نظم

نظم: خوفناک لہر

ازقلم: شیبا کوثر
برہ بترہ آرہ (بہار) انڈیا

ساحل پر کھڑا کوئی ملاح
آندھیوں کے تھمنے کے انتظار میں
کھڑا ہے کب سے
دعا مانگ رہا ہے رب سے
یہ آندھی ہے یا ہے کوئی عذاب الہی
آندھی تو ضروری ہے
یہ تو بارش کا پیش خیمہ ہے
جس کا انتظار دہقان
کرتے ہیں روز و شب
سمندر سے اگر نا اٹھے یہ آندھیا ں
ہو جائیں گی برباد سبھی کھیتیاں
مگر شاید یہ آندھی وہ آندھی نہیں
یہ تو بربادی کا ہے پیش خیمہ ہے
لہر یں اٹھ رہی ہیں بے قابو
ساحل سے دور نکلتی جا رہی ہیں
فصلوں کو یہ روند تی جا رہی ہیں
روکنا ضروری ہے ان لہر وں کو
ورنہ کھو جائے گا ہر اک خواب
اور نہ ہوگا تاریخ میں
تمہارا کوئی بھی باب
یا الہی یہی دعا ہے میری
کہ بس زور کم ہو جائے
ان آندھیوں کا
اب لہریں کوئی بھی نہیں اٹھیں
سمندر سے خوفناک
زمین سیر اب ہو ،نئے پود ھے اُ گیں
اور پھر سے سمندر میں
باد بان لے کر نکل پڑ وں۔۔۔!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے