علما و مشائخ

امام شاہ ولی الله محدث دہلوی علیہ الرحمه

ازقلم: محمد سلیم انصاری ادروی

ولادت: امام الہند امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمه ۴ شوال سنہ ١١١۴ھ/ ١٠ فروری سنہ ١٧٠٣ء کو پیدا ہوئے۔ آپ شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی علیہ الرحمه کے فرزند تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب والد ماجد کی طرف سے تیس واسطوں سے حضرت فاروق اعظم تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما تک پہنچتا ہے۔

والد: شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی سنہ ١٠۵۴ھ کو پیدا ہوئے اور سنہ ١١٣١ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ فتاویٰ عالمگیری کی تکمیل کے بعد نظر ثانی کا مرحلہ درپیش تھا اس سلسلہ میں کچھ حصہ شیخ حامد جون پوری کے سپرد تھا ان کی وساطت سے نظر ثانی کے لیے کچھ حصہ شاہ عبد الرحیم کے سپرد بھی کیا گیا لیکن کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ/ج: ١۵، ص: ١۵٢)

تحصیل علم: شاہ ولی الله بیان کرتے ہیں کہ مجھے "عمر کے پانچویں عرصے میں مکتب میں بیٹھا دیا گیا……………ساتویں سال میں قرآن پاک ختم ہوا اور فارسی کی تعلیم شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ دسویں سال شرح ملا جامی پڑھ لی اور مطالعہ کتب کی استعداد پیدا ہو گئی۔” (رسائل شاہ ولی الله/ص: ٨)

شاہ ولی الله نے مشکوة شریف، صحیح بخاری (کتاب الطہارت تک)، شمائل ترمذی (مکمل)، تفسیر مدارک اور تفسیر بیضاوی شریف کا کچھ حصہ اپنے والد سے پڑھا۔ شاہ ولی اللہ نے زیادہ تر تعلیم اپنے والد اور مولانا محمد افضل سیال کوٹی سے حاصل کی۔

بیعت: ١۵ سال کی عمر میں آپ اپنے والد کے دست اقدس پر سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔ جب آپ کی عمر ١٧ سال ہوئی تو آپ کے والد شاہ عبد الرحیم کا انتقال ہو گیا۔ رحلت سے قبل شاہ عبد الرحیم نے آپ کو اجازت و خلافت سے سرفراز کیا۔

تدریس: شاہ ولی اللہ نے فراغت کے بعد طالبان علم نبوت کو درس دینے کا شغل اختیار کیا اور بارہ سال تک اس مقدس کام میں مصروف رہے اور اپنی قابلیت کی دھاک دور دور تک بیٹھا دی۔ دور دراز شہروں اور ملکوں سے طلبہ جوق در جوق آکر آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوتے اور علم ظاہر و باطن سے اپنے دامن کو مالامال کرتے۔

سفر حج: سنہ ١١۴٣ھ میں آپ نے حج و زیارت کے ارادے سے حرمین شریفین کا سفر کیا اور حج کی ادائیگی کے بعد حجاز مقدس کے مشاہیر فقہا و محدثین کی بارگاہوں سے علمی فیوض حاصل کیے۔ شیخ وفد الله بن شیخ محمد بن سلیمان مغربی کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ نے مؤطا امام مالک براویت یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اول سے آخر تک قلیل مدت میں سنا دی اور اس کے بعد شیخ محمد بن محمد بن سلیمان مغربی کی تمام مرویات کی اجازت حاصل کی۔ پھر حرمین شریفین کے سب سے بڑے عالم و محدث شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی رحمه الله کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کافی مدت تک ان سے احادیث سنتے رہے، شیخ ابو طاہر مدنی نے سند حدیث دینے کے علاوہ آپ کو اپنا خرقه بھی عنایت فرمایا جو تمام خرقوں کو جامع و حاوی تھا۔ شیخ تاج الدین نے آپ کو صحاح ستہ کی تحریری سند عطا کی۔ ان کے علاوہ شاہ ولی اللہ کو حرمین شریفین کے مشہور علما و فضلا مثلاً شیخ احمد شناوی، شیخ احمد قشاشی، سید عبد الرحمن، شیخ شمس الدین بابلی، شیخ عیسیٰ جعفری، شیخ حسن عجمی، شیخ احمد علی اور شیخ عبد الله بن سالم بصری سے بھی بلا واسطہ یا بالواسطہ روایت حدیث کی اجازت حاصل ہوئی۔ سنہ ١١۴۴ھ کے اختتام پر آپ نے دوبارہ مناسک حج ادا کیے اور سنہ ١١۴۵ھ کے اوائل میں ہندوستان واپس آ گئے۔

