفرَہُم)
(شرح الشفا:جلدچہارم: ص536-دارالکتاب العربی بیروت)
ترجمہ:فعل تکفیر میں ان مرتدین کی تکفیر کی جہت سے ان علما کی مخالفت کر نے والاکا فر ہے،کیوں کہ وہ ان مرتدین کی تکفیر کا منکر ہے۔
توضیح:جو لوگ تکفیر کلامی سے اختلاف وانکار کو جائز کہتے ہیں،وہ غلط راہ پر ہیں۔
قال المحشی علی محمد البجاوی المصری:(من خالف مکفرہم فی تکفیرہم، فقال:لا یکفرون،ہذا المخالف کافر،لانہ رضی بکفرہم وتکذیبہم للّٰہ ورسولہ) (حاشیۃ الشفا: ص1091-دارالکتاب العربی بیروت)
ترجمہ:جو ان مدعیان نبوت کے مکفر (تکفیر کرنے والے)کی مخالفت کرے، ان مدعیان نبوت کی تکفیر کے معاملے میں،پس وہ کہے کہ ان مدعیان نبوت کی تکفیر نہیں ہوگی تویہ مخالف کافر ہے، کیوں کہ یہ ان مدعیان نبوت کے کفر پر راضی ہے،اور ان مدعیان نبوت کی جانب سے اللہ ورسول(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی تکذیب پر راضی ہے۔
توضیح:شیرخداحضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو کافر قراردیا جو آپ کو معبودمانتے تھے، اورآپ نے ان لوگوں کوجلادیا۔اسی طرح عہد ماضی میں سلاطین اسلام نے جھوٹے دعویداران نبوت کو قتل کیا، کیوں کہ وہ دعویٰ نبوت ودیگرجرائم کے سبب کافر ہوچکے تھے۔
اس زمانے کے علمانے بھی ان کوکافر مانا۔اب اگر کوئی ان کے کفرکا انکار کرے تووہ خود کافر ہے،کیوں کہ کافر کوکافر نہ ماننا خود کفر ہے۔
اس زمانے کے علمانے بھی اس کفر پر اتفاق کیا تولامحالہ یہ کفر کلامی ہے،کیوں کہ کفر فقہی میں متکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے۔مذکورہ بالاعبارتوں سے واضح ہوگیا کہ کافر کلامی کے کفر کا انکار کرنے والا کافرہے۔جو لوگ تکفیر کلامی میں اختلاف وانکار کو جائز کہتے ہیں،وہ غلط راہ پر ہیں۔
کفر کلامی کے صحیح فتویٰ سے اختلاف یا اس کا انکار کفر ہے۔
قال ابن نجیم المصری الحنفی:(وَمَن حَسَّنَ کَلَامَ اَھلِ الاَھوَاءِ اَو قَالَ مَعنَوِیٌّ اَو کَلَامٌ لَہٗ مَعنًی صَحِیحٌ-اِن کَانَ ذٰلِکَ کُفرًا مِنَ القَاءِلِ کَفَرَ المُحَسِّنُ)(البحرالرائق جلد پنجم:ص209)
ترجمہ:جس نے اہل بدعت کے کلام کواچھا کہا، یا بامقصد قرار دیا،یااس کے معنی کو صحیح قرار دیا تو اگر یہ کلمہ قائل کا ایک کفر ہو توا س کی تحسین کرنے والا کافر ہوجائے گا۔
توضیح:کفر یہ کلام کے سبب اگر متکلم پر کفر کلامی کا حکم صحیح عائد ہوتا ہے تو جس طرح سے بھی مرتکب کو غیر کافر قرار دیا جائے،اسے غیر کافر قرار دینے والا خود کافرہے۔صرف لاعلمی کی صورت میں ملزم کو کافر نہ ماننے والا معذورہے۔تکفیر کلامی سے اختلاف وانکار کی جوصورتیں بیان کی جاتی ہیں،وہ سب باطل ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس باطل نظریہ کو اہل سنت کا عقیدہ بنادیں گے۔
قال النووی:(وَاَنَّ مَن لَم یُکَفِّر مَن دَانَ بِغَیرِ الاِسلَامِ کَالنَّصَارٰی اَو شَکَّ فِی تَکفِیرِہِم اَو صَحَّحَ مَذہَبَہُم فَہُوَ کَافِرٌ-وَاِن اَظہَرَ مَعَ ذٰلِکَ الاِسلَامَ وَاِعتَقَدَہ)(روضۃ الطالبین جلد ہفتم:ص290)
قال الہیتمی ناقلًا عن الشفاء:(وَاَنَّ مَن لَم یُکَفِّر مَن دَانَ بِغَیرِ الاِسلَامِ کَالنَّصَارٰی اَو شَکَّ فِی تَکفِیرِہِم اَو صَحَّحَ مَذہَبَہُم فَہُوَ کَافِرٌ وَاِن اَظہَرَمَعَ ذٰلِکَ الاِسلَامَ وَاِعتَقَدَہ)(الاعلام بقواطع الاسلام: ص378)
واضح رہے کہ متکلمین کفر فقہی قطعی سے لفظی اختلاف کرتے ہیں کہ مجرم کو کافر نہیں کہتے,بلکہ گمراہ کہتے ہیں۔
لیکن کوئی ایسی جائز صورت نہیں کہ جان بوجھ کر کوئی کافر کلامی کی تکفیر کلامی کا انکار کرے یا اس سے اختلاف کرے۔یہاں لفظی اختلاف کی صورت بھی موجود نہیں۔