ازقلم: حسان المصطفیٰ قادری، گھوسی
کسی نے کہا تھا: "میری نظر میں فن توقیت کا ماہر جامعہ اشرفیہ میں تو کوئی نہیں ۔ ہاں گھوسی میں دو فرد ہیں ۔ ایک حضور محدث کبیر مد ظلہ العالی اور دوسرے مفتی آل مصطفٰی مصباحی”۔
بات سچ تھی ۔ مگر اب مفتی صاحب اللہ کے پیارے ہو گئے، لیکن اب بھی گھوسی میں اس فن کے ماہر دو ہی فرد ہیں: ایک حضور محدث کبیر اطال اللہ عمرہ اور دوسرے مفتی فیضان المصطفی قادری ادام اللہ اقبالہ۔
فن توقیت میں موصوف کے استاذ حضور محدث کبیر مد ظلہ العالی ہیں ۔ ہم نے خود دیکھا کہ قادری منزل کی چہار دیواری کے ایک گوشہ میں صدرالشریعہ کے علوم کے امین و وارث محو درس و تدریس ہوتے۔ ایک طرف وقت کا عظیم محدث و فقیہ فرش پر دراز چٹائی پر جلوہ بار ہوتا اور دوسری طرف فنون قدیمہ و جدیدہ کو اپنے سینے میں سمیٹنے کے لیے مچلتا ہوا نوجوان محقق ادب سے سمٹا ہوا ہوتا۔
پہلی مرتبہ امریکہ سے واپس آنے کے بعد حضور صدرالشریعہ کی امانت "کشف الاستار حاشیہ شرح معانی الآثار” امت مسلمہ کے حوالے کرنا، جامعہ امجدیہ کی درسگاہ میں بیٹھ کر تشنگان علوم نبویہ کو بخاری ، ترمذی ، ہدایہ ، نورالانوار ،شرح العقائد کے جام سے سیراب کرنا، حضرت کی بارگاہ میں متعدد فنون کے علاوہ، علم توقیت کے حصول کے لیے روزانہ پابندی کے ساتھ حاضر ہونا ہمیں آج بھی یاد ہے ۔
اپنے شیخ سے اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد شیخ کا فیض شیخ کے مدرسہ میں ہی عام کیا جانے لگا ۔ اور اب حضور محدث کبیر کا یہ فیض ہند و پاک کی سرحدوں کے پار دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچایا جانے لگا ۔ آپ کے توسط سے اس خاردار وادی کے مسافرین نہ صرف علما حضرات ہیں،بلکہ کنیزان زہرا نے بھی اس راہ میں آبلہ پائی کی اور کامرانیاں ان کی مقدر ہوئیں ۔ الحمد للہ اسلاف کے اس فن سے شناسائی سبط صدرالشریعہ کے ذریعہ روز بروز عام تر ہورہی ہے ۔ ماضی میں اس فن کے شناس ہند وپاک میں انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے، مگر مستقبل میں فن توقیت کے واقفین کا شمار انگلیوں پر دشوار ہوگا ۔