خلیفہ و جانشین دوم حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانیؒ (سابق سجادہ نشین امام پورہ شریف) (۱)
تربیتِ نفوس انسانی بعثت مصطفیﷺ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے جس کا تذکرہ قرآن حکیم اس طرح کرتا ہے: ’’ لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُوعَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْن‘‘ ترجمہ: ’’یقیناً بڑا اِحسان فرمایا اللہ تعالی نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسُول انہیں میں سے پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں اَور پاک کرتا ہے اُنہیں اَور سِکھاتا ہے اُنہیں قرآن اور سُنّت اگرچہ وُہ اس سے پہلے یقیناً کُھلی گُمراہی میں تھے‘‘۔ (۲) اس آیت پاک کی تفسیر کرتے ہوئے جسٹس پیر کرم شاہ ازھریؒ رقمطراز ہیں ’’درِندہ صِفت اِنسان کینوکر فِرشتہ سیرت بن گئے۔ جنہیں کوئی اپنا غلام بنانا بھی پسند نہیں کرتا تھا کیونکر آئینِ جہانبانی میں دُنیا بھر کے اُستاد ہوگئے۔ جن کی گھٹّی میں شراب تھی۔ ظلم و سِتم جن کا شِعار تھا۔ کُفر و شِرک اَور فِسق و فجور کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے بھٹکتے صدیاں گزر چکی تِھیں۔ ان میں یہ مکمّل تبدیلی اَور ہمہ گیر اِنقلاب کیونکر آیا۔ جنہوں نے کبھی اِن حقائق پر غور کیا ہے وُہی اس نبیِ معظّم کی شانِ رفیع کو جان سکتے ہیں۔ تِتلاوتِ آیات، تعلِیم کتاب و حِکمت کے علاوہ تزکیۂ نفس اَور تربیتِ صالحہ سے یہ مُبارک اِنقلاب رُوپذیر ہوا۔ اِن الفاظ پر حاشیہ سُورۂ بقرہ میں گزر چکا ہے‘‘۔ (۳) موجودہ دور میں تعلیم کے صرف مادی فوائد پر نظر رکھی جارہی ہے اور تربیت کے پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا جارہا ہے۔ آج تعلیم کا بہت شور ہے لیکن تربیت کا کوئی نام نہیں لیتا۔ جبکہ ہم سب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ آدمی تربیت سے انسان بنتا ہے نہ کہ تعلیم سے۔ تعلیم سے انسان کا ظاہر اچھا ہوتا ہے جبکہ تربیت سے انسان کا باطن روشن و منور ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تعمیرِ سیرت اور شخصیت سازی میں تعلیم سے زیادہ تربیت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ سیرت مصطفیﷺ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیم و تربیت کا عمل ہمہ وقت ساتھ ساتھ چلتا رہا اور کوئی لمحہ ایسا نظر نہیں آتا جب دونوں میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظر انداز کیا گیا ہو جو درحقیقت تعلیماتِ مصطفی ﷺکی جامعیت و کاملیت پر دال ہے۔ عموماً انسان امثال اور قصوں کو بغور سماعت کرتا ہے چنانچہ انسانی تربیت میں امثال و قصوں کا استعمال انتہائی موثر اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ ذخیرہ احادیث میں انسان کی تربیت اور شخصیت کی تشکیل و تعمیر کے حوالے سے متعدد مثالیں، نظائر، تشبیہات اور استعارات ملتے ہیں۔ جیسے بخاری شریف کی ایک حدیث میں علم و ہدایت کو مفید بارش سے، ہدایت یافتہ شخص کو اچھی زمین سے اور غیر ہدایت یافتہ شخص کو بنجر زمین سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (۴)
کامل اور متوازِن شخصیت کا سب سے کامل نمونہ رسول اللہ کی ذات گرامی ہے۔ آپ کی ذات اقدس و اطہر میں مادی اور روحانی دونوں پہلو پورے توازن کے ساتھ موجود ہیں جو اعلی اور متوازن شخصیت کی تشکیل و تعمیر کے لیے از حد ضروری ہے ۔سرور کونینﷺ کے توسط سے تربیت کی ذمہ داری خیر امت کے ’’الرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ‘‘ (۵)کے سپرد کی گئی ہے ۔ دکن کے لوگوں پر اللہ تعالی کا یہ خاص انعام ہے کہ اس نے سلطنت آصفیہ کے دو حکمرانوں یعنی آصف سادس میر محبوب علی خان ( 1866-1911ئ) اور آصف سابع میر عثمان علی خان (1886-1967ئ) کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اَلْعُلَمَائُ وَرَثَۃُ الاَنْبِیَائِ (۶)کی اعلی شان رکھنے والے اتالیق سلاطین آصفیہ شیخ الاسلام حضرت مولانا الشاہ ابو البرکات حافظ امام محمد انوار اللہ فاروقی چشتی قادری ؒ بانی جامعہ نظامیہ ( 1848-1918ئ) کے حصہ میں رکھی۔ شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہؒ نے تعلیم و تربیت اور اصلاح کے نبوی منہج کو اختیار فرمایا جس سے انسان کے مادی اور روحانی پہلوئوں میں توازن اور انسان کی متوازِن شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ بانی جامعہ نظامیہؒ جانتے تھے کہ معلم انسانیت کے اسوہ حسنہ، مثالی طرزِ عمل اور تعلیم و تربیت کے منفرد انداز کی اقتداء اور پیروی کرکے ہی تعلیم و تربیت کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور مثالی تعلیمی و روحانی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ضمیر فروشی، اصول فروشی اور اخلاق فروشی کے دور میں روشنی کے مینار یعنی بانی جامعہ نظامیہؒ نے میانہ روی، راست بازی اور صداقت شعاری کے ساتھ ان دونوں حکمرانوں کی ایسی تعلیم و تربیت اور اصلاح فرمائی جس کے باعث یہ دونوں ایسے راہنمایان قوم و ملت بن کر ابھرے جن کی خدمات جلیلہ و مفیدہ سے بلالحاظ قوم و ملت تمام انسانیت آج تک مستفید ہورہی ہے اور انشاء اللہ العزیز تا قیام شمس و قمر اس کا سلسلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔
