زبان و ادب

اس دور ترقی میں کہیں بھول نہ جائیں

ازقلم: محمد تصور رضا نظامی
دارالعوام حسینیہ گورکھپور

کسی چیز کو پانے کیلئے یا کھونے کیلئے اگر کوئی واحد وجہ ہے تو وہ ہے توجہ اور غیر توجہی
اگر ہم کسی چیز کو پانا چاہتے ہیں تو اپنی ساری محنت و لگن اور توجہ اس چیز کی طرف مبذول کر دیتے ہیں
بر خلاف اس کے کہ ہم کسی چیز کو کھونا چاہتے ہیں تو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نظر انداز کر کے آگے نکل جاتے ہیں آج اس دور میں اگر کوئی چیز زیر نظر ہے وہ ہے اردو زبان
اردو کی پیدائش کے بارے میں چند باتیں مسلَّم ہیں اور ان پر کوئی بحث نہیں
پہلی بات یہ کی زبان کسی کی ذاتی میراث نہیں ہوتی وہ سارے مذاہب کیلئے ہوتی ہے اردو زبان  مسلمانوں اور ہندؤں کے باہمی میل جول سے پیدا ہوئی
وہ مسلمانوں کی قومی یا مذہبی زبان نہ تھی
دوسری بات یہ کہ اردو نام نے مسلمانوں کے لشکر میں جنم لیا اور اسی لشکر سے اس مخلوط زبان کی اشاعت ہوئی ترکی زبان میں اردو لشکر کو کہتے
تیسری مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی داغ بیل اسی وقت سے پڑی جب کی مسلمانوں کی آمد و رفت ہندوستان میں شروع ہوئی یہ مخلوط زبان جسے مختلف زبانوں کا معجون مرکب کہنا غلط نہ ہوگا رفتہ رفتہ ترقی کرتی گئی اور پھر آخر کار اس صورت میں آگئی کہ دنیا کی اعلی ترین زبانوں سے نظر ملا سکے یہ مخلوط زبان علاؤالدین کے ظفریاب لشکر کے ساتھ گجرات اور دکھن میں بھی پہنچی اور اس طرح قدیم دکھنی اردو کی بنیاد پڑی
اردو کی سب سے پہلی تصنیف امیر خسرو ( ۱۲۵۵ تا ۱۳۲۵ ) کی ( خالق باری ) کو بتایا جاتا ہے
مگر اب محققین کی رائے یہ ہے کہ خواجہ سید اشرف جہانگیر نے جو رسالہ ( ۱۲۰۸ عیسوی ) میں اخلاق و تصوف پر لکھا تھا وہ اردو کی پہلی تصنیف ہے اس کے بعد اردو کی قدیم ترین تصانیف زیادہ تر دکھنی اردو میں ملتی ہے
لیکن آج کی اس ترقی یافتہ دور میں لوگ اردو جو قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے اسے نظر انداز کر کے انگریزی اور دیگر زبانوں کی طرف اپنی ساری کاوشیں مبذول کر دیئے ہیں اور یہ کہنا بھی قطعا غلط نہ ہوگا کہ خود اردو والے بھی اپنی زبان کی طرف سے غافل ہوچکے ہیں
موقع بموقع جلسے ضرور ہوتے ہیں جس میں اردو کے حالات زار پر اظہار تشویش کیا جاتا ہے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے اردو کو اس کا حق دینے کا مطالبہ بھی بڑے جوش و خروش سے کیا جاتا ہے جہاں جہاں علم و ادب کو ترقی دینے والی انجمن قائم ہیں ان کو بھی فرائض یاد دلائے جاتے ہیں اور اردو کو حیات نو عطا کرنے کے لیے عمدہ اور مفید تجاویز پیش کی جاتی ہے لیکن ہمدردان اردو جلسہ گاہ سے نکلنے کے بعد تمام تجاویز کو سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں اور اس کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کرتے گویا کی بے چاری اردو زبان غیروں کے تعصب اور تنگ نظری اور اپنوں کی غفلت و سرد مہری دونوں کا شکار ہے
فی الوقت اردو اگر زندہ ہے اور اس میں جو کچھ آب و تاب پائی جاتی ہے تو وہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے عربی و فارسی مدارس و مکاتب اسلامیہ کی مرہون منت ہے یا مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں کالجوں میں کسی حد تک اردو کا چراغ جلائے ہوئے ہیں نیز اخبارات و رسائل بھی اردو کو زندہ رکھنے میں شریک و سہیم ہے موجودہ حالات کسی بھی مسلمان پر مخفی نہیں ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جب دشمنان اردو اس کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں
تو فروغ اردو کے لیے سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور عملی اقتدامات کی ضرورت ہے
کسی بھی زبان کو جب تک روزگار کے مواقع سے نہیں جوڑا جائے گا تب تک اس زبان کو صحیح معنوں میں ترقی نہیں دی جا سکتی روزگار کے مواقع سے مراد دراصل عام تعلیم یافتہ افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ لوگ اس زبان کی تعلیم و تعلم کی طرف راغب ہوں اور اس طرح یہ زبان فروغ و ارتقاء کی شاہراہ پر گامزن ہو

چند مفید تجاویز
۱ محلہ جاتی سطح پر اس کے لیے باضابطہ یہاں مہم چلائی جائے کہ عوام اردو اخبارات و رسائل اور کتابیں مانگ کر پڑھنے کے بجائے خرید کر پڑھیں
انھیں یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ آپ اردو اخبارات و رسائل اور کتابیں نہیں خریدیں گے تو کیا غیر مسلم خریدیں گے ؟
یار جب آپ نہیں خریدیں گے تو اردو زبان فروغ کیسے پائے گی
آج آپ دیکھیں کہ ہر جگہ بس اڈا ہو یا ریلوے اسٹیشن ہندی و انگلش اخبارات آسانی سے مہیا ہو جاتے ہیں لیکن اردو شاذ و نادر ہی ایسی جگہ ہوگی جہاں آسانی سے مل سکے

۲ اس امر کے لیے بھی مہم چلائی جائے کہ لوگ اپنے بچوں کو دیگر مضامین پڑھانے کے ساتھ اردو بھی پڑھائیں اگر اسکولوں میں اس کا نظم نہ ہو تو کسی اردو داں کو معاوضہ دے کر با ضابطہ ایک گھنٹے کے لیے بلائے اور گھر ہی پر تعلیم دلوائیں

۳ اس امر کے لیے بھی مہم چلائی جائے کہ لوگ اپنی دکانوں، کارخانوں اور دفتروں غیرہ کے سائن بورڈ پر انگریزی ہندی کے ساتھ اردو کو بھی جگہ دیں بلکہ اردو کو اولیں مقام دیں تاکہ دیگر برادر وطن کو اس کی اہمیت و عظمت حاصل ہو

۴ مذہبی اور غیر مذہبی مختلف قسم کی عوامی پروگرام کے پوسٹر اور بینر وغیرہ میں نیز شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے دعوت ناموں میں بھی اردو کو نمایاں مقام دیا جائے
جس دعوت نامہ پر اردو نہ ہو اس کے داعی کو سمجھایا جائے کہ بھائی اردو ہماری مادری زبان ہے ہماری تہذیب ہے اس کو آپ نے دعوت نامہ میں کیوں نہ جگہ دی ؟
اس بار تو میں آپ کی شرکت کو قبول کر رہا ہوں لیکن آئندہ یہی صورتحال نظر آئی تو ہرگز قبول نہ کروں گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے