غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
َمسلمان بھارت میں تقریباً آٹھ سو سال حاکم رہے لیکن غیر مسلموں کو کبھی مسلمانوں سے ڈر نہیں لگا، وہ نہایت چین وسکون کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے رہے، حتی کہ آگرہ ودہلی جیسے مرکزی شہروں میں بھی غیر مسلم رعایا اکثریت میں رہی، اس کے باوجود انہیں مسلمان حاکموں یا مسلم عوام سے کوئی ڈر خوف محسوس نہیں ہوا، لیکن انیسویں صدی میں شدت پسند تنظیموں کے وجود میں آتے ہی غیر مسلم خطرات کی زد میں آ گئے۔انگریز چلے گیے مگر خطرہ کم نہیں ہوا، مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی لیکن خطرہ بنا رہا، سیکولرزم کے نام پر اکثریتی سماج حاکم بن گیا مگر خطرہ برقرار رہا یہاں تک کہ 2014 میں خالص ہندتوا نوازوں کی حکومت آگئی مگر خطرہ ہے کہ ٹلنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔پہلے کسی ہندو کالونی میں کوئی مسلمان جا بستا تھا تو ہندو پڑوسی "مکان بکاؤ ہے” کا بورڈ لگا کر اسے نکالنے کی سازش رچتا تھا مگر اس بار تو حد ہوگئی محض تین مسلم گھروں کی بنا پر پوری ہندو کالونی کے لوگوں نے "کالونی بکاؤ ہے” کے بورڈ لگا کر نفرت وتعصب کی انتہا کر دی ہے۔
تازہ واقعہ یوپی کے مشہور صنعتی شہر مرادآباد کا ہے جہاں لاجپت نگر نامی رہائشی کالونی آباد ہے۔کالونی میں اکیاسی خاندان مقیم ہیں، جو سب غیر مسلم ہیں۔پچھلے دنوں کالونی کے باہری حصے پر بنے تین مکان مسلمانوں نے خرید لیے، بس پھر کیا تھا پوری کالونی میں زلزلہ آگیا، ساری کالونی نے اتفاق رائے سے "کالونی بکاؤ ہے” کا بورڈ لگا دیا۔امیدوں کے عین مطابق میڈیا/سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خوف اور ان کے ظلم وستم کی داستانیں گردش کرنے لگیں بات لکھنؤ تک پہنچی، جانچ بٹھا دی گئی۔مقامی بی جے پی کونسلر اور ہندو تنظیموں کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے مکان واپس کرا دئے جائیں تاکہ ہندو کالونی کا خوف ختم ہو۔
ذرا سوچئے!
تین مسلم گھرانوں سے اکیاسی ہندو گھرانوں کو کیا خوف ہوسکتا ہے؟
جواب نہایت سادہ ہے، یہ خوف نہیں نفرت ہے!!
بھلا اس قوم سے کون خوف کھائے گا جو ملک کی سب سے پس ماندہ اور کمزور قوم ہے لیکن کٹّر پنتھیوں نے عام ہندو سماج میں اس قدر زہر بھر دیا ہے کہ انہیں عام تو عام فلمی مسلمان بھی برداشت نہیں ہوتا، زیادہ دن نہیں ہوئے جب عمران ہاشمی نامی فلم ایکٹر کو یہ کہہ کر فلیٹ دینے سے منع کردیا گیا کہ سوسائٹی کے اصولوں کے تحت کسی مسلمان کو فلیٹ نہیں دیا جاسکتا۔
عمران ہاشمی فلمی ایکٹر ہے، بیوی ہندو ہے، مہیش بھٹ اور مکیش بھٹ جیسے لوگ اس کے رشتہ دار ہیں اس کے باوجود اسے صرف مسلم نام کی وجہ سے فلیٹ نہیں دیا گیا جب سماج اتنا متعصب اور نفرتی ہوجائے کہ فلمی مسلمان کا وجود تک برداشت نہ ہو تو کسی عام یا مذہبی مسلمان کا وجود کیوں کر برداشت کر سکتا ہے؟
اسی نفرت کے زیر اثر لاجپت نگر کالونی کے غیر مسلموں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ پہلی فرصت میں مسلمانوں کی رجسٹریاں کینسل کرائے ورنہ وہ لوگ اجتماعی طور پر یہاں سے نکل جائیں گے۔ضلع انتظامیہ کی طرف سے سٹی مجسٹریٹ راجیش کمار نے وہاں پہنچ کر لوگوں سے ملاقات کی اور حالات کا جائزہ لیا جلد ہی وہ اپنی رپورٹ ضلع جج (ڈی ایم) کو پیش کریں گے۔ادھر ڈی ایم مرادآباد نے حالیہ معاملے کو کچھ لوگوں کا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ضلع انتظامیہ اہل کالونی کا غیر قانونی مطالبہ تسلیم کرتی ہے یا انصاف کی بالادستی بنائے رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
چند سال پہلے بھی مرادآباد شہر کی ایک کالونی میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا اس وقت ایک مسلمان ڈاکٹر کے مکان خریدنے کے خلاف ہندو پڑوسیوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا، تمام تر دلیلوں کے باوجود ضلع انتظامیہ نے غیر مسلموں کے دباؤ میں مسلم ڈاکٹر کو مکان واپس کرنے پر مجبور کردیا تھا۔اس نظیر کو دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ اس بار بھی شاید نتیجہ پہلے سے مختلف نہ آئے، اُس وقت تو خیر سے صوبے میں حکومت بھی سیکولر پارٹی کی تھی جبکہ اس بار تو صوبہ ومرکز میں اسی پارٹی کی حکومت ہے جسے ان مسائل سے فطری دل چسپی ہے۔
کیسے ہو نفرت کا خاتمہ؟
ہر گزرتے دن کے ساتھ اکثریتی سماج میں نفرت وتعصب کا زہر بڑھتا جارہا ہے، اس نفرت کے خاتمے کی دو ہی صورتیں ہیں؛
1- حکومت ایسی تنظیموں اور افراد کے خلاف سخت کاروائی کرے۔
2- مسلمان ایک بار پھر پیغام تصوف کا احیا کریں۔
پہلی صورت ناممکنات میں سے ہے کیوں کہ ایسے مسائل اٹھانے والے افراد حکومت کے منظور نظر اور خاص لوگوں میں سے ہیں۔خود حکومت کو ایسے مسائل بہت سوٹ کرتے ہیں جو ہندو مسلم تنازعات پر مشتمل ہوں۔حکومت کی معاون تنظیمیں دن و رات ایسے افکار و نظریات کو پروان چڑھا رہی ہیں جس سے ہندو مسلمانوں کے درمیان عداوت ودشمنی بڑھتی رہے اور وہ اس کی آڑ میں حکومت کرتے رہیں۔
ہاں! دوسری صورت ممکنات میں سے ہے مگر بے حد مشکل اور سخت آزمائشوں سے بھری ہے، وہ صورت، پیغام تصوف کا احیا ہے جس کی بدولت ہمارے بزرگوں نے اس دھرتی پر وفا کے پھول کھلائے تھے اور جانی دشمنوں کے دلوں میں بھی حق وصداقت کے چراغ روشن کیے تھے۔
۔۔۔کہنے کو موجودہ دور تصوف کا زریں دور ہے جہاں قدم قدم پر خانقاہیں موجود ہیں۔ہر خانقاہ میں فروغ تصوف کی درجن درجن بھر تنظیمیں پائی جاتی ہیں۔ملک وبیرون ملک تصوف پر سیمنار، سمپوزیم اور مذاکرات منعقد کیے جارہے ہیں۔افکار تصوف پر انٹرنیشنل کانفرنسیں ہورہی ہیں، ہر دوسرے چوک پر امیر الصوفیا، قائد تصوف، فخر صوفیا، ترجمان سلوک ، فرید وقت اور سعدی وشیرازی کے جاں نشین گھومتے پھر رہے ہیں مگر دنیا جانتی ہے کہ ان عزت مآب صوفیوں اور حقیقی صوفیا میں اتنا ہی فرق ہے جتنا فرق رات اور دن میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صوفیا اور تصوف تنظیموں کی بہتات کے باوجود معاشرے پر کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے، کیوں کہ مدعیان تصوف کی اپنی زندگیاں سلوک وتصوف سے ایک دم خالی ہیں۔
صوفیا کی قسمیں
صوفیا تین طرح کے ہوتے ہیں؛
1- عوامی صوفی
2- سرکاری صوفی
3- حقیقی صوفی
پہلا گروہ عوامی صوفیا کا ہے یہ لوگ چادریں چڑھواتے ہیں، ڈوری گنڈے کرتے ہیں، جادو ٹونے، بھوت پریت کا علاج کرتے ہیں، مزاروں پر کلاوے بیچتے ہیں اور لوگوں کی منتیں مرادیں پوری کرانے کے دعوے کرتے ہیں۔
دوسرے گروہ کے افراد سرکاری صوفی ہوتے ہیں، ان کا ظاہری مقام بہت بڑا ہوتا ہے۔یہ لوگ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے قریبی ہوتے ہیں، ان کے ہر جا بے جا قدم اور قانون کی حمایت کرتے ہیں۔آڑے وقت میں حکومت کی مدد کرتے ہیں، سرکاری پروگراموں کے مہمان خصوصی بنتے ہیں، مشکل دور میں عوامی ذہنوں کو ڈائی ورٹ کرتے ہیں اور حکومت کے ہر جابرانہ فیصلے کو تصوف کی روشنی میں جائز ٹھہراتے ہیں۔
تیسرا طبقہ حقیقی صوفیا کا ہے، یہ ان صوفیا کے اصلی جانشین ہیں جنہوں نے اپنے اخلاق وکردار سے لوگوں کے دل ودماغ بدل دئے، جن کی پاک صحبت نے دشمنوں کو بھی دوست بنا دیا۔جن کے پیغام محبت نے نفرتوں کا خاتمہ کرکے الفت و محبت کے پھول کھلائے۔
موجودہ وقت میں پہلے دو گروہ کے لوگ بہ کثرت پائے جاتے ہیں اور طبقہ دوم کی مقبولیت کا عالم تو یہ ہے کہ جو جماعتیں سرے سے تصوف کی منکر تھیں، اسے شرک وبدعت کا پلندہ کہتی تھیں، اب وہ بھی اپنا شجرہ تصوف سے جوڑ رہی ہیں تاکہ حکومتی مراعات سے ان کا دامن بھی خالی نہ رہے۔
حقیقی صوفیا بہت کم ہیں اور روپوش بھی ہیں۔ ضرورت ہے کہ حقیقی صوفیا کے مزاج ومنہج کو اپنایا جائے اور ایسی جماعتیں تیار کی جائیں جو سرکار غریب نواز کی طرح ضرورت مند کی مدد کے لیے محنت ومشقت کر سکیں، جو ان کے دُکھ درد میں کام آئے، جو اپنے اعلی کردار سے لوگوں کی زندگیاں بدل دے۔جس دن ہم نے پیغام تصوف کا احیا کرلیا اسی دن نفرتوں کا خاتمہ ہوگا اور ہم سے دشمنی کرنے والے ہمیں سے اخلاق وآداب کی تعلیم حاصل کریں گے اور بھارت کی دھرتی پیار محبت کا گہوارہ ہوگی۔