اللہ تعالی نے انسان کے اندر تین قوتیں ودیعت فرمائی ہیں (1) قوت عقلیہ، (2) قوت غضبیہ، اور (3) قوت شہویہ۔ ان تمام قوتوں کا صحیح استعمال کرنے، انہیں حد اعتدال میں رکھنے اور ان کے منفی اثرات سے انسان اور انسانیت کو بچانے کے لیے تربیت از حد ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان قوتوں کا صحیح یا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا فائدہ اور نقصان محدود ہوتا ہے لیکن اگر شاہان وقت انہی قوتوں کا صحیح یا غلط استعمال کریں تو اس کا فائدہ اور نقصان پورے معاشرے کو پہنچتا ہے۔غیر تربیت یافتہ حکمرانوں کے طرز حکومت سے جو نقصانات ہوتے ہیں اس کی بہت سی مثالیں تاریخ اسلام میں درج ہیں: یہ غیر تربیت یافتہ حکمران ہی تھے جنہوں نے سعید بن جبیرؓ (665-714ئ) کو حجاج بن یوسف (661-714ئ) کے دور میں ایسے ذبح کیا گیا جیسے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے، امام اعظم ابو حنیفہؒ (699-767ئ) کو قاضی القضاۃ کا عہدہ نہ قبول کرنے پر قید میں ڈالا گیا، خلق قرآن کے مسئلہ پر امام مالکؒ (711-795ئ) جیسے عالم دین کو عباسی دور کے دوسرے حکمراں منصور ( 714-775ئ) کے عہد میں 70 کوڑے لگائے گئے، مجدد الف ثانیؒ (1564-1624ئ) کو مغلیہ بادشاہ اکبر (1542-1605ئ) کے دین الٰہی سے اظہارِ بیزاری کے سبب گوالیار میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، شراب کے نشہ میں بدمست بادشاہ محمد شاہ سوم لشکری لوگوں کی سازشوں کا شکار ہوگیا اور بے انتہا غصہ اور برہمی کی حالت میں محمود گاواں (1411-1481ئ) جیسے عالم و فاضل کو 14/اپریل 1481ء تختہ دار پر چڑھانے حکم صادر کردیا جو بعد میں بہمنی سلطنت کے زوال اور پانچ سلطنتوں میں بٹ جانے کا ایک سبب بناجسے مجموعی طور پر دکنی سلطنت کا نام دیا جاتا ہے۔اہلیانِ دکن پر اللہ تعالی کا احسان عظیم ہے کہ اس نے بانی جامعہ نظامیہؒ کی شکل و صورت میں ہمیں خدا ترس مربی و مصلح عطا فرمایا جن کے تربیت یافتہ فرمانروائوں یعنی آصف جاہ سادس میر محبوب علی خان اور آصف جاہ سابع میر عثمان علی خان کے ادوار میں دکن نے علمی، روحانی، معاشی، رفاہی اور زندگی کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں عدیم النظر ترقیات حاصل کیں۔
قیام مملکت آصفیہ یعنی 1724 سے 1857 یعنی آصف خامس میر تہنیت علی خان (1827-1869ئ)کے عہد تک ترقیات کا دائرہ بہت محدود تھا۔بلکہ اگر ہم تاریخ میں تھوڑ ا پیچھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ جنوبی ہندوستان یعنی دکن میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ علاء الدین خلجی (1266-1316ئ) کے زمانے یعنی سن 1296ء سے شروع ہوچکا تھا اور یہ سلسلہ تغلق سلطنت (1320-1413ئ) کے بادشاہ محمد بن تغلق (1290-1351ئ) دور تک جاری رہاجب اس نے 1327ء میں اپنا دار الخلافہ دہلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا حکم صادر کیا تھا اور ظفر خان کو جنوبی ہند کا صوبہ دار مقرر کیا جس نے آگے چل کر علاء الدین حسن گنگو بہمنی کا لقب اختیار کرکے اور امیران صدہ کو اپنے ساتھ ملاکر مرکز یعنی سلطنت تغلق سے علاحدگی اختیار کرلی اور جنوبی ہند میں سب سے مسلم سلطنت کا قیام سن 1347 میںعمل میں لایا ۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد پانچ سلطنتیں معرض وجود میں آئیں یعنی احمد نگر کی نظام شاہی(1490-1636ئ) ، بیرار کی عماد شاہی(1490-1572)، بیجاپور کی عادل شاہی( 1490-1686ئ) ، بیدر کی بریدشاہی (1492-1619ئ) اور گولکنڈہ کی قطب شاہی (1518-1687ئ) سلطنت۔ بہمنی سلطنت سے لیکر آصف جاہ خامس میر تہنیت علی خان کے دور تک یعنی 564 سال میں وہ ترقیات نہیں ہوئیں جو آصف جاہی سلطنت کے دو فرمانروائوں یعنی آصف جاہ سادس میر محبوب علی خان اور آصف جاہ سابع میر عثمان علی خان کے ادوار میں ہوئیں ۔مملکت آصفیہ میں مذہبی، رفاہی، تعلیمی، سماجی میدانوں میں اس قدر غیر معمولی ترقیاں حاصل ہوئیں کہ ان کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے ۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں ان غیر معمولی ترقیات کی ایک اہم وجہ حضرت بانی جامعہ نظامیہؒ کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا فیضان تھا۔
