تنقید و تبصرہ

ملفوظاتِ صوفیہ: ایک تجزیاتی مطالعہ

از قلم: طفیل احمد مصباحی

ادب اور تصوف میں بڑا گہرا رشتہ ہے ۔ تصوف کے عروج کا دور اردو کا ابتدائی زمانہ ہے ۔ غیرمنقسم ہندوستان میں جس وقت تصوف اپنے نقطۂ انتہا پر فائز تھا ، اس وقت اردو کی حیثیت طفلِ مکتب کی تھی ۔ اس وقت اس کا دامن اتنا وسیع نہیں تھا جتنا کہ آج ہے ۔ صوفیۂ کرام نے اپنے مشن کی تبلیغ و توسیع کے لیے مقامی بولیوں کا سہارا لیا اور زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کی زبان میں تحریر و تقریر کا سلسلہ شروع فرمایا ۔ انقلاب 1857 ء سے پہلے تک چوں کہ ہندوستان میں فارسی زبان کا غلبہ تھا ، اس لیے یہی افہام و تفہیم اور دعوت و تبلیغ کی زبان ٹھہری اور اخلاق و تصوف پر مشتمل بیشمار کتب و رسائل فارسی میں تحریر کیے گئے ۔ مکتوبات و ملفوظات کے علاوہ مستقل کتبِ تصوف بھی وجود میں آئیں ، جو آگے چل کر اردو میں منتقل ہوئیں ۔ ” صوفی یا صوفیانہ ادب ” اردو زبان و ادب کے قدیم سرمایے میں ایک گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اردو کا شعری و نثری سرمایہ صوفیانہ خیالات اور تصوف کی حیات بخش تعلیمات سے لبریز ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ اردو شاعری پر تصوف کے اثرات کافی گہرے ہیں ۔ ڈاکٹر نفیس اقبال کے بقول : ” اردو شاعری روز اول سے ہی تصوف سے ہم آغوش رہی ہے ۔ فارسی شاعری کی واردات و حقائق اور اصطلاحات اردو شاعری میں رچ بس گئیں ۔ اردو قصائد کی تشبیہوں تک میں معرفت کے مضامین نفاست سے باندھے گئے ۔ اردو کی اصناف سخن میں خصوصاً غزل میں تصوف کے مسائل اس کثرت سے ادا کیے گئے ہیں کہ اگر صوفیانہ اشعار کو خارج کر دیا جائے تو اردو کا نصف سے زیادہ سرمایۂ شاعری باقی نہ رہے ۔ تصوف نے نت نئے الفاظ و اصطلاحات اور تلمیحات داخل کر کے اردو شاعری کو وسعت بخشی ۔ تصوف کی آمیزش نے عاشقانہ شاعری کے مزاج کی اصلاح کر کے تصورِ محبت کو بلند کیا ۔ اظہارِ محبت میں ادب ، شائستگی اور وقار و متانت کے پہلو نکالے ۔ صوفی شعرا نے قصیدہ گوئی کو خوشامد سے پاک کیا ۔ تصوف کی بدولت فلسفہ بھی شاعری میں داخل ہوا اور شاعری میں انسان کی عزتِ نفس کا خیال پیدا کر کے انسان کو بتایا کہ وہ کون و مکاں تسخیر کر سکتا ہے ” ۔

اردو میں زیادہ تر ملفوظات عربی و فارسی زبان سے ترجمہ ہو کر آئے ہیں ۔ تاہم خالص اردو ملفوظات کی ایک اچھی خاصی تعداد اردو میں موجود ہے ۔ اردو زبان و ادب کے فروغ و استحکام میں مکتوبات کی طرح ” ملفوظاتِ صوفیہ ” نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے نثری اصناف میں ” ملفوظات ” کا شمار ایک مستقل صنف کی حیثیت سے کیا گیا ہے ۔ نیز اردو کے لسانی مطالعے اور اردو نثر کی خشتِ اول کے طور پر ان کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ تفصیل کے لیے تاریخِ ادبِ اردو ، جلد : پنجم ، ص : 401 تا 403 ، مطبوعہ : قومی کونسل اردو ، دہلی کا مطالعہ کریں ۔