درس و تدریس: شاہ ولی الله جب ہندوستان واپس آئے تو انہوں نے اپنے والد کے مدرسہ رحیمیہ محلہ مہديان میں درس حدیث کا آغاز کیا اور طلبہ کو کتاب و سنت کا درس دینے میں مصروف ہو گئے، صدہا طالبان علم مجلس درس میں شامل ہونے لگے جس سے مدرسہ رحیمیہ محلہ مہديان کی عمارت تنگ ہو گئی تو محمد شاہ بادشاہ نے شہر دہلی میں ایک وسیع عمارت مدرسے کے لیے دی جہاں شاہ ولی اللہ پوری عمر درس دیتے رہے، آپ کے بعد شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اس دارالعلوم کے شیخ الحدیث ہوئے۔

تلامذہ: آپ کے تلامذہ کی تعداد بے شمار ہے، چند اہم تلامذہ یہ ہیں:

● شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، ● شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، ● شاہ عبد القادر محدث دہلوی، ● شاہ عبد الغنی مجددی، ● شیخ محمد عاشق دہلوی، ● سید مرتضیٰ بلگرامی، ● قاضی ثناء اللہ پانی پتنی، ● شیخ محمد امین کشمیری، ● شیخ رفیع الدین مرادآبادی، ● شیخ محمد معین سندھی، ● شیخ جار اللہ بن عبد الرحیم لاہوری۔

خدمت علم حدیث: ہندوستان کی تاریخ میں شاہ ولی اللہ کا سب سے نمایاں اور اہم کام حدیث نبوی کی تدریس، کتب احادیث کی شرح و ترجمه اور علم حدیث کے تعلق سے گراں قدر مصنفات ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے مؤطا امام مالک کی عربی زبان میں شرح "المسویٰ من احادیث المؤطا” اور فارسی زبان میں شرح "المصفیٰ فی شرح مؤطا” تصنیف فرمائی۔

تصانیف: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بلند پایہ مصنف اور صاحب طرز قلم کار تھے، آپ کے قلم سے تقریبا ایک سو گراں قدر کتابیں وجود میں آئیں، جن میں سے چند کتب کے نام درج ذیل ہیں:

● فتح الرحمن (ترجمه قرآن، فارسی)، ● الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، ● المسویٰ من احادیث المؤطا، ● المصفیٰ فی شرح مؤطا، ● چہل حدیث، ● تراجم ابواب بخاری، ● القول الجمیل، ● فیوض الحرمین، ● الطاف القدس، ● الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ● انفاس العارفین، ● شفاء القلوب، ● البدور البازغہ، ● لمحات، ● حجة اللہ البالغہ، ● رسالہ دانش مندی، ● قصیدہ اطیب النغم۔

وصال: ۲۹ محرم الحرام سنہ ١١٧٦ھ/ ٢١ اگست سنہ ١٧٦٢ء کو امام الہند امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمه کا وصال ہوا، دہلی دروازہ کے قریب مہدیان میں آپ کی تدفین ہوئی۔

(محدثین عظام کی حیات و خدمات/ص: ٦۴٢- ٦۵٣، تذکرہ علمائے ہند/ص: ۴۵٨، ۴۵٩۔ ، قصیدہ اطیب النغم/ص: ٦، ٧)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے