تحریر : جمشید علی صابری چشتی قادری قلندری حنفی حسینی
حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں لکھتا ہے کہ
( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علی الجوهری ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهیثم القاضی ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعی عن أبی عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَیْتُ اللَّیْلَةَ حُلْماً مُنْکَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِیدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِی حَجْرِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) خَیْراً رَأَیْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَیَکُونُ فِی حَجْرِکِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَیْنَ(علیه السلام) فَقَالَتْ وَ کَانَ فِی حَجْرِی کَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ یَوْماً عَلَی النَّبِیِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِی حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَیْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَکَ قَالَ أَتَانِی جَبْرَئِیلُ(علیه السلام) فَأَخْبَرَنِی أَنَّ أُمَّتِی سَتَقْتُلُ ابْنِی هَذَا وَ أَتَانِی بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.
المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 3، ص 176 – 177 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 196 – 197 و البدایة والنهایة، ابن کثیر، ج 6، ص 258 و.
ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔
بہت جلد فاطمه(علیها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین علیہم السلام دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔
ایک دن میں حضرت سیدنا امام حسین علیہم السلام کو گود میں اٹھائے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی ۔ وہ حضرت سیدنا امام حسین علیہم السلام کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔
حاکم نیشابوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:
هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.
اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:
أخبرناه أبو الحسین علی بن عبد الرحمن الشیبانی بالکوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاری ثنا خالد بن مخلد القطوانی قال حدثنی موسی بن یعقوب الزمعی أخبرنی هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبی وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتنی أم سلمة رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وآله اضطجع ذات لیلة للنوم فاستیقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استیقظ وهو حائر دون ما رأیت به المرة الأولی ثم اضطجع فاستیقظ وفی یده تربة حمراء یقبلها فقلت ما هذه التربة یا رسول الله قال أخبرنی جبریل(علیه الصلاة والسلام) ان هذا یقتل بأرض العراق للحسین فقلت لجبریل أرنی تربة الأرض التی یقتل بها فهذه تربتها هذ حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.
المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 4، ص 398.
عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین علیہم السلام کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حضرت سیدنا امام حسین علیہم السلام کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔
حاکم نیشابوری کہتا ہے:یہ حدیث بخاری و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔
طبرانی نے معجم کبیر، هیثمی نے مجمع الزوائد اور متقی هندی نے کنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:
وعن أم سلمة قالت کان رسول الله صلی الله علیه وسلم جالسا ذات یوم فی بیتی قال لا یدخل علی أحد فانتظرت فدخل الحسین فسمعت نشیج رسول الله صلی الله علیه وسلم یبکی فأطلت فإذا حسین فی حجره والنبی صلی الله علیه وسلم یمسح جبینه وهو یبکی فقلت والله ما علمت حین دخل فقال إن جبریل علیه السلام کان معنا فی البیت قال أفتحبه قلت أما فی الدنیا فنعم قال إن أمتک ستقتل هذا بأرض یقال لها کربلاء فتناول جبریل من تربتها فأراها النبی صلی الله علیه وسلم فلما أحیط بحسین حین قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا کربلاء فقال صدق الله ورسوله کرب وبلاء، وفی روایة صدق رسول الله صلی الله علیه وسلم أرض کرب وبلاء.
المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 23، ص 289 – 290 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 188 – 189 و کنز العمال، المتقی الهندی، ج 13، ص 656 – 657 و….
ام سلمه رضی اللہ عنہا کہتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن علیہم السلام آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا امام حسین علیہم السلام کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں دکھاؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔
ام سلمه رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھائی۔
جب دشمن کے لشکر نے امام حسین علیہم السلام کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین علیہم السلام کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسین علیه السلام نے فرمایا کہ رسول اکرم صلّی اللّه علیه و آله وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔
هیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:
رواه الطبرانی بأسانید ورجال أحدها ثقات.
اسی طرح، هیثمی مجمع الزوائد میں ، ابن عساکر تاریخ مدینه دمشق میں، مزّی تهذیب الکمال میں اور ابن حجر عسقلانی تهذیب التهذیب میں لکھتے ہیں کہ:
عن أم سلمة قالت کان الحسن والحسین یلعبان بین یدی رسول الله صلی الله علیه وسلم فی بیتی فنزل جبریل فقال یا محمد إن أمتک تقتل ابنک هذا من بعدک وأومأ بیده إلی الحسین فبکی رسول الله صلی الله علیه وسلم وضمه إلی صدره ثم قال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة ودیعة عندک هذه التربة فشمها رسول الله صلی الله علیه وسلم وقال ویح وکرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمی أن ابنی قد قتل قال فجعلتها أم سلمة فی قارورة ثم جعلت تنظر إلیها کل یوم وتقول إن یوما تحولین دما لیوم عظیم.
تهذیب التهذیب، ابن حجر، ج 2، ص 300 – 301 و تهذیب الکمال، المزی، ج 6، ص 408 – 409 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 192 – 193 و ترجمة الإمام الحسین علیہ السلام، ابن عساکر، ص 252 – 253 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و…
ام سلمه رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہوئی ہے کہ:
امام حسن و حسین علیهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین علیہم السلام کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله وسلم نے گریہ کیا اور امام حسین علیه السلام کو سینے سے لگا لیا۔
پھر رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله وسلم نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہم السلام شھید ہو گیا ہے۔
ام سلمه رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔
ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:
و فی الباب عن عائشة و زینب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبی أمامة و أنس بن الحارث و غیرهم.
اس بارے میں روایات عایشه، زینب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث رضوان اللہ اجمعین اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔
اسی طرح هیثمی ایک دوسری روایت نقل کرتا ہے کہ:
عن أبی أمامة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لنسائه لا تبکوا هذا الصبی یعنی حسینا قال وکان یوم أم سلمة فنزل جبریل فدخل رسول الله صلی الله علیه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعی أحدا أن یدخل علی فجاء الحسین فلما نظر إلی النبی صلی الله علیه وسلم فی البیت أراد أن یدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغیه وتسکنه فلما اشتد فی البکاء خلت عنه فدخل حتی جلس فی حجر النبی صلی الله علیه وسلم فقال جبریل للنبی صلی الله علیه وسلم إن أمتک ستقتل ابنک هذا فقال النبی صلی الله علیه وسلم یقتلونه وهم مؤمنون بی قال نعم یقتلونه فتناول جبریل تربة فقال بمکان کذا وکذا فخرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قد احتضن حسینا کاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبی علیه فقالت یا نبی الله جعلت لک الفداء انک قلت لنا لا تبکوا هذا الصبی وأمرتنی ان لا أدع أحدا یدخل علیک فجاء فخلیت عنه فلم یرد علیها فخرج إلی أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتی یقتلون هذا.
مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 8، ص 285 – 286 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 190 – 191 و ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 245 – 246 و….
ابو امامه سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله وسلم نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین علیہم السلام) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّی اللّه علیه و آله نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسین علیه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین علیہم السلام کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین علیہم السلام نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین علیہم السلام کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔
جبرئیل نے رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔
جبرئیل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو دی اور کہا کہ یہ خاک اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔
رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله غم کی حالت میں حسین علیه السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔
ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین علیہم السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین علیہم السلام کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین علیہم السلام بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین علیہم السلام کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
ترمذی شریف کی عبارت ملاحظہ ہو
عن سلمیٰ قالت دخلت علی ام سلمة وھی تبکی فقلت ما تبکیک قالت رأیت رسول اللہ تعنی فی المنام وعلی راسہ ولحیتہ التراب فقلت مالک یا رسول اللہ قال شھدت قتل الحسین انفاً.(١)
ترجمہ۔؛ سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئی تو ان کو روتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھاآپ کیوں رو رہی ہیں فرمایا میں نے سرور کائنات کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے سراور ریش مبارک پر خاک پڑی ہے تو پوچھا یا حضرت آپ خاک آلود کیوں ہیں تو فرمایا: میں ابھی سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا ۔(۱)
ملاحظہ ہوں اہل اسنت کی معتبر کتابیں:
(۱)سنن ترمذی جلد٢ ص٢٤١
(۲)مشکوٰة شریف باب مناقب اہل بیت علیہم السلام ج٣،ص٢٧٦
(۳)صواعق محرقہ ص١٩٣ طبع مصر
(۴)ینابیع المودة ص٣٢٠ باب ٦٠
(۵)تاریخ دمشق ابن عساکر ص٢٦٣ حصہ ذکر امام حسین
(۶)تذکر ة الخواص ص٢٦٨
(۷)تاریخ الخلفاء سیوطی ص ٢٠٨
(۸)کفایة الطالب علامہ گنجی ص٤٣٣
مشکوة شریف مترجم با عناوین ج٣ ص٢٧٦ پر مذکور ہ روایت پر مترجم نے ایک عجیب حاشیہ لگایا ہے کہ یہ روایت قطعا غلط ہے اس لیے کہ تمام محدثین اورمؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ام سلمہ، شھادت امام حسین علیہ السلام سے دو سال قبل وفات پاچکی تھیں۔
اما الجواب : اہل سنت کی معتبر کتاب سیرت حلبیة (١) میں صریحا موجود ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمة رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات جبکہ وہ چوراسی سال کی تھیں یزیدبن معاویہ کی حکومت میں ہوئی تھی اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔
(ج٣ ص٤١١ طبع دارالمعرفة بیروت)
اہل سنت کے معتبر مؤرخ علامہ ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء (ج٢ ص٢١٠ ) میں لکھتے ہیں کہ بعض نے گمان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ٥٩ (انسٹھ) میں ہوئی ہے یہ بھی (انکا) وہم ہے ظاہریہ ہے کہ ان کی وفات ٦١ (اکسٹھ) میں ہوئی ہے والظاہروفاتھا فی سنة احدی و ستین رضی اللہ عنہا
نیز علامہ ذھبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں ٦١ (اکسٹھ) کے حوادث میں ام المؤمنین حضرت ام سلمة رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کا ذکر کیا ہے۔
نیز علامہ ذھبی اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء (ج٢ ص٢٠٢) میں لکھتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی حتی کہ جب حسین شہید کی شہادت کی خبر سنی تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور ان پر بہت محزون ہوئیں ان کی شہادت کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہیں اورپھر انتقال کر گئیں۔
وکانت آخر من مات من امھات المؤمنین عمّرت حتی بلغھا فقتل الحسین (ع) الشھید فو جمت لذلک و غش علیھا و حزنت علیہ کثیرا لم تلبث بعدہ الّا یسیراً۔
نیز اہل سنت کی معتبر کتاب مجمع الزوائد ج٩ ص٢٤٦ پر تصریح موجود ہے کہ جناب أم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےیزید ابن معاویہ کے زمانہ میں ٦٢ باسٹھ میں انتقال کیا ہے۔ اور اس کو محدث طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال ثقہ ہیں۔
مزیدتائید: حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے حسین بن علی علیہ السلام کی شہادت پر جنوں کا نوحہ سنا ہے اس کو طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال صحیح ہیں ( مجمع الزوائد ج٩ ١٩٩)
اگر وہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے پہلے فوت ہوگئی تھیں تو پھر انہوں نے امام مظلوم کی شہادت پرجنّات کا نوحہ کیسے سن لیا؟ حالانکہ جنّات کا نوحہ سننے والی روایت بھی صحیح ہے۔
خلاصہ: یہ کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات بقول ذھبی حکومت یزیدمیں ٦١ ہجری میں یا صحیح قول کے مطابق ٦٢ باسٹھ ہجری میں ہوئی ہے کما فی مجمع الزوائد بہر حال ان کی وفات امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد ہوئی ہے۔
پس مترجم مشکوة کا یہ دعوی کرنا کہ ان کی وفات شھادت حسین علیہ السلام سے دو سال قبل ہونے پر سب مورخین کا اتفاق ہے، یہ دعوی جہالت پر مبنی ، اورغلط ہے۔
نوٹ :نمبر١
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مضمون کی روایت کتب میں پائی جاتی ہے (٢) تاریخ الخلفاء ص ٢٣٦ طبع مصر (٣) کفایة الطالب مناقب علی ابن ابی طالب ص ٤٣٨ ؛ الصواعق المحرقہ ص١٩٣.
جس گھر میں ترمذی شریف ہو گویا اس گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں .
ملاحظہ ہو اہل سنت کی معتبر کتاب اسماء الرجال مشکوٰة شریف ص١٨٤ :جس گھر میں یہ کتاب (ترمذی) موجود ہو پس یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے یہاں خود نبی موجود ہیں جو گفتگو فرمارہے ہیں ۔
نوٹ:نمبر٢
مذکورہ روایت سے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصیبت امام حسین علیہ السلام کویاد کر کےرونا ثابت کرتاہے کہ مصیبت امام حسین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدانے اپنے سر مبارک اورریش اقدس میں مٹی ڈالی ہے تو پھر مصیبت امام حسین علیہ السلام میں رونا اورسر پر خاک ڈالنا بدعت نہیں ہے بلکہ عین سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