جنوبی ہند یعنی دکن میں مسلم حکمرانوں کے 564 سالہ دور کو ہم فراموش بھی نہیں کرسکتے چونکہ انہی ادوار میں دولت آباد، خلد آباد، گلبرگہ شریف اور بیدر شریف میں چشتیہ، قادریہ، جنیدیہ اور دیگر اہل طریقت سے وابستہ صوفیائے کرام کی خانقاہیں آباد ہورہی تھیں جہاں عوام الناس کی باطنی و روحانی تربیت کا کام ہورہا تھا۔ ان بزرگان دین کے ملفوظات کو تحریری شکل دی جارہی تھی چنانچہ امیر حسن علی سجزیؒ(1254-1337ئ) نے حضرت شیخ نظام الدین اولیائؒ (1238-1325ئ)کی زبانی نصیحتوں کو فوائد الفواد کے نام سے، رکن الدین دبیر کاشانیؒ (المتوفی 1337ئ) نے شیخ برہان الدین غریبؒ (1256-1338ئ) کے اقوال کو نفائس الانفاس و لطائف الالفاظ اور شمائل الاتقیا و دلائل الانقیا کے نام سے، مجد الدین کاشانیؒ (المتوفی1347ئ) نے شیخ برہان الدین غریبؒ کے اقوال کو غرائب الکرامات و عجائب المکاشفات اور باقیات الکرامات کے نام سے، حماد الدین کاشانیؒ (المتوفی 1360ئ) نے شیخ برہان الدین غریبؒ کے ارشادات کواحسن الاقوال کے نام سے، حمید شاعر معروف بقلندرؒ (المتوفی 1366ئ) نے حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلیؒ (1274-1356ئ) کے پند و نصائح کو خیر المجالس کے نام سے،میر حسنؒ (المتوفی 1336ئ) نے حضرت خواجہ زین الدین دائود شیرازیؒ (1301-1369ئ) کی زبانی تعلیمات کو ہدایت القلوب کے نام سے اور سید اکبر حسینیؒ (1361-1409ئ) نے حضرت بندگی مخدوم سید محمد حسینی گیسودرازؒ (1321-1421ئ) کے نصائح کو جوامع الکلم کے نام سے مرتب کیا۔ انہی ادوار میں اسلامی فن تعمیر کے شاہکار قلعے، محلات، جامع مسجد اور سلاطین و اولیائے کرام کے مزارات مقدسہ پر عالیشان و پر شکوہ گنبدیں تعمیرہورہی تھیں۔(۷)علاوہ ازیں مولانا عصامی (ولادت1311ئ) کی فتوح السلاطین، ملک سیف الدین غوری (المتوفی 1397ئ) کی نصائح الملک، رفیع الدین شیرازی (ولادت 1541ئ) کی تذکرۃ الملوک، محمد قاسم فرشتہ (1570-1620ئ) کی تاریخ فرشتہ، منشی ہیرالال خوشدل کی تواریخ قطب شاہی (تاریخ تالیف 1583ئ) ، امین احمد راضی (ولادت 1594ئ) کی ہفت اقلیم، محمود گاواں کی ریاض الانشاء اور مناظر الانشائ، سید علی طباطباء کی برہانِ مآثر(تاریخ تالیف (1591-1595)، قاضی نور اللہ کی تاریخ علی عادل شاہیہ، مرزانظا م الدین صاعدی شیرازی کی حدیقۃ السلاطین قطب شاہی(تاریخ تالیف 1626ئ)، نصرتی (المتوفی 1686ء )کا علی نامہ، اسد خان لاری کی تاریخ ہفت کرسی، شیخ ابو الحسن کی احوال سلاطین بیجاپور، ، ملا حسین کی مرغوب القلوب جیسی تاریخی کتب بھی انہی ادوار میں مدون ہورہی تھیں۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود میر محبوب علی خان اور میر عثمان علی خان کے ادوار میں جو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر عدیم النظیر ترقیات ہوئیں ان کی مثال مذکورہ بالا ادوار میں نہیں ملتیں۔یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے لیے بہمنی سلطنت کے نہایت نلائق و زیرک وزیر اعظم خواجہ عماد الدین محمود گاواں نے اپنے ذاتی صرفہ سے 1460ء بیدر شہر کے قلب میں تین منزلہ دینی و اقامتی درسگاہ یعنی مدرسہ محمود گاں کی بنیاد ڈالی تھی جو دکن کی پہلی اسلامی جامعہ تھی لیکن مرور زمانہ کے بعد آج یہ کھنڈدرات میں تبدیل ہوچکی ہے۔
یہ بانی جامعہ نظامیہؒ کی تعلیم و تربیت اور اصلاح ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کا علمی و تحقیقی ادارہ ’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ کا قیام بھی نظام سادس کے دور یعنی سن1888ء میں عمل میں آیا جس کا قدیم نام دائرہ المعارف النظامیہ تھا۔(۸) اسلامی ثقافت کے احیاء میں دائرہ المعارف العثمانیہ کا اہم کردار رہا ہے جس کا قدیم نام دائرۃ المعارف النظامیہ تھا۔ دائرۃ المعارف کے قیام کا اہم مقصد آٹھویں صدی سے چودھویں صدی تک کی نادرۂ روزگار عربی تحقیقات، تصنیفات اور مخطوطات کی تحقیق و تلاش اور ان کی طباعت و اشاعت ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ سرکاری امداد دائرۃ المعارف کے وسیع لائحہ عمل کی تکمیل کے لیے ناکافی ہوچکی تھی ۔ لہٰذا مولانا نواب فضیلت جنگ بہادرؒ نے آصف سابع کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ۔برائے معارف نوازی آصف سابع نے دائرۃ المعارف کے لیے نہ صرف یکمشت پانچ لاکھ روپے منظور فرمائے بلکہ اس کی ترقی کے لیے اس ادارہ کا تعلق حسب فرمان خسروی جامعہ عثمانیہ سے کردیا۔ عہد عثمانی کا یہ ایسا علمی کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک تاریخ میں یادگار رہے گا۔ دائرۃ المعارف نے مختلف موضوعات جیسے تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، تصوف، وظائف، منطق، فلسفہ، کلام و مناظرہ ،سیر، تاریخ، دینیات، اخلاقیات، السنہ، لغت، فنون لطیفہ، مابعد الطبیعات، طب، ریاضی، جغرافیہ، فلکیات، تذکرہ سے متعلق مخطوطات کو اندرون و بیرون ملک کے مختلف کتب خانوں سے حاصل کرکے تقریباً زائد از 800جلدوں پر مشتمل 300کتابیں شائع کی ہیں۔ اس شہرہ آفاق ادارے نے علوم اسلامیہ اور حقائق تاریخیہ کے قیمتی ذخائر کا تحفظ اور نادرو نایاب علمی، ادبی، تاریخی ،ثقافتی اور عربی علوم و فنون کے بیش بہا تصنیفات و مخطوطات اور کتب قیمہ کو تصحیح اور تعلیقات کے ساتھ طباعت سے آراستہ کرکے منصۂ شہود پر لایا ہے ملک اور بیرون ملک کے اہل علم و دانش ان کتب سے مستفید ہورہے ہیں۔علاوہ ازیں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے نظام سادس نے سن1885 ء میں عالیشان آصفیہ لائبریری یعنی اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کا قیام عمل میں لایا۔1891ء میں اس لائبریری سے استفادہ کی عوام کو اجازت دی گئی جس میں زائد از پانچ لاکھ کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ 90,000 کتب اُردو، فارسی اور عربی میں ہیں۔ اس لائبریری کے ساتھ ہی ہائی کورٹ کا قیام بھی عمل میں آیا۔
آصف سابع کے دور میں جس طرح غیر مسلم علمی و ادبی شخصیات کی مالی اعانت، مذہبی کتب کی اشاعت، تعلیمی اداروں، عبادت خانوں اور غاروں کی مرمت و حفاظت، مذہبی رسوم کے فرائض کی ادائیگی کے لیے درکار اخراجات و سہولیات کی بذریعہ فرامین رقمی منظوریاں دی جاتی تھیں۔(۹)اسی طرح آصف سابع نے اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت میں اپنی زندگی وقف کردینے والوں کی ہمیشہ فیاضی و فراخ دلی کے ساتھ سرپرستی بھی فرمائی اور مدارس کے قیام و انصرام میں بھی کافی دلچسپی لی۔ ڈاکٹر سید دائود اشرف علم و ہنر کے مربی آصف سابع کی علم دوستی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’نواب میر عثمان علی خان نے مولانا سید سلیمان ندویؒ کی درخواست پر سیرۃ النبی کی تکمیل کے لیے فرمان مورخہ 9/فبروری 1919ء کے ذریعہ پہلی بار دو سو روپے کلدار ماہوار امداد منظور کی تھی جو بیس سال کے دوران میں چند درمیانی وقفوں کے ساتھ چودہ سال تک دی گئی۔ علاوہ ازیں آصف سابع نے مولانا سید سلیمان ندویؒ کو معاشی آسودگی فراہم کرنے کی غرض سے 5/ جولائی 1938ء کے فرمان کے ذریعہ ان کی ذات کے لیے ماہانہ ایک سو روپے ماہوار جاری کرنے کے احکام صادر کیے‘‘۔(۱۰) یہی وجہ ہے کہ دکن میں علوم و فنون بالخصوص اسلامی علوم میں ایسے جید و مستند علماء پیدا ہوئے جن کی علمی عظمت آج بھی اندرون و بیرون ملک مسلّم ہے۔ آصف سادس اور آصف سابع کی علمی قدردانی اور حوصلہ افزا رویہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ مقامی اور بیرونی علماء نے اسلامی علوم کو تصنیف و تالیف، تحقیق و تدقیق اور تصحیح و تعلیق کا موضوع بنایا اور اسلامی علوم پر عربی، فارسی اور اُردو زبانوں میں بلند پایہ کتابوں کی شکل میں یادگار علمی ذخیرہ چھوڑا جو تمام لوگوں کے لیے باعث افادہ بنا۔ اس طرح دکن میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو خوب فروغ حاصل ہوا اور مملکت آصفیہ بلا لحاظ مذہب و ملت اہل علم و دانش کی قدردانی کا مرکز اور ان کی پناہ گاہ بن گئی۔ بانی جامعہ نظامیہؒ کی تعلیم و تربیت اور اصلاحی کاوشوں کے باعث حیدرآباد کو ایسے وقت تعلیم بالخصوص اسلامی علوم کے مرکز کی حیثیت حاصل ہوچکی تھی جب مسلمانوں کی شعوری کیفیت تنزل اور علمی حیثیت زبوں حالی کا شکار تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سرزمین ہند میں دکن دورِ اسلامی کی ایک سلف السنہ نامور یادگار ہے جس کے مستقل دیرپا اثرات و روایات آج بھی دکن میں پائے جاتے ہیں۔
شاید حیدرآباد دکن ہندوستان کا وہ واحد حصہ تھا جہاں قرآنی علوم کی تعلیم کا نظم انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ جامعہ قرآنیہ (۱۱) کے علاوہ مختلف محلہ جات کی مساجد میں مدارس کام کررہے تھے جہاں بچوں کو قرآنی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ درس قرآن کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری ہوتا تھا جس میں اس وقت کے مستند و معتبر علماء اعلام جیسے علامہ عبدالقدیر صدیقیؒ (1870-1962ئ) ، مولاناسید بادشاہ حسینیؒ (1899-1964ء ، سابق سکریٹری مجلس علمائے دکن) اور دیگر جید علماء کے مضامین شائع ہوتے تھے۔(۱۲) واضح باد کہ قرآنی علوم کی ترویج و اشاعت میں حیدرآباد کی خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ حیدرآباد کے عوام میں عربی ذوق و شوق بڑھانے کی غرض سے ایک سوسائٹی بنام ’’اشاعت عربی ‘‘معرض الوجود میں آئی۔ اس سوسائٹی کے تحت ہفتہ واری محافل کا اہتمام کیا جاتا تھا جس میں صرف عربی زبان میں ہی بات چیت کی جاتی تھی ۔ بڑی تعداد میں لوگ بالخصوص خواتین ان محافل میں شرکت کرتی تھیں۔ اسی سوسائٹی سے حوصلہ پاکر ایک لڑکی نے مرکز دین و دانش جامعہ نظامیہ سے کامل التفسیر کے سال اول کا امتحان کامیاب کیا۔ (۱۳) آصف سادس اور آصف سابع کے دور حکومت میں جہاں ایک طرف عالمی شہرت کے حامل ادارے یعنی مکتب آصفیہ یعنی اسٹیٹ سنٹرل لائبریری حیدرآباد(سن قیام 1885ئ) ، دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ (سن قیام 1917ء ) (۱۴) اورعثمانیہ یونیورسٹی (سن قیام 1918ئ)کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا تو دوسری جانب اسلامی دنیا کی سب سے معروف و مقبول جامعہ ’’جامعہ نظامیہ‘‘ (سن قیام1875ئ)(۱۵)اور تحقیقی ادارہ ’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ (سن قیام1888ئ) جیسے علمی مراکز کو ان دوبیدار مغز فرمانروائوں کی سرپرستی حاصل تھی جو اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔اس شاہی سرپرستی کے باعث اس دور میں اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کے میدان میں ایسے نابغہ روزگار اور باکمال افراد ابھرے جن کے علم و تقوی، عمل و کردار نے دنیا کو غرق حیرت کردیا۔ ان علمی و ادبی شخصیات نے خداداد صلاحیتوں سے وہ شاہکار تصانیف بطور علمی و تحقیقی ذخیرہ چھوڑیں جن کی عظمتوں کے نقوش تابندہ ہمیشہ روشن رہیں گے۔ ان علمی شخصیات نے تحقیق و تدقیق کے میدان میں ایسی خدمات انجام دیں جس سے عالم اسلام بالخصوص عرب کے علماء و فضلاء ان کی خوشہ چینی پر مجبور ہوئے۔ (۱۶)
حضرت بانی جامعہ نظامیہؒ کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا نتیجہ تھا کہ نظم و نسق کے قدیم دستور کے بین نقائص جو قابل ترمیم تھے ان میں اصلاحات لاکر سن 1919ء میں آصف جاہ سابع میر عثمان علی خان نے اپنے والد مرحوم کا مرتب کردہ جدید ضابطہ یعنی قانونچۂ مبارک جاری فرمایا اور شخصی حکمرانی کے طرزِ حکومت کو سلطنت منضبط سے تبدیل کیا تاکہ سلطنت آصفیہ کی رعایا آرام و طمانیت اور خوشحالی و مسرت کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ راعی و رعایائے دکن کے باہمی خوشگوار تعلقات کے اثرات کا اظہار عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء کے درمیان پائے جانے والی مذہبی رواداری سے بھی ہوتا ہے۔سال1945ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے دار الاقامہ میں مقیم طلباء نے سیرت طیبہ کے مختلف موضوعات پر تحریری مقابلہ کا انعقاد عمل میںلایا ۔ دو انعامات (یعنی مہاراجہ یمین السلطنت انعام اور محترمہ سروجنی نائڈو انعام ) یونیورسٹی کے دو غیر مسلم طلباء و طالبات کے لیے مختص رکھے گئے۔ اس تحریری مقابلہ میں طلباء بالخصوص طالبات نے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔(۱۷) اسی طرح سن 1921ء میں ایک اور فرمان کے ذریعہ انتظامی امور کو عدلیہ سے علاحدہ کردیا گیا تاکہ انصاف رسانی کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی قسم کی کوئی کمی و کوتاہی نہ ہوسکے۔
حضرت بانی جامعہ نظامیہ ؒ کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے باعث آصف جاہ سادس اور آصف جاہ سابع نہ صرف علم دوست واقع ہوئے تھے بلکہ رعایا پرور بھی تھے چنانہ ان فرمانروائوں کے دور میں ہونے والے رفاہی کاموں کی جھلک دکن کی دیگر سلطنتوں میں نہیں ملتی۔
اسلامی آداب و اخلاقیات حسنِ معاشرت کی بنیاد ہیں جس کے بغیر انسانی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے۔ اگر انسان کے کردار میں اخلاق نہ ہوں تو اس کی عبادات بھی بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ حسن معاشرت کو یقینی بنانا کے لیے ضروری ہے کہ عوام الناس کے ساتھ ساتھ حکمراں اور امراء طبقہ کو بااخلاق بنایا جائے۔ چونکہ جب حکمرانوں کا کردار مسخ ہوجاتا ہے تو معاشرے میں برائیاں پھیلنے لگتی ہیں۔ خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضیؓ (600-661ئ) کا ارشاد مبارک ہے کہ سارق کو چوری کی پاداش میں ہاتھ کاٹنے سے پہلے حکمراں کو معزول کردو چونکہ اگر وہ صحیح حکمرانی کرتا تو رعایا کو چوری کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ حضرت بانی جامعہ نظامیہؒ کی خلوص و للہیت پر مبنی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے صحیح، بہتر اور خوش کن نتائج کا ثمرہ تھا کہ آصف جاہ سادس اور آصف جاہ سابع کا کردار اخلاقی خوبیوں سے مزین ہوچکا تھا جس کا بین ثبوت تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوط بہت سارے فرامین ہیں جس میں آصف جاہ سابع میر عثمان علی خان نے اپنے محرر کو تاکید کر رکھی تھی کہ اگر کسی عرضی کو نامنظور کرنا ہے تو عرضی پیش کرنے والے کو اخلاقاً نفی میں جواب دیا جائے۔ خاندان غلامان (1206-1290ئ)، خلجی خاندان (1290-1320ئ)، تغلق خاندان (1320-1413ئ)، سید خاندان (1414-1451ئ)، لودھی خاندان(1451-1526ئ)، مغلیہ سلطنت (1526-1857ئ)، بہمنی سلطنت (1347-1527)، نظام شاہی سلطنت (1490-1636ئ) ، عماد شاہی سلطنت (1490-1572)، عادل شاہی سلطنت ( 1490-1686ئ)، بریدشاہی سلطنت (1492-1619ئ)، قطب شاہی سلطنت (1518-1687ئ) کے کسی بھی فرمانبروا کے فرمان میں ایسی اخلاق سے لبریز تحریر نہیں ملتی۔
حضرت بانی جامعہ نظامیہؒ اسلامی معاشرے تشکیل دینے ، انسانی معاشرے سے برائیوں کا قلع قمع کرنے اور اصلاح کے ہر کام عملی جامہ پہانے کے لیے اپنی زندگی میں ہمہ تن مصروف و مشغول رہے تاکہ دکن کا معاشرہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے جہاں ہر انسان امن و آمان اور سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی بسرکرتے ہوئے دنیا و عقبی کو سنوارسکے۔ حضرت بانی جامعہ نظامیہ کے قول و عمل میں کبھی کوئی تضاد نہیں پایا گیا بلکہ ایک مرتبہ آپ نے معاشی تنگی ہونے کے باوجود سرکاری ملازمت سے اس لیے استعفی دے دیا چونکہ آپ کو ایک ایسی فائل پر دستخط کرنے تھے جوخلاف شرعی امر سے متعلق تھی۔یہی وجہ ہے کہ آٖ کی اسلاح معاشرہ کی ہر کاوش بار آور ثابت ہوئی۔ جب انسان کے قول و عمل میں فرق واقع ہوجاتا ہے تو اس کی کوئی بھی اصلاحی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی تاریخ انسانی میں بہت ساری مثالیں ایسی ہیں جہاںحکماء فلسفی اور مصلحین کی اصلاحی تحریکات محض اس لیے ناکام ہوئیں چونکہ وہ دوسروں کو روشنی دکھاتے تھے لیکن خود تاریکی میں گم رہتے تھے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اقوام و ملل کے عروج و زوال میں کتابوں کا کردار بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں کتابوں اور کتب بینی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اس معاشرے سے اچھے اور قابل افراد نکلتے ہیں۔ کتابیں انسان کی بہترین دوست تصور کی جاتی ہیںکو انسان کو برائیوں سے دور اور اچھائیوں سے نزدیک کرتی ہیں۔ امت مسلمہ کو اپنے مقصد اور صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لیے شیخ الاسلام نے کئی گرانقدر کتابوں تصنیف کیں ۔ جامعہ نظامیہ کے علماء کی اصلاح اور اسلامی علوم کی ترویج کے لیے ان کو تصنیف و تالیف کی طرف مائل کرنے کا سہرا آپ ہی کے سر ہے۔آپ کی پوری زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گزری ہے۔ حضرت بانی جامعہ نظامیہؒ نے امت مسلمہ کے افکار و خیالات اور عقائد و اعمال کی اصلاح اور درستگی کے لیے فلسفہ، حکمت، اصول و عقائد، حدیث و تفسیر، قانون و فقہ، جیسے متنوع موضوعات پر متعدد کتابیں بشمول انوار احمدی، مقاصد الاسلام (گیارہ حصے)، حقیقۃ الفقہ (دو حصے)، انوار اللہ الودود، مسئلۃ الربوا، خدا کی قدرت، شمیم الانوار، بشری الکرام فی عمل المولد والقیام، انوار الحق، افادہ الافھام (دو حصے)، منتخبہ من الصحاح، (قلمی) تلخیص فتوحاتِ مکیہ (قلمی)، خلق افعال، کتاب العقل، انوار التمجید فی ادلۃ التوحید، الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع، انوار اللہ الودود فی مسئلۃ وحدۃ الوجود جیسی شاہکار تصنیفات تخلیق فرمائیںجو تاصبح قیامت انسانوں کی اصلاح کرتی رہیں گی۔ (۱۸)
مآخذ و منابع
(۱) (کامل الحدیث جامعہ نظامیہ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm) )، اسوسی ایٹ پروفیسر ہنٹری مارٹن اانسٹی ٹیوٹ ، حیدرآباد۔
(۲) سورۃ آل عمران آیت نمبر 164۔
(۳) جسٹس پیر کرم شاہ ازھری، تفسیر ضیاء القرآن، جلد اول، صفحہ 293۔
(۴) مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو محمد بن اسماعیل بخاریؒ، صحیح بخاری، حدیث نمبر 79، مسلم بن الحجاجؒ، صحیح مسلم، حدیث نمبر2282۔
(۵) سورۃ آل عمران آیت نمبر7۔
(۶) مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ابو دائودسلیمان، سنن ابی دائود، حدیث نمبر 3541۔
(۷) مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو غلام یزدانی کی بیدر اٹس ہسٹری اینڈ مانیومنٹس۔
(۸) حامد لطیف ملتانی قادری، سلطان العلوم اور اُن کی علمی خدمات، صفحہ۔ 85۔ سعید الحق عمادی نے قیام کا سال 1886ء لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ وقار الامرا نے 1886ء میں افتتاح کیا اور اُس موقع پر انہوں نے تقریر کی اور وہاں موجود تمام حاضرین سے مشرقی علوم کے تحفظ کے لیے کہا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سعید الحق عمادی، نواب عماد الملک ، حیدرآباد، 1978ئ، صفحات۔67تا104۔مزید ملاحظہ ہو مولانا مفتی محمدرکن الدین، مطلع الانوار، صفحہ۔ 67۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ کے قیام کا اہم مقصد آٹھویں صدی سے قبل کی نادرۂ روزگار عربی تحقیقات و قلمیات، تصانیف و مخطوطات کی تحقیق و تلاش اور ان کی طباعت و اشاعت ہے۔ اس عظیم ادارہ کے پہلے صدر کے طور پر نواب سروقار الملک کو منتخب کیا گیا ۔ مولانا مفتی محمود سعیدؒ، نواب محسن الملک، نواب اقبال یار جنگ اور نواب رفعت یار جنگ جیسے شہر حیدرآباد کے علما، صوفیا، زعماء اور ممتاز شخصیتوں نے اس مفید علمی ادارہ کے لیے اپنا دست تعاون دراز کیا اور دائرۃ المعارف کی سرپرستی قبول کی۔ سرسید احمد خاں(1817-1898ئ)، مولانا شبلی نعمانیؒ (1857-1914ئ)، مولانا حالیؒ( 1837-1914ئ) اور مولانا عبدالحق خیر آبادیؒ (1796-1861ئ)جیسی علمی دنیا سے تعلق رکھنے والی عہد ساز شخصیات نے دائرہ کی رکنیت قبول کرکے اس کو عزت بخشی۔مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سید ہاشم ندوی، مقالہ تحفظ العلوم قدیم، صفحات۔ 45تا46۔ نواب سروقار الامراء بہادر بحیثیت میر مجلس دائرۃ المعارف کے مقاصد اور ضرورت پر مشتمل ایک عرضداشت آصف سادس نواب میر محبوب علی خاں بہادر کے ملاحظہ کے لیے پیش کی۔ بمراحم خسروانہ آصف سادس نے اس کو منظور فرماکر سن 1308ھ مطابق 1890ء میں بذریعہ فرمان ماہانہ پانسو روپے کی امداد سے سرپرستی فرمائی اس رقم میں بعد میں اضافہ کرکے6,000 روپے ماہانہ کردیا گیا۔مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو پروفیسر محمد سلیمان صدیقی، دی دائرۃ المعارف، اسلامک کلچر، جلد۔75۔ شمارہ۔2، صفحہ ۔204، اپریل 2002ئ، سعید الحق عمادی، نواب عماد الملک، صفحہ۔ 75، سلطان العلوم اور اُن کی علمی خدمات، صفحہ۔ 85۔مرور زمانہ کے ساتھ یہ سرکاری امداد دائرۃ المعارف کے وسیع لائحہ عمل کی تکمیل کے لیے ناکافی ہوچکی تھی ۔ لہٰذا مولانا نواب فضیلت جنگ بہادرؒ نے آصف سابع کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ۔برائے معارف نوازی آصف سابع نے دائرۃ المعارف کے لیے نہ صرف یکمشت پانچ لاکھ روپے منظور فرمائے بلکہ اس کی ترقی کے لیے اس ادارہ کا تعلق حسب فرمان خسروی جامعہ عثمانیہ سے کردیا ۔مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو دی دائرۃ المعارف، اسلامک کلچر، جلد۔۷۵۔ شمارہ۔2، صفحات ۔206تا 207، اپریل 2002ئ، سلطان العلوم اور اُن کی علمی خدمات، صفحہ۔ 86۔ عہد عثمانی کا یہ ایسا علمی کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک تاریخ میں یادگار رہے گا۔ یہ ادارہ اپنی علمی و تحقیقی خدمات اور علم و معرفت کے بحرناپیدا کنار سے موتیاں نکالنے کے باوصف سارے عالم اسلام میں معروف ہے اور علمی حلقوں میںحیدرآباد دکن بلکہ ہندوستان کی پہچان ہے۔دائرۃ المعارف نے مختلف موضوعات جیسے تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، تصوف، ادعیہ، وظائف، منطق، فلسفہ، کلام و مناظرہ ،سیر، تاریخ، رجال، دینیات، اخلاقیات، السنہ، لغت، فنون لطیفہ، مابعد الطبیعات، طب، حکمیات، ریاضی، جغرافیہ، فلکیات، مرایا ، تذکرہ، سے متعلق مخطوطات کو اندرون و بیرون ملک کے مختلف کتب خانوں سے حاصل کرکے تقریباً زائد از 800 جلدوں پر مشتمل 300 کتابیں شائع کی ہیں۔ ان میں بعض اہم حسب ذیل ہیں علامہ ابن دریدؒ (837-933ئ)کی جمہرۃ اللغۃ، امام بیہقیؒ (994-1066ئ) کی سنن کبری، علامہ ابن جوزیؒ( 1116-1201ئ)کی صفۃ الصفوۃ، علامہ بدرالدین بن جماعۃؒ (1236-1333ئ)کی تذکرۃ السامع والمتکلم، کمال الدین ابو الحسن الفارسیؒ(1260-1320ئ)کی تنقیح المناظر، علامہ حافظ ابن حجرؒ (1869-1923) کی الدرر الکامنہ فی اعیان المائۃ الثامنۃ، مولانا سید عبدالحئیؒ (1869-1923ئ)کی نزہۃ الخواطر شامل ہیں۔مطبوعات دائرۃ المعارف کی نکاسی کے لیے ممبئی، سورت، لاہور، افغانستان، مکہ معظمہ، مصر، لندن اور جرمنی جیسے مختلف مقامات اور ممالک میں تاجران کتب کو ایجنٹ مقرر کیا گیا۔مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہودی دائرۃ المعارف، اسلامک کلچر، جلد۔75۔ شمارہ۔2، صفحہ ۔208، اپریل 2002ء ، خصوصی نمبر جشن عثمانی، جلد 1 صفحات۔ 195 تا 198۔
(۹) آصف سابع نے طلباء میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبہ کو فروغ دینے کے لیے جامعہ عثمانیہ میں دو وظیفوں (scholarship)کو منظوری دی ۔ ایک مسلم بچے کے لیے جو سنسکرت زبان کو بحیثیت اختیاری مضمون پڑھتا ہے۔ دوسرا غیر مسلم بچے کے لیے جو عربی زبان کو بحیثیت اختیاری مضمون پڑھتا ہے۔ ’’کلچرل ایکٹیویٹی ‘‘اسلامک کلچر، جلد۔ ۲۰، شمارہ۔۳، صفحہ۔۳۱، جولائی ۱۹۴۶۔
(۱۰) ڈاکٹر سید دائود اشرف، قدردان حیدرآباد، صفحہ۔۱۱ تا۱۲۔
(۱۱) اس جامعہ کی خدمات سے متعلق تفصیلی رپورٹ اسلامک کلچر، شمارہ ۔1،جنوری 1941ء اور شمارہ۔1، جنوری 1942ء میں شائع ہوئی ہے۔
(۱۲) ’’قرآنک ٹیچنگس‘‘اسلامک کلچر، جلد۔ 17، شمارہ۔1، صفحہ۔105،جنوری 1943ء ۔
(۱۳) ’’کلچرل ایکٹیویٹی‘‘اسلامک کلچر، جلد۔ 19، شمارہ۔3، صفحات 294تا295، جولائی 1945ئ۔
(۱۴) دار الترجمہ سے علماء اسلام کی گرانمایہ مایہ ناز تصنیفات و تالیفات بھی شائع ہوئیں جن میں محمد ابن سعد کی طبقات الکبیر، امام طبری کی تاریخ طبری، ابن حزم کی الملل والنحل قابل ذکر ہیں۔علاوہ ازیں دار الترجمہ سے قرآن مجید کا سنسکرت میں ترجمہ بھی شائع کیا گیا جس کے مترجم عربی و سنسکرت کے ماہر جناب ایچ، گنڈے رائو تھے اور ان کا شمار دارالعلوم حیدرآباد کے مایہ ناز سپوتوں میں ہوتا ہے جو آگے چل کر عثمانیہ یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔’’کلچرل ایکٹیویٹیز‘‘اسلامک کلچر، جلد۔19، شمارہ۔1، صفحات84۔86 ،جنوری 1945ء اور جلد۔22، شمارہ۔3،صفحات۔89تا90،جنوری1948ئ۔
(۱۵) اس جامعہ کا قیام سن 1292ھ مطابق 1875ء میں عمل میںآیا جو آج ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی شکل میں اسلامی تعلیمات کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جامعہ نظامیہ کے کتب خانہ میں اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ایک لاکھ کتابوں کے علاوہ عربی، فارسی، اور اُردو کے ڈھائی ہزار نایاب و نادر مخطوطات بھی محفوظ و موجود ہیں۔مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے ڈاکٹر سید دائود اشرف، حیدرآباد کی علمی فیض رسانی، صفحات، 25 و27۔یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ’’جامعہ نظامیہ‘‘ عالم باعمل اور فاضل اجل مولانا نواب فضیلت جنگؒ بہادر کی علم دوستی اور اسلامیات پرستی کی سچی یادگارہے جس سے نہ صرف حیدرآباد، ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک (بشمول سمرقند، بخارا، بدخشاں، افغانستان اور عالم عرب) کے تشنگان علم سیراب ہوتے رہے ہیں۔آپ نے حیدرآباد اور اضلاع کے صدر مقام میں اسلامی علوم کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔عقیل ہاشمی، حضرت شیخ الاسلام فضیلت جنگ، انوار نظامیہ، نومبر 1992ئ، صفحات۔ نمبرات 11تا 15 اور ملاحظہ ہو پی آر فاروقی کی کتاب اے اسٹیڈی آف جامعہ نظامیہ، صفحات۔ 14۔33۔جامعہ نظامیہ کی بقا اور ترقی میں آصف سابع کی شاہی سرپرستی کا بڑا دخل رہا ہے چونکہ آصف سابع نے تخت نشینی کے اندرون ایک سال فرمان مورخہ 26 ذی الحجہ1383ھ مطابق 4 مئی 1912ء کے ذریعے اپنے استاد محترم کے مدرسہ ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ کے لیے دو ہزارروپے ماہانہ کی امداد منظور کی۔ آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 19شوال1336ھ مطابق 28/جولائی1918ء احکام صادر کیے کہ حکومت کی جانب سے پندرہ بیس ہزار روپے کی لاگت سے مدرسہ نظامیہ کے لیے عمارت تعمیر کی جائے۔مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ڈاکٹر سید دائود اشرف ،حیدرآباد کی علمی فیض رسانی، صفحات۔28 اور 30۔ علاوہ ازیں آصف سابع نے اس جامعہ کے دار الاقامہ، جماعتوں، کتب خانہ ، دفتری عمارت کی تعمیر نو کے لیے2,25,000روپیہ منظور کیے۔ اور اس جامعہ کی تنظیم نو میں خاصی اور شخصی دلچسپی لیا کرتے تھے۔مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ’’کلچرل ایکٹیویٹیز‘‘اسلامک کلچر، جلد۔ 19، شمارہ۔4، صفحہ۔385،اکٹوبر1945۔
(۱۶) مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو پروفیسر مجید بیدار، ’’جامعہ عثمانیہ کی خدمات ، تاریخ اُردو زبان و ادب، صفحات305تا 306، ڈاکٹر عمر خالدی … ڈاکٹر معین الدین عقیل (مرتبین)، سقوطِ حیدرآباد صفحات 258تا 259، ،سپٹمبر 1998ء حیدرآباد۔
(۱۷) ’’کلچرل ایکٹیویٹیز‘‘اسلامک کلچر، جلد۔19، شمارہ۔2، صفحہ۔189،اپریل1945ء ، جلد۔16، شمارہ۔ 4،صفحہ۔452 ، اکٹوبر1942ء اور جلد۔20، شمارہ۔2، صفحہ۔192،اپریل 1946ئ۔
(۱۸) مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے ڈاکٹر محی الدین قادری زور، عہد عثمانی میں اُردو کی ترقی: گذشتہ پچیس سال سے حیدرآباد دکن میں اُردو زبان و ادب کی نشو و نما کا تذکرہ، صفحہ۔56۔
ازقلم : پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی