تحریر : کامران غنی صبا
……………………..
بہار میں اردو کی لڑائی لڑنے والے سچے لوگ حاشیے پر ہیں. اردو تحریک کے نام پر سوائے پروپیگنڈا کے کچھ نہیں ہو رہا ہے. نئی نسل کو نظر انداز کر کے کوئی تحریک بھلا کیسے کامیاب ہو سکتی ہے. بہار میں نئی نسل کے شعرا و ادبا اور ناقدین کو دانستہ طور پر نظر انداز کرنے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے. مخلص لوگوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اردو کے حق کے لئے مسلسل لڑ رہی ہے. اسے نام و نمود اور پروپیگنڈا کی کوئی حاجت نہیں ہے. اردو کے لیے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگ عملی میدان میں صفر ہیں. تین سال قبل این آئی او ایس نے اپنے نصاب سے اردو کو ختم کر دیا تو بہار میں اردو کے تحریک کار خاموش رہے. بہار اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن کے فعال اور مخلص نوجوان اردو کی لڑائی لڑنے میدان میں آئے. پٹنہ ہائی کورٹ میں کیس داخل کیا گیا. وکیل نے فیس کے طور پر بڑی رقم کا مطالبہ کیا. اردو کی محبت کا دم بھرنے والے لوگ مالی تعاون کے نام پر بیک فٹ پر چلے گئے. محمد نظر الہدی قاسمی اور جناب فیروز عالم، مغربی چمپارن پٹنشیر بنے. وہ مسلسل پٹنہ دوڑتے رہے. ایسو سی ایشن کے سکریٹری محمد شفیق اور ان کے رفقا اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے مستقل جدوجہد کرتے رہے. سوائے جناب امتیاز احمد کریمی (ڈائرکٹر اردو ڈائریکٹوریٹ) کے کسی نے اظہار ہمدردی کا ایک لفظ بھی خرچ کرنا گوارا نہیں کیا. کسی طرح وکیل کی فیس کا انتظام کیا گیا. طویل جدوجہد کے بعد فیصلہ اردو کے حق میں آیا. فیصلہ آنے کے بعد بھی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کوئی آگے نہیں آیا. حالانکہ اس فیصلے سے نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان کے لاکھوں اردو میڈیم اساتذہ نے چین کا سانس لیا.
بہار کے اسکولوں سے اردو اساتذہ کی یونٹ ختم کیے جانے کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے. اس بار بھی نوجوانوں نے کمر کس لی ہے. معاملہ عدالت پہنچ چکا ہے. ایک طرف پروپیگنڈے کی سیاست ہے. روزانہ اخبارات میں اپنی قصیدہ خوانی شائع کروائی جا رہی ہے دوسری طرف مخلص نوجوانوں کی چھوٹی سی جماعت نام و نمود کی تمنا سے بے نیاز ہو کر اردو کے لیے زمینی جنگ لڑ رہی ہے. اطمینان کی بات یہ ہے کہ عدالت نے حکومت کو تین ماہ کا وقت دے کر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ہدایت جاری کی ہے. عدالت نے حکومت سے پوچھا ہے کہ بہار میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے تو اسے نظرانداز کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟
اردو کی لڑائی لڑنے والے مخلص نوجوان ہوں یا ادب و صحافت کے میدان کے نو شہسوار. بہار میں نئی نسل کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے. یہ صورت حال دوسری ریاستوں میں اتنی افسوس ناک نہیں ہے. دہلی میں نوجوان قلم کاروں کی تربیت اور پذیرائی کے لیے مختلف قسم کے منصوبے ہیں. دہلی اردو اکادمی نئے پرانے چراغ کے عنوان سے جو پروگرام کرتی ہے اس میں نوجوان شعرا و ادبا کی عزت افزائی کی جاتی ہے. دہلی کے اسکولوں میں اردو کی لڑائی لڑنے والے مرد مجاہد منظر علی خاں کی بے لوث اردو خدمات کی دنیا معترف ہے. اس شخص کی بدولت نہ جانے کتنے اردو اساتذہ اردو کی روزی روٹی کھا رہے ہیں. دہلی کے اردو اخبارات نے منظر علی خاں کی ذاتی تحریک کو آفاقی بنانے میں بھر پور تعاون دیا ہے. ایسا شاید بہار میں ممکن نہیں تھا.
بہار کے سرکاری اداروں کے علمی و ادبی پروگراموں میں نئی نسل کے شعرا و ادبا کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے. سینئر ادبا و شعرا میں گنتی کے چند چہرے ہیں جو سمینار مشاعروں میں گردش کرتے رہتے ہیں. پچھلے سال بہار پبلک سروس کمیشن نے اردو کے 82 اساتذہ مختلف یونیورسٹیوں میں بحال کیے ہیں. کمیشن سے آئے ہوئے یہ اساتذہ کیا اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں ادبی منظر نامے پر ابھرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں؟
اردو ڈائریکٹوریٹ میں امتیاز احمد کریمی کی ڈائریکٹرشپ ختم ہونے کے بعد ڈکٹیٹر شپ کا دور شروع ہو چکا ہے. امتیاز احمد کریمی نے نئی نسل کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے قابل قدر کوششیں کیں. سچ پوچھیے تو ان سے قبل اردو ڈائریکٹوریٹ کو جاننے والا بھی کوئی نہ تھا. انہوں نے ڈائریکٹوریٹ کو بہار کے ہر ضلع میں فعال کیا. افسوس کہ ان کے جانے کے بعد اردو ڈائریکٹوریٹ، بہار اردو اکادمی اور اردو مشاورتی کمیٹی کی طرح نیم مردہ ہو چکا ہے. سب کو اپنے اپنے دانے پانی کی فکر ہے. ایسے میں آواز کون اٹھائے؟ سب کو ڈر ہے کہ آواز اٹھانے والے کو ادارہ کی بلیک لسٹ میں پھینک دیا جائے گا.
نئی نسل کو دانستہ طور پر نظر انداز کرنے کا یہ رویہ اردو کے حق میں بہتر نہیں ہے. جو لوگ اردو کے خدا بنے بیٹھے ہیں وہ یہ بھول رہے ہیں نوجوانوں کے "کفر” نے سر ابھارا تو ان کی خدائی خاک میں مل جائے گی. بلاشبہ آنے والا وقت نئی نسل کا ہی ہے اور نئی نسل اردو کے ساتھ ساتھ اپنے حق کی لڑائی لڑنا بھی جانتی ہے. وہ مصلحت، پروپیگنڈا، اعتراف و انحراف کے مفہوم سے پوری طرح آشنا ہے.
………………………….