مکتوب نگاری یا خطوط نویسی ٬ نثری ادب کی ایک مقبول ترین صنف ہے جو زمانۂ قدیم سے رائج ہے ۔ انبیائے کرام علیہم السلام اور امراء و سلاطین کے مکاتیب کا تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے ۔ قرآن کریم ٬ سورۃ النمل میں ملکہ سبا کے نام حضرت سلیمان علیہ السلام کے مکتوبِ گرامی کا تذکرہ آیا ہے ٬ جس کے الفاظ یہ ہیں : قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَ إِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ . ملکہ سبا نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مکتوب کو ” کریم ” کہا ہے ۔ مکتوب واقعی قابلِ اکرام اور لائقِ تکریم ہوتا ہے ۔ یہ ایک مبارک ٬ شریف اور نفیس و لطیف فن ہے ٬ جس کی برکتوں سے دنیا فیضیاب ہوتی ہے ۔ علمائے امت ٬ صوفیائے کرام اور مشائخ عظام کے خطوط و مکاتیب اسی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ مکتوب نگاری ” ادبِ لطیف ” کا حصہ ہے ۔ ابلاغ و ترسیل اور افکار و خیالات کی توسیع و تبلیغ کے لیے مکتوب نگاری ایک خوب صورت پیرایۂ اظہار ہے ۔ مکتوب کے توسط سے آسان ٬ سادہ اور سنجیدہ لہجے میں اپنی بات مکتوب الیہ کی پہنچائی جاتی ہے ۔ اردو میں مکتوباتی ادب کی عمر تقریباً دو سو برس ہے ۔ اردو مکتوب نگاری کے فن اور ارتقا کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس صنف میں ہر قسم کے مضامین سموئے جا سکتے ہیں ۔ مکتوب میں زندگی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ مکتوب نگاری کا فن ملکی ٬ سیاسی اور تہذیبی احوال و آثار سے بھی پردہ اٹھاتا ہے ۔ مخدومِ جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ کے ” مکتوباتِ صدی و دو صدی ” ٬ حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی کے ” مکتوباتِ اشرفی ” اور حضرت مجدد الف ثانی کے ” مکتوباتِ ربانی ” کے مطالعے سے جہاں علوم و معارف اور حقائق و دقائق کی گتھیاں سلجھتی نظر آتی ہیں ٬ وہیں ان سے اس عہد کی تہذیب و ثقافت اور تمدنی تاریخ بھی معلوم ہوتی ہے ۔ خطوط ٬ تاریخ و تہذیب کا آئینہ خانہ ہوتے ہیں ٬ جن میں حال و مستقبل کے منصوبے ، ماضی کی کسک ، عہد و پیمان اور فکر و نظر کو اسیر کر لینے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے ۔ جذبوں کی وارفتگی اور رشتوں کی وابستگی سے لے کر تاریخی حقائق کی سنگینی اور معروضیت کی جھلکیاں اگر کسی صنف ادب میں تلاش کی جا سکتی ہیں تو وہ صرف ” مکتوب نگاری ” ہے ۔ مکتوب نگاری کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اسے نثری ادب کا حصہ مانا گیا ہے اور ” مکتوباتی ادب ” کی اصطلاح عام ہوئی ہے ۔ تاریخ ٬ تذکرہ اور ادب و سوانح وغیرہ کے لیے بہت سارے خام مواد مکتوبات سے حاصل کیے جاتے ہیں ۔ اس لیے تاریخی و تہذیبی حیثیت کے علاوہ اس کی ایک حیثیت ادبی بھی ہے ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ اس کی ادبی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
خط نگاری تو بذاتِ خود ایک بڑا فن ہے اور اس میں کامیاب وہی شخص ہو سکتا ہے جو قدرت کی طرف سے اس فن کا فیضان لے کر آیا ہو ۔ خط نگاری کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اچھی خط نگاری ایک خاص شخصی ماحول پر بھی موقوف ہے ۔ خط نگاری کے فن کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ سب سے آسان فن ہے اور اس شخص کے لیے سہل الحصول جو اس کا قصد کرے ۔ مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی آسان ترین فن نازک ترین فن بھی ہے ۔ کیوں کہ اس میں معیار تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ۔ خط نگاری ادب کے دوسرے شعبوں کے بر عکس اصلاً ادب نہیں بلکہ محض ایک ضرورتی اور افادی عمل ہے ۔ خط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول ، خاص مزاج ، خاص استعداد اور خاص فضا میسر آ جائے تو یہ ادب بن سکتی ہے ٬ مگر خط کو ادب بنانے کا کام بہت مشکل ہے ۔ یہ شیشہ گری ہے ، اس سے بھی نازک تر اور پھر آئینہ ساز ہو کر بھی کم ہی لوگ ایسے ہوں گے جو سچ مچ ایسا آئینہ ڈھال سکیں جس کے جلوے خود تقاضائے نگاہ بن جائیں ۔
( اردو مکتوب نگاری ٬ ص : 18 ٬ 19 ٬ ناشر : مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ٬ نئی دہلی )
مکتوب نہ صرف مکتوب نگار کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ٬ بلکہ مکتوب الیہ کی فکر و شخصیت کا بھی ترجمان ہوتا ہے ۔ ایک مکتوب نہ صرف یہ کہ طرفین کی راز دارانہ گفتگو اور مخلصانہ باتوں کو اجاگر کرتا ہے ٬ بلکہ مکتوب اور مکتوب الیہ کے گہرے مراسم اور وسیع تعلقات کی گِرہیں بھی کھولتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی عظیم شخصیت کے افکار و نظریات اور ان کی سیرت و سوانح کو زیادہ سچائی کے ساتھ دیکھنا ہو تو اس کے مکتوب کا مطالعہ کرو کہ اس سے متعلقہ شخصیت کے سارے خد و خال نمایاں طور پر اجاگر ہوتے دکھائی دیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ مکتوب نگاری کو ” سوانح نگاری کے بنیادی ماخذ ” میں سرِ فہرست رکھا گیا ہے ۔ عام طور پر مکتوب خبر خیریت دریافت کرنے کی غرض سے لکھا جاتا ہے ٬ لیکن علما و مشائخ کے مکتوبات علمی و دعوتی نوعیت کے ہوا کرتے ہیں ۔ زیرِ نظر مضمون میں افضل العلماء ٬ بحر العلوم حضرت علامہ مفتی افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ کے دو مکتوب کا تعارف پیش کیا جاتا ہے جو آپ نے اپنے لائق و فائق تلمیذ ٬ فرزندِ معنوی ٬ شریف العلماء ٬ صوفیِ ملت حضرت علامہ محمد ایوب شریف القادری علیہ الرحمہ کو تحریر فرمایا تھا ۔ ان خطوط سے دونوں بزرگوں کی علمی شخصیت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے ۔
بحر العلوم حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ :
آج کی اس نشست میں ہم آپ کے سامنے ایک ایسی عبقری شخصیت کا تعارف کرانا چاہتے ہیں جو دنیائے اہل سنت میں دینی علوم اور عصری فنون کے کوہِ ہمالہ تصور کی جاتی ہے یعنی افضل العلماء ٬ تاجِ الفقہاء ٬ سلطان المدرسین ٬ عمدۃ المحققین ٬ رئیس المصنفین ٬ عمدۃ الاساتذہ ٬ استاذِ تاج الشریعہ ٬ بحر العلوم حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین مونگیری علیہ الرحمۃ و الرضوان ( متوفیٰ : 1402 ھ / 1982 ء ) آپ کی ذاتِ گرامی جامعِ معقولات و منقولات تھی ۔ آپ کا شمار بیسویں صدی عیسوی کے اکابر علما و فقہا ٬ ممتاز مدرسین اور بلند پایہ مصنفین میں ہوتا ہے ۔ خلیفۂ اعلیٰ حضرت ملک العلماء حضرت علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کے بعد سر زمینِ بہار میں مروجہ علوم و فنون پر اجتہادی بصیرت رکھنے والی آپ کی تنہا ذات تھی ۔ نبیرۂ اعلیٰ حضرت علامہ ریحان رضا خان بریلوی ٬ مرشدِ گرامی حضور تاج الشریعہ ٬ خواجۂ علم و فن حضرت خواجہ مظفر حسین پورنوی ٬ حضرت علامہ بدر الدین احمد رضوی گورکھپوری ( مصنف جواہر المنطق ) ٬ مفتی غلام سرور لاہوری ( مصنف خزینۃ الاصفیاء ) ٬ امام النحو مفتی بلال احمد نوری وغیرہم جیسی مایۂ ہستیوں کے آپ استاذ تھے ۔ آپ کے علمی جاہ و جلال کے سبب اکابر علما نے آپ کو ” بحر العلوم ” کا خطاب دیا تھا ۔ آپ واقعی اس لقب کے مستحق تھے ۔ دینی و عصری علوم کی جملہ شاخوں پر آپ کو مجتہدانہ بصیرت اور محققانہ درک حاصل تھا ۔ مختلف دینی و عصری فنون پر آپ نے پچاس کے قریب کتب و رسائل تصنیف کیے ہیں ٬ جن سے آپ کی عبقریب کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مولانا شہاب الدین رضوی بہرائچی ٬ حضرت مفتی افضل حسین مونگیری کی تہہ دار علمی شخصیت ٬ تصنیفی سرگرمی اور آپ کے حلیہ و لباس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
بحر العلوم حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت جو بیک وقت علمی طبقہ میں محدث ٬ فقیہ ، متکلم ٬ محقق ، مصنف و مدقق اور عملی طبقہ میں صاحب تدبر نیز صائب الرائے مانے جاتے تھے ۔ ان کی ذات شریعت و طریقت کا سنگم تھی ۔ ان کی وہ گرامی وقار شخصیت کہ ہر ناظر اپنے سینے میں ایک نرم و گداز حصہ ضرور پاتا اور کیوں نہ پاتا کہ مفتی سید افضل حسین مونگیری کو مفتی اعظم ہند قدس سرہ سے شرفِ تلمذ و ارادت اور خلافت کا گنجِ گراں مایہ حاصل تھا ۔ میانہ قد ، گول چہرہ ، گھنی داڑھی ، آنکھوں پر موٹے فریم کا چشمہ ، اوقات درس گاہ میں سر پر عمامہ ٬ اکثر و بیشتر کتھئی رنگ کا کرتا اور سفید پاجامہ میں ملبوس علم و فن کا یہ پیکر اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود درس گاہوں میں پڑھائے جانے والے جملہ فنون پر اردو اور عربی زبان میں تحقیقاتِ انبیقہ پر مشتمل ایک سے ایک گراں قدر کتابیں ہمیں دیتے ہوئے نظر آ رہے تھے ۔
( مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفاء ٬ جلد اول ٬ ص : 198 / 199 ٬ ناشر : رضا اکیڈمی ٬ ممبئی )
” مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفا ” نامی کتاب میں آپ کی چالیس کتابوں کی فہرست پیش کی گئی ہے ۔ حضرت ملک العلماء کے بعد علمائے اہل سنت میں آپ وہ واحد فرد ہیں جن کی تصانیف میں اس قدر موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے ۔ آپ کی گراں قدر تصانیف کے نام یہ ہیں :
