سخن آموز : فرید عالم اشرفی فریدی
نور سے دل جگمگائے مصطفٰی
رخ سے گر پردہ اٹھائے مصطفٰی
حشر میں جنت دلائے مصطفٰی
نار سے ہم کو بچائے مصطفٰی
روح جب تن سے جدا ہو اس گھڑی
ہو زباں پر بس ثنائے مصطفیٰ
عشق سرور گر نہیں دل میں ترے
غیر ممکن ہے ثنائے مصطفٰی
اپنی امت کے لئے صبح و مسا
آنسو دنیا میں بہائے مصطفٰی
تیری امت ہے پریشاں دہر میں
بارشِ رحمت ہو جائے مصطفٰی
مرحبا کی گونچ اُٹھّی ہر طرف
دہر میں جس وقت آئے مصطفٰی
ہے فریدی کی تمنا بس اتنی سی
آپ کا در چوم آئے مصطفٰی