پروفیسرمحمد اسلم کے بیان کے مطابق : ” امیر حسن علاء سجزی نے تصوف میں ایک نئی صنف ایجاد کی اور ” ملفوظ نویسی ” کی داغ بیل ڈالی اور یہ فن تصوف کی نشر و اشاعت کا مؤثر ذریعہ بن گیا ” ۔ لیکن اس بیان پر بالکلیہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ امیر حسن علاء سجزی سے قبل دیگر علما و مصنفین اس صنف کی بنیاد رکھ چکے تھے ۔ فارسی زبان میں ملفوظات کا پہلا مجموعہ ” طبقات الصوفیہ ” کو مانا جاتا ہے جو خواجہ ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد الانصاری ہروی کی جمع و تالیف ہے ۔ بعض محققینِ ادب کی صراحت کے مطابق حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر علیہ الرحمہ ( جن کا تعلق پانچویں صدی ہجری سے ہے ) وہ پہلے شیخِ طریقت ہیں جن کے اقوال و ارشادات ” ملفوظات ” کی شکل میں جمع کیے گئے ۔ آپ کے ان ملفوظات کو ” سخنانِ ابو سعید ابو الخیر ” کے نام سے آپ کے نبیرہ شیخ کمال الدین محمد بن ابی روح روح اللہ علیہ الرحمہ نے مرتب و مدون کیا ۔ اس کتاب کا بابِ چہارم و پنجم ” ملفوظاتِ شیخ ” کے عنوان سے معنون ہے اور یہی دو ابواب در حقیقت ” ملفوظات ” کا نقطۂ آغاز ہے ۔

ملفوظات کی حقیقت و ماہیت اور ان کی روایت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر طلحہ رضوی برق دانا پوری لکھتے ہیں :

ملفوظات در اصل صوفیائے کرام و عرفائے عظام کے اقوال و اذکار کی تحریری شکلیں ہیں …….. اللہ کے وہ نیک بندے جنھیں ہم صوفیہ کہتے ہیں ، اس کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ کے ربانی مشن کی ترویج و تبلیغ زبانی و بیانی کے ساتھ لوح و قلم سے بھی کرتے رہے ۔ صوفیہ نے جو تعلیم اپنی خلوت و جلوت میں لوگوں کو دی ، کسی سامع نے اگر اسے یاد رکھا اور ضبطِ تحریر میں لایا تو وہی ” ملفوظ ” ہے اور اگر ان عارفوں اور صوفیوں نے از خود اسے اپنے قلم سے لکھ کو کسی کو دیا یا بھیجا تو وہ ” مکتوب ” ہے ۔ مکتوبات کی طرح ملفوظات کی حیثیت تصنیف کی نہیں ہے ۔ وہ ایسے مجموعۂ اقوال و فرمودات ہیں جو حاضرین مجلس و سامعین میں سے کسی نے اپنی یاد داشت پر اعتبار کرتے ہوئے حتی الامکان بے کم و کاست اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہو ۔ ملفوظات مذہبی ، ادبی ، تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ یہ ایسے پاکیزہ نفوس ، ستودہ صفات اور برگزیدہ شخصیتوں کے علمی و روحانی تجربات ، ملافظات و مکاشفات کا بے لوث و بے ریا بیان اور معرفتِ حقیقت کی تعلیم ہوتے ہیں ، جن میں تجلیاتِ آیاتِ الہٰیہ اور انوارِ ارشاداتِ مصطفویہ کا ہی فیضان نظر آتا ہے ۔ شیخ کی مجلسِ رشد و ہدایت کا بیان اگر جامعِ ملفوظات نے بغیر شیخ کی نظر ثانی کے عوام تک پہنچا دے تو وہ اپنی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر بہت زیادہ مستند نہیں سمجھا جاتا ۔ لیکن مکتوبات کے ساتھ ایسا نہیں ، کیوں کہ اس کی حیثیت مستقل تصنیف کی ہوتی ہے اور صاحبِ تصانیف کی مصدقہ ۔

( ورق ورق آئینہ ، ص : 36 تا 38 ، عرشیہ پبلیکیشنز ، دہلی )

صوفیۂ کرام کے چند اہم ملفوظات کی فہرست :

( 1 ) انیس الارواح ، ملفوظاتِ شیخ خواجہ عثمانی ہارونی ، جامع : حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ( 2 ) دلیل العارفین ، ملفوظات ِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ( 3 ) اسرار الاولیاء ، ملفوظاتِ شیخ بابا فرید الدین گنج شکر اجودھنی ( 4 ) سر الصدور ، ملفوظاتِ شیخ حمید الدین ناگوری ( 5 )کنوز الفوائد ، ملفوظاتِ شیخ صدر الدین محمد بن زکریا ملتانی ( 6 ) فوائد الفواد ، ملفوظاتِ حضرت شیخ نظام الدین اولیا دہلوی ۔ اس کے علاوہ افضل الفوائد ، تحفۃ الابرار و کرامۃ الاخبار ، ملفوظاتِ شیخ نظام الدین اولیا ، مجموع الفوائد اور انوار المجالس کے نام سے کے آپ کے ملفوظات مرتب ہوئے ۔ ( 7 ) نفائس الانفاس – احسن الاقوال – غریب الکرامات – بقیۃ الغرائب – اخبار الاخیار ، ملفوظاتِ شیخ برہان الدین غریب ( 8 ) خیر المجالس ، ملفوظاتِ شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی ( 9 ) جوامع الکلم ، ملفوظاتِ بندہ نواز گیسو دراز حضرت سید محمد بن یوسف حسینی ( 10 ) فوائدِ رکنی – معدن المعانی – لطائف المعانی – مخ المعانی – خوانِ پُر نعمت – زاد الفقیر ۔ یہ کُل 6 / ملفوظات سلطان المحققین ، مخدومِ بہار حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے ہیں اور علوم و معارف کے خزانے ہیں ۔ ( 11 ) خزینۃ الفوائد الجلالیہ و جامع العلوم ، ملفوظاتِ شیخ جلال الدین حسین بن احمد بخاری اوچھی ( 12 ) لطائفِ اشرفی ، ملفوظاتِ شیخ مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی کچھوچھوی ( 13 ) گنجِ لا یخفیٰ ، ملفوظاتِ شیخ حسین بن معز الدین بلخی بہاری ( 14 ) رفیق العارفین ، ملفوظاتِ شیخ حسام الدین مانک پوری ( 15 ) تحفۃ المجالس ، ملفوظاتِ شیخ احمد بن عبد اللہ مغربی لکھنوی ( 16 ) مناہج الشطار ، ملفوظاتِ شیخ محمد بن علا منیری عرف قاضن ( 17 ) مقاماتِ خضرویہ ، ملفوظاتِ شیخ دانیال بن حسن خضری ( 19 ) جامع الکلم ، ملفوظاتِ شیخ عبد اللہ بن بہلول سندیلوی ( 20 ) ثمرۃ الحیات ، ملفوظاتِ شیخ برہان الدین شطاری برہان پوری ( 21 ) روائح الانفاس ، ملفوظاتِ شیخ برہان الدین غریب ( 22 ) ملفوظاتِ شیخ ہاشم بن برہان الدین علوی گجراتی ( 23 ) مونس الطالبین ، ملفوظاتِ شیخ پیر محمد پٹنی ( 24 ) ملفوظاتِ شاہ محمد مینا لکھنوی ( 25 ) الفوائد السعدیہ ، ملفوظاتِ شاہ محمد مینا لکھنوی ( 26 ) ملفوظاتِ رزاقی ، ملفوظاتِ شیخ عبد الرزاق حسینی بانسوی ( 27 ) ملفوظاتِ شاہ فخر الدین دہلوی ( 28 ) فوائدِ فخریہ ، ملفوظاتِ شاہ فخر الدین دہلوی ( 29 ) ملفوظاتِ شیخ عبد اللہ بن عبد الباقی نقشبندی ( 30 ) دار المعارف ، ملفوظاتِ شاہ غلام علی علوی دہلوی ( 31 ) نافع السالکین ، ملفوظاتِ شاہ سلیمان تونسوی ( 32 ) ملفوظاتِ شیخ حبیب اللہ شطاری بیجا پوری ( 33 ) ہدایۃ القلوب و دلیل السالکین و جنۃ القلوب و جنۃ المحبوب ، ملفوظاتِ شیخ زین الدین داؤد بن حسین شیرازی دولت آبادی ( 34 ) جواہرِ اعلیٰ ، ملفوظاتِ شیخ عبد السلام پانی پتی

( اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ، ص : 304 تا 307 ، ناشر : دار المصنفین ، اعظم گڑھ )

ان کے علاوہ ہند و پاک کی مختلف خانقاہوں کے مشائخِ عظام اور مرشدانِ طریقت کے سینکڑوں ملفوظات موجود ہیں ۔ مثلاً : ملفوظاتِ حضرت اخی جمشید راجگیری ، ملفوظاتِ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ( ملفوظاتِ عزیزی ) ، ملفوظاتِ مولانا روم ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی کی ” الملفوظ ” ، ملفوظاتِ اشرف علی تھانوی ، ملفوظاتِ کلیمی موسوم بہ مجالسِ کلیمی ، ملفوظاتِ خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی ، مناقب الحسن ، فواتح العرفان ، احسن الشمائل ، در المعارف وغیرہم ۔ سلطان العارفین ، بدر الکاملین حضرت سیدنا شہباز محمد بھاگل پوری علیہ الرحمہ کے خلفائے عظام میں حضرت مولانا ابو البرکات اور حضرت خواجہ علی کے ملفوظاتِ عالیہ بھی اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں ۔

صوفیۂ کرام کے ان ملفوظاتِ عالیہ کی مختلف حیثیتیں ہیں ۔ دینی و علمی ، روحانی و اخلاقی ، ادبی و لسانی ، سوانحی اور تاریخی و ثقافتی اعتبار سے ان کو نمایاں ترین مقام حاصل ہے ۔ صوفیۂ کرام کے ملفوظات کا مطالعہ کرنے کے بعد ان میں مختلف فنون کے اندارج و شمولیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ ان کی تاریخی اہمیت اجاگر ہوتی ہے ۔ مثلاً : صاحبِ ملفوظ ( شیخ و مرشد ) کے عہد کی مختصر سیاسی و تمدنی تاریخ ، سماجی احوال ، تلامذہ و معاصرین کا تذکرہ اور دیگر سوانحی و تاریخی کوائف کا علم ان ملفوظات سے ہوا کرتا ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے پیش رو ہندوستانی مورخین نے اپنی تاریخیں لکھتے وقت ان ملفوظات کو نظر انداز کر دیا ۔ اگر ان کو سامنے رکھ کر اسلامیانِ ہند کی تاریخیں مرتب کی جاتیں تو ان کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ۔ غرض کہ دینی و علمی اور روحانی حیثیتوں کے علاوہ ملفوظات کی تاریخی اہمیت اور تمدنی حیثیت مسلم ہے ۔

پروفیسرخلیق احمد نظامی کا یہ مبنی برحقیقت اقتباس ملاحظہ کریں :

ملفوظاتی لٹریچر ہندوستان کی تہذیبی و فکری تاریخ کا بیش قیمت سرمایہ ہے ۔ اس سے نہ صرف صوفیائے کرام کی زندگی اور ان کے افکار و نظریات پر روشنی پڑتی ہے ، بلکہ اس دور کی فضا ، معاشی حالات ، ادبی تحریکات اور سماجی رجحانات کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ قرونِ وسطیٰ کے بیشتر ہندی مؤرخین ایرانی نظریۂ تاریخ سے متاثر تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی تاریخوں میں صرف بادشاہوں کے حالات اور جنگی مہموں کی تفصیل ملتی ہے ۔ عوام کی زندگی اور ان کے مسائل کی کہیں کوئی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی ۔ ملفوظات ہمارے تاریخی ماخذ کی اس تکلیف دہ کمی کو ایک حد تک پورا کر دیتے ہیں ۔ ان میں عوام کے دلی جذبات ، ان کی پوشیدہ آرزوئیں ، کشمکشِ حیات میں ہار جیت ، ان کی مایوسیاں اور پریشانیاں ، ان کی معصوم مسرتیں سب ہی محفوظ ہو گئی ہیں ۔

( ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت ، ص : 10 – 11 ، مطبوعہ : ادارۂ تحقیقات پاکستان ، لاہور )

علمی و روحانی لحاظ سے تقریباً تمام ملفوظات یکساں ہوتے ہیں اور ان کے عام موضوعات و مضامین وہی ہوتے ہیں جو بالعموم تصوف کے ہوا کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بیش بہا علمی افادات و تحقیقی مباحث کے حامل ہوتے ہیں ، جو نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں ، بلکہ صاحبِ ملفوظ کے عہدِ زریں کے احوال اور سبق آموز واقعات سے بھی روشناس کرتے ہیں ۔ ملفوظات چوں کہ بزرگانِ دین کی نجی محفلوں اور ان کی علمی و روحانی نشستوں میں عوام و خواص کی طرف سے پیش کردہ مختلف سوالات کے جوابات اور مختلف النوع خیالات کا مجموعہ ہوتے ہیں ، اس لیے ان میں مختلف علوم و موضوعات پر بیش قیمت مسائل و مباحث موجود ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت ” کوزے میں سمندر بند کرنے ” کی ہوتی ہے ۔

تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے سرِ دست یہاں ایک ملفوظ کا تذکرہ کرنا ضروری ہے ، جسے تمام ملفوظات میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ سلطان المحققین ، مخدومِ بِہار حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ مختلف علوم و فنون میں دستگاہِ کامل رکھنے والے اپنے وقت کے جید عالم ، مرشدِ طریقت ، ممتاز محدث ، فارسی زبان کے عظیم ادیب و انشا پرداز اور مصنفِ تصانیفِ کثیرہ تھے ۔ آپ ہندوستان میں بخاری و مسلم کا درس دینے والے پہلے محدث صوفی ہیں ۔ آپ کے مکتوباتِ عالیہ کا گراں قدر مجموعہ ” مکتوباتِ صدی ” و ” مکتوباتِ دو صدی ” کو عالمی شہرت حاصل ہے ۔ مکتوبات کی طرح آپ ملفوظات کو بھی انفرادی مقام اور امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ آپ کے نصف درجن ملفوظات میں سے ” معدن المعانی ” اسم با مسمیٰ ہے ۔ یہ صحیح معنوں میں علوم و فنون کا معدن اور حقائق و معارف کا منبع ہے ۔ الحمد للہ ! راقم الحروف کو چند سال پیشتر اس کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ اپنی علمی و مطالعاتی زندگی میں جن کتب و رسائل کے مطالعے سے بہت زیادہ محظوظ و متاثر ہوا ، یہ ان میں سے ایک ہے ۔ علمِ قرآن و تفسیر ، علمِ حدیث ، اصولِ حدیث ، فقہ و اصول فقہ اور علم کلام و فلسفہ پر جس محققانہ انداز میں آپ نے گفتگو فرمائی ہے ، وہ آپ ہی کا حصہ ہے ۔ ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں پچاس ابواب ہیں اور ہر باب کے تحت وہ تحقیقی مباحث ہیں کہ بس دیکھا کیجیے ۔ فقیر مصباحی کی ناقص رائے میں جملہ ملفوظاتِ صوفیہ میں اسے بدر بین النجوم کا درجہ حاصل ہے اور کیوں نہ ہو کہ صاحبِ ملفوظ جامعِ شریعت و طریقت ، ماہرِ علوم و فنون اور سلطان المحققین ہیں ۔ اللہ عز و جل اگر توفیق اور موقع دے تو آپ حضرات ایک بار اس کا ضرور مطالعہ کریں ۔

مقامِ افسوس ہے کہ دینی ، علمی ، ادبی و لسانی ، اخلاقی و روحانی اور تاریخی و تمدنی اہمیت کے با وجود اردو ادب میں ملفوظات کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے ۔ دیگر مذہبی موضوعات کی طرح ان کو بھی ایک مذہبی چیز سمجھ کر ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ حالاں کہ ” ملفوظاتِ صوفیہ ” ایک ایسا موضوع ہے جن کے مالہ و ما علیہ پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی جا سکتی ہے اور ان کو ایم فل یا پی ایچ ڈی کا عنوان بنایا جا سکتا ہے ۔ اللہ کرے کہ کوئی محقق سامنے آئے اور اس موضوع پر اپنی تحقیق پیش کرے ۔ اس حوالے سے چند ذیلی عناوین نذرِ قارئین ہیں ۔ ان عناوین کے تحت مضامین و مقالات بھی لکھے جا سکتے ہیں اور انہیں تحقیق و ریسرچ کا عنوان بھی بنایا جا سکتا ہے :

( 1 ) توحید و رسالت : ملفوظاتِ صوفیہ کی روشنی میں ( 2 ) ملفوظاتی ادب میں مختلف علوم و فنون کی جلوہ ریزیاں ( 3 ) تصوف اور ملفوظاتِ صوفیہ ( 4 ) ملفوظاتی ادب کا فنی و لسانی تجزیہ ( 5 ) ملفوظاتِ صوفیہ اور تذکرۂ مشاہیر ( 6 ) اخلاقیات : ملفوظات کی روشنی میں ( 7 ) ملفوظاتِ صوفیہ کے قرآنی ماخذ ( 8 ) ملفوظات میں موجود احادیث کا علمی و تحقیقی جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے