حضرت رافعی رضی اللہ عنہ نے اسناد کے ساتھ روایت کیا ہیں کہ ایک ایسی لڑکی جس کا نام فاطمہ الحدادیہ ہے وہ کبڑا پیدا ہوئی تھی اور جب بڑی ہوئی اور چلنے کی قریب ہوئی تو اچانک لنگڑی ہوگئ پھر اس کے سارے بال بیماری کی وجہ سے جھر گئے ، ایک دن حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ قبیلہ حدادیہ میں تشریف لائے تو اہل محلہ اور عرجاء فاطمہ عورتوں کے ساتھ ان کے استقبال کئے اور لڑکیاں ان پر ہنس رہی تھیں تو جب عرجاء فاطمہ سیدی احمد رفاعی کے پاس آئی تو اس نے کہا آپ میرے اور میری والدہ ماجدہ کے شیخ و مرشد ہیں اس لیے میں آپ سے ان مصائب و آلام کی شکایت کرتی ہو جس سے میں دوچار ہوں ، ممکن ہے اللہ تعالیٰ آپ کی ولایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی قرابت کی برکت سے مجھے عافیت بخشے۔کیونکہ میرے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا حدادیہ کی لڑکیوں کے مذاق اڑانے کی وجہ سے تو حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے ان پر شفقت فرمائی اور روپڑے اور اس سے فرمائے کہ میرے قریب آؤ تو وہ ان کے قریب ہوئی تو شیخ نے اس کے سر ،پیٹ اور پیروں پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بال اگ آئے اور کبڑا پن ختم ہوگیا اور اور اس کے پیر سیدھے ہوگئے اور اس کی حالت اچھی ہوگئی اسے وجہ سے امام احمد رفاعی رضی اللہ عنہ کو شیخ العرجاء یا ابو العرجاء کہا جانے لگا۔
روى الرافعي بالإسناد أن بنتا تسمى فاطمة الحدادية ولدت حدباء ولما كبرت وءان أوان مشيها فإذا بها عرجاء ثم سقط شعر رأسها لعاهة ، ففي يوم من الأيام حضر السيد أحمد الرفاعي رضي الله تعالى عنه الحدادية فاستقبله أهلها والعرجاء فاطمة بين الناس مع النساء والبنات يستهزئن بها
، فلما أقبلت على سيدنا أحمد قالت : أي سيدي أحمد انت شيخي وشيخ والدتي وذخري أشكو إليك ما أنا فيه لعل الله ببركة ولايتك وقرابتك من رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يعافيني مما أنا فيه فقد زهقت روحي من استهزاء بنات الحدادية ، فأخذته الشفقة عليها وبكى وقال لها : ادني مني . فدنت منه فمسح على رأسها وظهرها ورجليها فنبت بإذن الله شعرها وذهب احديدابها وتقومت رجلاها وحسن حالها ولذلك سمي الإمام أحمد الرفاعي رضي الله تعالى عنه بشيخ العرجاء او أبي العرجاء .
( من كتاب الفيوضات المحمدية على الطريقة الرفاعية لفضيلة الشيخ فواز الطباع الحسني حفظه الله تعالى)