تحریر:-نازش مدنی مرادآبادی
قدوۃ الواصلین، سلطان التارکین، سند الاصفیاء ،تاج الاولیاء خواجہ صوفی حمید الدین چشتی ناگوری قدس سرہ العزیز کا شمار ان اولیاء کاملین اور صوفیائے راشخین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی مکمل زندگی ترک دنیا اور فکر عقبی میں گزاری۔ آپ علیہ الرحمۃ والرضوان ہمہ وقت رضائے مولا کی تلاش و جستجو میں لگے رہتے، آپ علیہ الرحمہ کی زندگی بھی انتہائی سادگی میں گزری اور بعد وصال بھی وہ صوفیت اور سادگی آپ علیہ الرحمہ کے آستانہ مقدسہ سے عیاں ہے۔ نا کوئی گنبد نا کوئی چھت بس ایک مہندی کے درخت کے نیچے قلندِ وقت آرام فرماہے۔ یوں تو صوفی ،درویش صفت انسان میں کئی خوبیاں ہوتی ہیں۔ مگر ایک خاص خوبی جو اس بدرجہ اتم ہوتی ہے وہ مخلوق خدا پہ رحم دلی ہے۔
اس زاویہِ نگاہ سے جب ہم حضور صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ مخلوقِ خدا پر انتہائی مشفق و مہربان اور نرم خو نظر آتے ہیں۔ جس کا اندازہ نیچے دیئے گیے کچھ واقعات سے لگایا جاتا ہے۔حضرت شیخ سلطان التارکین قدس سرہ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ اگر تم میری روح کو کوئی چیز بخشنا چاہو تو گوشت نہیں بخشنا (یعنی میری فاتحہ گوشت پہ مت دلانا) مریدین نے عرض کیا بابا! اگر ہم بازار سے ذبح کیا ہوا گوشت خرید لیں تو؟ فرمایا وہی بات ہے تم جتنا گوشت بازار سے خریدوگے قصاب اس بکری کی جگہ دوسری ذبح کر لیں گے ۔مقصد یہ تھا کہ ہمارے واسطے کوئی جان بے جان نہ ہو (تذکرہ سلطان التارکین ص:51 ناشر نعیمی دار المطالعہ دارالعلوم فیضان اشرف باسنی ناگور شریف)
ان واقعہ سے کوئی شخص یہ مفہوم ہر گز اخذ نہ کرے کہ گوشت کھانا اسلام میں منع ہے۔بلکہ کچھ صوفیائے کرام کا گوشت کو نہ کھانا بربناء تقویٰ تھا نہ کر حرمت کی وجہ سے کہ انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو زیر کرنے کے لیے اس خیال سے یہ لائحہ عمل طے کیا کہ کیوں نفسانی لذتوں کی خاطر کسی جاندار کو ذبح جائے اس وجہ سے انہوں نے گوشت کھانا پسند نہ کیا۔
اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کس قدر مخلوقِ خدا پر نرم دل تھے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک ہندو شاعر غالباً چارن تھا حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی شہرت سن کر آپ کی زیارت کا متمنی ہوا اور اس غرض سے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا کہ آپ کے روئے اقدس کی زیارت سے مسفیض ہو مگر وہ دور سے کیا دیکھتا ہے کہ حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے گائے کے تھنوں میں چاقو چلا رہے ہیں اس شاعر نے یہ دیکھتے ہی ایک مصرعہ کہا
” ہڈواو گھنٹر بہیوتھاں سے مل کر تائی”
یہ مصرعہ صوفی صاحب علیہ الرحمہ نے بھی سن لیا مگر آپ اپنے کام میں منہمک رہے جب وہ شاعر آپ کے بالکل نزدیک پہونچا تو کیا دیکھتا ہے کہ صوفی صاحب علیہ الرحمہ گائے کے تھنوں سے چاقو کے ذریعے کیڑوں کو ہٹا رہے تھے اور گائے کے زخموں کی مرہم پٹی کر رہے ہیں اس شاعر نے فی البدیہہ دوسرا مصرعہ کہا ” آوے نہیں آنکھ تلے دوجوکوئی داتار”(ایضاً ص:- 54)
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ صوفی صاحب علیہ الرحمہ اپنے سسرال لاڈنوں سے تشریف لا رہے تھے۔ اس وقت آپ راستہ میں کسی سایہ دار درخت کے نیچے تھوڑی دیر آرام فرمانے کی غرض بیٹھ گیے جب وہاں سے واپس اٹھ کر روانہ ہوئے تو ایک چیونٹی آپ کے لباس مبارک پہ چڑھ گئی اور حضرت کے ہمراہ ناگور شریف آ گئی۔ جب آپ نے دیکھا تو بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اس خیال سے کہ میری وجہ سے اس چیونٹی کا اپنا گھربار چھوٹ گیا اور یہ اپنے قبیلے سے بچھڑ گئی اسی وقت اس چیونٹی کو ایک ڈبیا میں رکھ کر اسی مقام پر جاکر چھوڑ دیا جہاں سے وہ آپ کے ساتھ آئی تھی اسی سبب سے آپ کو امان الارض کا خطاب عطا ہوا(ایضاً ص :-55،54)
ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ عبادت الٰہی میں مصروف تھے اور جبین اقدس سجدے میں تھی اور آپ اللہ عزوجل سے لو لگائے ہوئے تھے کہ ایک چڑیا نے آپ کے عمامہ شریف میں گھونسلہ بنا کر انڈے دے دیئے آپ نے اس وقت تک سجدہ سے سر نہیں اٹھایا جب تک کہ انڈوں سے بچے بڑھ کر باہر نہیں نکلے گیے۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس چڑیا نے انڈے دے دیئے ہیں اگر میں سر اٹھاؤں گا تو اس کے انڈے پھوٹ جائیں گے (رسالہ سہ ماہی صوفیہ باسنی جلد نمبر 4 شمارہ نمبر 2)
یہ بھی مخلوق خدا پہ رحم دلی کی ایک واضح مثال تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے صوفی صاحب علیہ الرحمہ مخلوقِ خدا پر کس قدر رحم فرمایا کرتے تھے ۔اب ہم بھی ذرا اپنا جائزہ لیں کہ ہم کس جگہ کھڑے ہیں۔ ہمارا تو حال یہ ہے ذرا سا کوئی کچھ کہہ تو دے پھر اس کی خیر نہیں ہے۔جب تک انتقام نہ لیں غیظ وغضب کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی۔ اے کاش ہمیں بھی حضور سلطان التارکین خواجہ حمید الدین ناگوری علیہ الرحمہ کے صدقے نرم گوئی، نرم خوئی اور نرم دلی نصیب ہو آمین بجاہ سید المرسلین