نتیجۂ فکر: محمد شعیب اختر قادری
جب قلم اٹھے شہاآپ کی مدحت کے لیے
ساتھ اشعار ہوں کچھ آپ کی حرمت کے لیے
دیکھ “مَن سَبَّا نَبِیَّاً” سے اے گستاخ نبی
“فَاقتُلُو” ہے وہیں بس تیری مرمت کے لیے
قوم مسلم کو ضرورت ہے عطا کر دے ،خدا
کوئی فاروق سا پھر آۓ قیادت کے لیے
خانقاہوں سے نکلنا ہی پڑے گا صاحب
خودکی خاطر نہیں، آقا کی شریعت کے لیے
سارے عشاق شہنشاہ مدینہ کی سدا
"جان قربان ہے ناموسِ رسالت کے لیے”
ان کے گستاخ کا سر تن سے جدا ہو فوراً
خود یہ فرمان ہے سرکار کا امت کے لیے
نار دوزخ میں تو جاۓ گا ہی گستاخ مگر
کوئی انجام ہو دنیا میں شرارت کے لیے
ان کی ناموس پہ پہرہ جو نہیں دے سکتے
کون سا منھ وہ لیے آۓ ہیں جنت کے لیے؟
نعت لکھنا بھی عبث جائے گا تیرا شاعر
کچھ نہ لکھ پایا جو سرکار کی حرمت کے لیے
ان کی ناموس سے کیا بڑھ کے ہے یہ جان تری؟
دونوں عالم ہے فقط جن کی ضیافت کے لیے
ان کے گستاخ سےبدلہ نہ لیاگر اختر
شرم کی بات ہے یہ شاہ کی امت کے لیے