تحریر : قطب الدین احمد قادری تلسی پور، ، رکن انجمن ضیائے گلزار ملت یوپی۔
آج کل ہمارے معاشرے کے اندر ایک برائ بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے وہ یہ کہ بے اولاد بہو کو گھر والے اپنے بیٹے سے طلاق دلا رہے ہیں یہ طعنہ دے کر کہ شادی ہوئے کتنا عرصہ گذر گیا لیکن ابھی تک پوتے یا پوتی کا منہ دیکھنے کو نہیں ملا ، اور پڑوس کی عورتیں بھی یہی طعنہ دیتی ہیں اگر اسے کچھ نہیں ہوتا ہے تو اسے طلاق دے کر دوسری شادی کیوں نہیں کرلیتے۔ اب وہ دوسری شادی کر لیتا ہے کچھ عرصہ گذرا اس سے بھی کچھ نہیں ہوا تو گھر کی عورتیں کہتی یہ بھی اسی منحوس کی طرح ہے یہ بھی نہیں پیدا کرپائ اسے بھی طلاق دے اور تیسری شادی کر لے اب وہ تیسری بھی کرلیتاہے اور جیسے ہی کچھ عرصہ گذرا اس سے بھی کچھ نہیں ہوا تو اسے بھی وہی لعن طعن دے کر گھر والی اور پڑوس کی عورتیں طلاق دلا دیتی ہیں ایسے ہی نا جانے کتنی عورتوں کی زندگیاں خراب کراتی ہیں اور لڑکےبھی طلاق دے کر ان کی زندگی تباہ و برباد کرتے ہیں۔
ایسے ہی میں نے انٹرنیٹ پر ایک مضمون پڑھا دانش اور ہانیہ کی کہانی کہ دانش کی شادی ہوئے نو ماہ گذرے تھے اک دن ہانیہ اپنی ساس کے پاس بیٹھی تھی تو ساس بولی ہانیہ میں تو بس اسی انتظار میں ہوں کہ اللہ مجھے پوتے کا منہ دکھا دے میں اسےگود لےکر خوب پیار بھری باتیں کروں ہانیہ نے کہا ان شاء اللہ ضروراللہ تعالی آپ کی حسرت پوری فرمائے گا بدقسمتی کہ ایسے ہی کافی عرصہ گذرگیا لیکن ہانیہ ماں نہ بن سکی تو پھرساس نے بے اولاد ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیا اور ایسے ہی نند اور جٹھانی پڑوسن نے بھی، سب کے طعنے ہانیہ سنتی رہی ، ایک دن دانش کی خالہ دانش کے گھر آئیں دانش کی ماں اور خالہ نے مل کر ہانیہ سے کہا کہ تم میرےدانش سے طلاق لے لو آٹھ سال گذرگئے ایک بچہ نہ پیدا کرسکی یہ سن کر ہانیہ رونے لگی اور بولی خالہ اس میں میرا کیا قصور ہے میرے بس میں تھوڑی نہ ہےجب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو دے گا اب میں کیا کرسکتی ہوں تو دانش کہ ماں بولی کہ جو تمہارے بس میں ہے وہ کرو دانش سے طلاق لو اوریہاں سے جاؤ۔
ان جاہل عورتوں کو یہ بھی نہیں پتا ہے کہ بچہ پیدا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ یہ اللہ ہی کی قدرت ہے کہ جسے چاہتاہے اولاد پیدا کرنے والا بنادیتا ہے اولاد اللہ تعالیٰ کہ ایک نعمت ہوتی ہے اللہ جسے چاہے عطا کرے یہ اس کی ہی شان ہے اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتاہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اتنی جلد ناامیدہوگئ کہ اپنے بیٹے سے طلاق دلاکر دوسرے کے بیٹی کی زندگی کو عذاب بنا ڈالا ائے عورتوں تمہیں معلوم ہونی چاہیے کہ جو رب حضرت ذکریا علیہ السّلام کو نوے سال کی عمر میں اولاد دے سکتا ہے تو وہ نوسال کی عمر بھی اولاد عطا کر سکتا ہے لیکن افسوس کہ تم نےصبر نہ کی اوراتنی جلد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامیدہوکراسےطلاق دلواکر اس کی زندگی کو تباہ کرڈالا یاد رکھنا جب اللہ تعالیٰ کا کرم ہوگا تبھی کچھ ہوگا رب کے مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا، خدارا خود اپنے گھروں کو مت اجاڑوں اور کسی کا بھی دل مت دکھاؤ کسی کی زندگی تباہی میں مت ڈالو کسی کو بھی بےاولاد ہونے کا طعنہ مت دو، نہ جانے کتنے گھر اسی لعن طعن کی وجہ سے اجڑ گئے اور نہ جانے کتنی بچیاں اسی لعن طعن کی وجہ سے طلاق یافتہ اپنے باپ کے گھر بیٹھی ہیں اور گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہیں لہذا میں تم سب سے گذارش کرتا ہوں کہ اپنی اس بری حرکت سے بازآجاؤ کب تک ایسے طلاق دلاتی رہوگے بے اولاد کا طعنہ دےکر اور دوسروں کی زندگی کو بربادکروگی تم اگر چوتھی مرتبہ بھی دوسری بیوی یابہو لے آؤ اور اس سے بھی اولاد نہ ہو تب کیا کرو گی اس لیے اپنے حرکت سے باز رہو اور اللہ کی رحمت سے امید رکھو ، اللہ کہ رحمت سے ناامیدی کفرہے ۔ اللہ تعالیٰ ان عورتوں کو عقل سلیم عطا کرے اور خاتون جنت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین۔
حریص علم۔ قطب الدین احمد قادری اسماعیلی تلسی پوری۔ رکن انجمن ضیائے گلزار ملت یوپی۔