( 1 ) توضیح الافلاک / علمِ ہیئت ( 2 ) زبدة التوقيت / علم ہیئت و حساب ( 3 ) معیار الاوقات / علم ہیئت و حساب ( 4 ) معيار التقويم / علم ہیئت و حساب ( 5 ) البراهين الهندسيۃ على مقادير الخطوط العشرۃ / علم ہیئت و حساب ( 6 ) مساحة الدائرة و البير / علم ہیئت و حساب ( 7 ) گھڑیاں اور ان کے اوقات کی کہانی / علم ہیئت و حساب ( 8 ) مصباح السلم شرح سلم العلوم / منطق ( 9 ) مفتاح التهذيب / منطق ( 10 ) معين اللبيب فی حل شرح التهذيب / منطق ( 11 ) تعليقات على القطبی / منطق ( 12 ) السعى المشكور في بحث الشك المشهور ( 13 ) بداية المنطق / منطق ( 14 ) بداية الحكمة / حکمت و فلسفہ ( 15 ) التوضيح المنير في مبحث الثناة بالتكرير / حکمت و فلسفہ ( 16 ) توضیح الحجة الاولىٰ من شرح الشیرازی / حکمت و فلسفہ ( 17 ) بداية الصرف / علم الصرف ( 19 ) تکمیل الصرف / علم الصرف ( 19 ) بداية النحو / علم النحو ( 20 ) ………. ( 21 ) التوضيح المقبول فی الحاصل و المحصول / علم النحو ( 22 ) البيان السامی فی شرح دیباجة الجامی / علم النحو ( 23 ) الكفاية فی مبحث غير المنصرف من الهدايه / علم النحو ( 24 ) ترجمه عبد الرسول شرح مائة عامل منظوم / علم النحو ( 25 ) القول الاسلم فی مبحث الحسن و القبح من المسلّم / اصولِ فقہ ( 26 ) مرقاة الفرائض / علم الفقہ ( 27 ) عمدة الفرائض / علم الفقہ ( 28 ) وصیت کے مسائلِ عسیرہ کا حل بطریقِ جبر و مقابلہ / علم الفقہ ( 29 ) رویتِ ہلال / علم الفقہ ( 30 ) حج پاسپورٹ میں فوٹو کا شرعی حکم / علم الفقہ ( 31 ) عید میلاد اور چراغاں / علم الفقہ ( 32 ) منظر الفتاویٰ / علم فقہ و افتا ( 33 ) ردّ خلافتِ یزید ( 34 ) زبدة القواعد / فارسی اصول و قواعد ( 35 ) مصباح المنطق / منطق ( 36 ) الجواهر الصافيہ من فوائد الكافيہ / علم النحو ( 37 ) وقاية النحو فی ہدايہ النحو / حاشیہ ہدایۃ النحو ( 38 ) میزان الدائر و البیر ( 39 ) منار التوقيت / علمِ توقیت ( 40 ) هداية التقويم ۔
( مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفا ٬ جلد اول ٬ ص : 195 / 196 ٬ ناشر : رضا اکیڈمی ٬ ممبئی )
شریف العلماء حضرت مولانا محمد ایوب شریف القادری علیہ الرحمہ :
مشرقی اتر پردیش کی مایۂ ناز علمی و روحانی شخصیت ٬ صوفیِ ملت ٬ مفسرِ قرآن ٬ شریف العلماء حضرت مولانا محمد ایوب شریف القادری علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : جمادیٰ الاولیٰ 1424 ھ / جون 2005 ء ) کا شمار اپنے وقت کے ممتاز علما و مشائخ اور حضرت مفتی افضل حسین مونگیری کے نامور تلامذہ میں ہوتا ہے ۔ آپ علم و عمل اور اخلاق و اخلاص کے پیکرِ جمیل تھے ۔ آپ کے علمی جاہ و جلال کے لیے یہی امر کافی ہے کہ آپ بحر العلوم مفتی سید افضل حسین مونگیری کے خرمنِ علم و حکمت کے خوشہ چیں اور میخانۂ مفتیِ اعظم ہند کے بادہ کش تھے ۔ علم و فن اور تصوف و روحانیت میں آپ کو کمال حاصل تھا ۔ آپ کی پوری زندگی درس و تدریس ٬ تصنیف و تالیف ٬ رشد و ہدایت اور وعظ و تبلیغ میں گذری ۔ اپنے استاذ کی طرح آپ بھی درسِ نظامی کے مروجہ فنون کی تدریس پر پوری قدرت رکھتے تھے اور تصنیف و تالیف کے میدان میں انفرادی مقام کے حامل تھے ۔ آپ کی اصلاحی کوششوں اور دعوتی مساعی سے سینکڑوں افراد کو رشد و ہدایت کی دولت نصیب ہوئی ۔ صرف جسمانی اولاد ہی اپنے والد کے جانشیں نہیں ہوتی ٬ بلکہ روحانی اولاد ( تلامذہ ) بھی اپنے روحانی باپ ( استاذ ) کے علمی و روحانی جانشیں ہوتی ہے ۔ راقم الحروف کے نزدیک ” الولد سر لابیہ ” کے مصداق میں معنوی فرزند بھی شامل ہیں ۔ حضرت شریف العلماء قدس سرہ کے اندر اپنے استاذ کی بہت ساری علمی و روحانی خصوصیات پائی جاتی تھیں ۔ آپ کو اپنے استاذِ گرامی کا خصوصی قرب حاصل رہا اور ان کے علم و روحانیت سے وافر حصہ ملا ۔
حضرت شریف العلماء شہزادۂ بحر العلوم کی نظر میں :
بحر العلوم حضرت مفتی افضل حسین مونگیری کے فرزندِ گرامی جناب سید محمد عقیل رضا دام ظلہ ( مقیم پاکستان ) کے فضل و کمال کا اعتراف کرتے ہوئے اور استاذ و شاگرد کے اس مضبوط روحانی رشتوں کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں :
مفسرِ قرآن ، جامعِ علوم و فنون ، صاحب الارشاد و الفضيلۃ ، شریف العلماء ، حضرت علامہ شاہ محمد ایوب شریف القادری قدس سرہ ( پپرا کنگ ، ضلع کشی نگر ٬ یوپی ) اہل سنت و جماعت کی ایک نامور علمی و روحانیت شخصیت تھی جن پر بجا طور پر دنیائے علم و روحانیت کو ناز ہے ۔ ان کی متنوع الجہات شخصیت کے بہت سے گوشے ابھی پردۂ خفا میں ہے ۔ آپ کی شخصیت کا درخشاں پہلو یہ ہے کہ آپ علم و فن اور تصوف و روحانیت ہر میدان کے شہسوار تھے ۔ آپ کا دل صوفی تھا اور زبان عالم ۔ عقیدے میں تصلب اور کردار و عمل کی پاکیزگی آپ کی شخصیت کے روشن پہلو تھے ۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ دعوت و تبلیغ اور ادارہ سازی سے غیر معمولی لگاؤ تھا ۔ وابستگان اور اہلِ عقیدت کی دینی و روحانی تربیت ٬ مسلک اعلی حضرت کے فروغ سے سچی لگن اور گہری وابستگی تھی ۔ اس کے علاوہ علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت ، تصنیف و تالیف اور وعظ و خطابت سے خصوصی دلچسپی تھی جس کے نتیجے میں آپ نے ان جہات میں بہت فعال اور قائدانہ کردار انجام دیا ۔ یہ جان کر بہت خوشی حاصل ہوئی کہ آپ کے مفصل حالات طیبات ، معمولات و مشاغل ، پاکیزه اخلاق و کردار ، مرشدانہ زندگی اور فعال خدمات و اثرات پر آپ کے جانشین محبوب العلماء و المشائخ حضرت مولانا حافظ و قاری شاه محمد سبطین رضا قادری ایوبی حفظہ الله کی سرپرستی میں بہت ضخیم اور مبسوط کتاب کی اشاعت کی تیاری چل رہی ہے ۔ اللہ کریم ان کے حوصلوں میں مزید توانائی عطا فرمائے اور اس اہم کام کو جلد تکمیلِ اشاعت تک پہنچائے ۔ شریف العلماء قدس سرہ کی شخصیت سے اس فقیرِ بے بضاعت کی شناسائی کا مستحکم حوالہ یہ ہے کہ آپ میرے والد گرامی بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین مونگیری ثم سکھر پاکستان کے ارشد و اعز تلانذہ میں تھے ۔ جب والد گرامی مدرسہ اہل سنت منظر اسلام بریلی شریف میں شیخ الحدیث و صدر مفتی کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے ، حضرت شریف العلماء آپ سے تحصیل علم کے لیے بریلی شریف میں مقیم رہے اور جب کسی ضرورت کی وجہ سے منظر اسلام بریلی شریف سے مستعفی ہوکر والد ماجد قدس سرہ پاکستان تشریف لے آئے تو آپ کے ساتھ آپ کے یہ تلمیذ رشید بھی حصولِ علم کی غرض سے پاکستان حاضر ہو گئے اور پھر پاکستان ہی میں رہ کر علوم و فنون کی تکمیل کر کے ہندوستان واپس ہوئے ۔
حضرت شریف العلماء قدس سرہ اور والدِ گرامی قدس سرہ کے درمیان جو استاذ اور شاگرد کا رشتہ تھا ٬ وہ بہت ہی مثالی تھا ٬ جس کا بخوبی اندازہ ان خطوط کے مطالعے سے لگایا جا سکتا ہے جو حضرت والد ماجد قدس سرہ نے حضرت شریف العلماء کے نام تحریر فرمائے ہیں ۔ ساتھ ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت شریف العلماء کی علمی شخصیت کی تعمیر میں حضرت والد ماجد قدس سرہ کا کس قدر کلیدی کردار ہے ۔ اس پدرانہ شفقت اور مربیانہ سلوک کا ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت شریف العلماء قدس سرہ ، والد ماجد قدس سرہ کے ہمراہ حصول تعلیم کی غرض سے پاکستان حاضر ہوئے ٬ پھر پوری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی بھارت لوٹے ۔ آپ کی علمی شخصیت کی تعمیر میں والد ماجد قدس سرہ کے خصوصی کردار کے مطالعے کے لیے اس پہلو کا اظہار بھی ضروری ہے کہ حضرت شریف العلماء قدس سرہ کی خواہش پر ” خطبۂ شرح جامی ” اور خطبۂ کنز الدقائق ” کے معانی و مفاہیم پر مشتمل شرح بھی والد ماجد قدس سرہ نے تحریر فرمائی ، جس کا قلمی نسخہ حضرت شریف العلماء کے جانشین حضرت شاہ محمد سبطین رضا قادری ایوبی کے پاس محفوظ ہیں ۔ اسی طرح بہت سے خطوط ان کے پاس محفوظ ہیں ۔ یہ سارے قلمی نوادرات انہوں نے مجھے برقی رابطے کے ذریعے بھیجے ۔ حضرت والد ماجد قدس سرہ کے ان نایاب نگارشات کی حفاظت پر میں ان کو صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں …….. حضرت شريف العلماء قدس سرہ کی علمی شخصیت کی تعمیر میں والد ماجد قدس سرہ نے کس قدر خصوصی تربیت کا مظاہرہ کیا تھا ٬ اس کے صحیح اندازے کے لیے اس حقیقت کا انکشاف بھی ضروری ہے کہ حضرت شریف العلماء قدس سرہ نے اپنے عہدِ طالب علمی ہی میں علم نحو کی مشہور درسی کتاب ” ہدایت النحو ” کی اردو زبان میں ایک قابل قدر شرح بھی ۱۹۷۰ ء میں تحریر فرمائی ٬ جو ابھی چند سالوں قبل ” مجلس ایوبی” ٬ کشی نگر ( بھارت ) سے شائع ہو چکی ہے ۔ المختصر یہ کہ حضرت شریف العلماء کی شخصیت کی تعمیر میں والد ماجد قدس سرہ کا بہت خصوصی کردار ہے اور آپ کی خصوصی تربیت نے آپ کو تربیت کے اوجِ کمال پر پہنچا دیا تھا ٬ جس کے نتیجے میں انہوں نے اشاعتِ اسلام و سنیت میں جو غیر معمولی خدمات انجام دیں ٬ وہ اہل سنت کی جماعتی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔
( مکتوب بنام شہزادۂ حضور شریف العلماء ٬ تاریخ : ۷ / جنوری 2023 ء )
مکتوبِ افضل العلماء بنام شریف العلماء :
( 1 ) عزیزم مولوی ایوب سلمہ ٬ زادكم الله علما و فهما
چند سوالات پر مشتمل ایک لفافہ موصول ہوا ٬ جسے غالباً آج آٹھواں دن ہوئے ہوں گے ٬ لیکن کثرت کار کے سبب جواب نہیں لکھ سکا ۔ آج جمعرات کو رات کے وقت نو بجے کے بعد جواب لکھنے بیٹھا ہوں ۔ نہیں معلوم کب مکمل ہو ۔ امسال میرے ذمہ حسبِ ذیل اسباق ہیں : بخاری شریف ٬ مسلم شریف ، ابوداؤد شریف ، ملا جلال ، ملا حسن ، توضیح و تلویح کل چھ اسباق ٬ لیکن بخاری کا سبق دو گھنٹی ہوتا ہے ٬ اس لیے میری ساتوں گھنٹیاں مشغول ہیں ۔
اوجھڑی جس کو عربی میں ” کَرِش ” اور آنتین جس کو عربی میں ” امعاء ” کہتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے ناجائز قرار دیا ہے ۔ اس مسئلہ پر ان کا ایک مستقل رسالہ ہے جو ابھی تک چھپا نہیں ہے ۔ اس رسالہ کا نام یہ ہے ” الملح المليحه فی اجزاء الذبيحة ” ۔
( 2 ) عزیزم مولوی محمد ایوب سلمہ ربہ
رمضان کے آخری عشرہ میں غالباً ایک کارڈ میں نے تم کو لکھا ہے جس کا یہ مضمون تھا کہ دو تین دن تک مجھے کچھ کام ہے ۔ اس سے فارغ ہو کر تمہاری خواہش کے مطابق شرح جامی کے خطبہ کی شرح لکھ دوں گا ٬ لیکن دو تین دن کے بعد دوسرا کام بھی سر پر آ گیا ۔ غرض انتہائی دشواریوں اور بے حد مصروفیات میں میں نے لکھنا شروع کیا اور اکثر سحری کے بعد بھی لکھا ٬ لیکن رمضان میں مکمل نہ ہو سکا ۔ بہر حال جب بھی ہوا اور جیسا بھی ہوا ٬ بھیج رہا ہوں ۔ ملنے پر مطلع کروگے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سال گزشتہ میں نے تم کو کچھ ہدایات لکھی تھیں ۔ کیا وہ ہدایات تمہارے پاس محفوظ ہیں اور کیا تم ان پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو ۔ اگر تمہارے پاس وہ محفوظ ہیں اور تم ان پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو ان ہدایات کی نقل مجھے بھیجو تو میں سمجھوں کہ ہاں تم ان پر عمل کا واقعی ارادہ رکھتے ہو ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ایک سوال بھیج رہا ہوں ٬ جس کا جواب صرف دو جگہ سے ابھی حاصل کرنا ہے ۔ ایک لاہور سے اور دوسرے بندیال شریف سے ۔ دونوں جگہ کا پتہ سوال کے نیچے لکھ دیا ہے …….
( شریف العلماء کے احوال و آثار ٬ ص : 21 / 22 ٬ ناشر : مکتبہ ایوبیہ ٬ خانقاہ قادریہ ایوبیہ ٬ پپرا کنگ ٬ کشی نگر )
مذکورہ بالا مکتوب سے جہاں حضرت بحر العلوم کی تدریسی مشغولیات ٬ اپنے عزیز تلامذہ کی شرعی رہنمائی اور ان کی حسنِ تربیت کا اندازہ ہوتا ہے ٬ وہیں آپ کے نزدیک حضرت شریف العلماء کی قربت و محبوبیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کس طرح اپنے اس ہونہار اور لائق و فائق شاگرد کو اپنی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل در آمد کی تلقین فرما رہے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت شریف العلماء ٬ حضرت بحر العلوم کے اعز و ارشد تلامذہ میں سے تھے ۔ تعلیم کے ساتھ آپ نے ان کی عمدہ تربیت بھی فرمائی تھی اور دنیا و عقبیٰ کی کامیابی و کامرانی سے متعلق بیش قیمت ہدایات و نصائح بھی کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر اپنے مایۂ ناز استاذ کی علمی و روحانی خُو بُو پائی جاتی تھی ۔ ان مکتوبات سے حضرت بحر العلوم کی بارگاہ میں حضرت شریف العلماء کی قدر و منزلت کا واضح ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ دنیائے علم و ادب پر حضرت شریف العلماء کا یہ بھی ایک بڑا احسان ہے کہ ان کی خواہش و فرمائش پر حضرت بحر العلوم نے ” خطبۂ شرحِ جامی ” اور ” خطبۂ کنز الدقائق ” کا ترجمہ و ترکیب سپردِ قلم فرمایا ۔ ترجمۂ خطبۂ شرح جامی اور موضوع سے متعلق آپ کے بیان کردہ بیش قیمت علمی افادات کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
کافیہ کی عبارت الفعل ” ما دل علیٰ معنیً فی نفسہ ” میں لفظ ” معنیً ” پر تنوین ہے ۔ اس لیے کہ مانعِ تنوین کوئی نہیں ہے ۔ جس طرح کہ آیتِ کریمہ : أ لَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوَىً لِلْكَافِرِينَ میں ” مثویً ” پر تنوین ہے ۔ اسی طرح پہلے پارہ میں ” هُدَى لِلْمُتَّقِينَ ” میں ” ھدیً ” پر تنوین ہے ۔ شاید کسی کو یہ خیال گزرا ہو کہ ” حُبلیٰ ” پر تنوین نہیں آتی تو اسی طرح ” معنیً ” پر بھی تنوین نہیں آئے گی ٬ لیکن یہ خیال غلط ہے ۔ اس لیے کہ ” حُبلیٰ ” کے آخر میں الف مقصورہ زائدہ ہے جو علامت تانیث ہے ۔ اس لیے حُبلیٰ غیر منصرف ہے اور اس پر تنوین ممنوع ہے اور ” معنیً ” کے آخر میں الف مقصورہ تو ہے لیکن زائدہ نہیں ہے ٬ بلکہ لام کلمہ ہے ۔ اس لیے ” معنی ” کے آخر میں الف مقصوره علامت تانیث نہیں ۔ لہٰذا یہ غیر منصرف نہیں ہے اور اس پر تنوین ہے ۔ جس طرح کہ اوپر کی آیتوں میں ” مثویً ” اور ” ھدیً ” پر تنوین ہے ۔
” معنیً ” پر جب الف لام ہو یا وہ کسی کی طرف مضاف ہو تو اس پر تنوین نہیں آئے گی اور الف کے ساتھ پڑھا جائے گا ۔ جس طرح کہ آیتِ کریمہ : اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَتِ وَ الْهُدَىٰ میں ” الھدیٰ ” اور آیتِ کریمہ ” لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ ” میں ” ھداھم ” کو الف کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔ یوں ہی جب وقف کیا جائے تو وقف کی حالت میں تنوین نہیں ہوگی ۔ چنانچہ وقف کی حالت میں ” عصا ” بولتے ہیں تنوین کے بغیر ۔ فضولِ اکبریہ میں وقف کے بیان میں ہے : وقف عصیٰ رجیٰ بر الف آید الخ اور الف پر حرکت ممتنع ہے ۔ اس لیے تنوین مہجور ممتنع ہے ۔ اور جب نہ الف لام ہو اور نہ وہ مضاف ہو ٬ نہ ہی اس پر وقف ہو تو تنوین ہوگی اور الف مقصوره پڑھا جائے گا ۔ جیسے عصاً ۔
( مرجعِ سابق ٬ ص : 24 )
مذکورہ اقباس سے بحر العلوم حضرت علامہ مفتی افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ کی اجتہادی بصیرت ٬ ژرف نگاہی اور دقتِ نظری کا پتہ چلتا ہے ۔ اساتذہ و طلبہ کو خطبۂ شرحِ جامی کا یہ ترجمہ اور موضوع سے متعلق اس کے گراں قدر علمی نکات و ابحاث کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ حضرت شریف العلماء اور آپ صاحب زادۂ گرامی حضرت مولانا حافظ و قاری محمد سبطین رضا قادری ایوبی حفظہ اللہ الباری نے اس بیش بہا علمی خزانے کی حفاظت فرمائی اور اسے شائع کر کے احیائے علمی کا فریضہ انجام دیا ۔ بزرگوں کا علمی و قلمی سرمایہ بڑا قیمتی ہوتا ہے ٬ اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ الحمد للہ ! گذشتہ کئی سالوں سے حضرت شریف العلماء علیہ الرحمہ کے صاحب زادے اپنے پدرِ بزرگوار کی نیابت کا حق ادا کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ اور دین و سنیت کی گراں قدر خدمات انجام دینے کے علاوہ طباعتی و اشاعتی کارنامے بھی انجام دے رہے ہیں ۔ اللہ رب العزت آپ کو شاد و آباد رکھے اور زیادہ سے زیادہ دینی و علمی خدمات انجام دینے کی توفیق بخشے آمین !
ازقلم: طفیل احمد مصباحی