ازقلم : محمد زاھد رضا، دھنباد
متعلم، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
جنگ آزادی کی تاریخ علماے کرام اور مسلمانوں کے خون ان کے روشن کارناموں اور مجاہدانہ کردار سے بھری پڑی ہیں، ان ہی سرخیل اور باہمت لوگوں کی وجہ سے آج ہم لوگ کھلی فضا میں آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہیں اور خوش حالی کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں، ان لوگوں نے من کے کالے تن کے گورے انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے خون جگر سے ارض ہند کی آبیاری و آبپاشی کی، اگر یہ لوگ بر وقت پیش قدمی اور حکمت عملی نہیں اپناتے تو آج ہندوستان کا جغرافیہ بدلا ہوا ہوتا، ہر شخص غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا اور انگریزوں کے جبر و استبداد کے چنگل میں پھنس کر اسیری کی زندگی گزار رہا ہوتا۔
ذیل میں باہمت، سرخیل اور اسلام کے چند ان بدر جلیل مجاہدین کا تذکرہ کیا جارہا ہے جنھوں نے آزادی کے لیے انمول کارہاے نمایاں انجام دیے۔
شیر میسورسلطان ٹیپو ۔سنہ ١٧٥٧ء میں رئیس بنگال نواب سراج الدولہ کی قیادت میں جنگ پلاسی، سنہ ١٧۶۴ء میں جنگ بکسر،سنہ ١٧٧۴ءجنگ روہیل کھنڈ اور اس کے بعد حیدر علی سے انگریزوں نے کئی جنگیں لڑیں اور اپنوں کی فریب کاری، مکاری، دغا بازی اور عیاری کے سبب انگریز ہر محاذ پر کامیاب ہوئے،سنہ ١٧٨٢ء میں حیدر علی کا انتقال ہوگیا اور ان کی قائم مقامی ان کے جاں باز بیٹے سلطان ٹیپو نے کی، سلطان ٹیپو محب اسلام اور محب وطن تھا، موت کی آخری سانس تک انگریزوں کے خلاف نبر آزما رہا۔ سلطان ٹیپو ملک کی حفاظت کی خاطر،افغانستان،ایران اور خلافت عثمانیہ(ترکی حکومت)سے مغربی سامراج کے خلاف فوجی مدد حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی،سنہ ١٧٨۴ء میں سب سے پہلے عثمان علی خان کو اس مہم پر قسطنطنیہ روانہ کیا مگر افسوس یہ سفارت ناکام رہا۔ سلطان ٹیپو اپنی سفارتی ناکامی سے مایوس نہیں ہوا بل کہ اس کے بعد بھی دو دفعہ خلیفہ روم کی خدمت میں اپنا سفارتی وفد روانہ کیا، آخری وفد سنہ ١٧٩٧ء کو روانہ کیا گیا تھا مگر یہاں بھی مایوسی ہاتھ آئی، شیر دل حکمراں نے ایران کے حاکم کریم خان زند اور افغانستان کے حکمراں زمان شاہ درانی کے پاس بھی وفود روانہ کیے،دونوں مدد کے لیے تیار بھی ہو گئے بل کہ زمان شاہ بھی ٹیپو کی فوجی مدد کے لیے ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گیا تھا لیکن ایران کے افغانستان پر اچانک حملہ کی وجہ سے اس کو راستہ ہی سے واپس جانا پڑا،اس کے بعد سلطان ٹیپو نے نظام حیدر آباد اور مرہٹوں سے بھی مفاہمت کی کوشش کی،سلطان نے بڑی حکمتوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی خود مختار سلطنتوں یعنی کشمیر، جودھپور، جے پور اور نیپال وغیرہ کے ہندو راجاؤں کے پاس بھی سفیر دعوت اتحاد دے کر روانہ کیے اور انہیں انگریزوں کی چال اور ہندوستان کے سلسلے میں ان کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا۔
الغرض یہ کہ سلطان ٹیپو نے ایک محب اسلام ہونے کے ناطے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ سے باز رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی اور دوسری طرف بحیثیت ایک محب وطن مرہٹوں سے مصلحت کی کوشش کی، لیکن افسوس کہ انگریز اپنی عیاری اور مکاری سے ان دونوں کو ٹیپو سے دور رکھنے اور ٹیپو کے خلاف اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے۔اپنے ہی قول”شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” پر عمل کرتے ہوئے حریت کا یہ آفتاب ۴/مئی سنہ ١٧٩٩ء کو سرنگا پٹنم کی سر زمین پر ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔
اے شہید مرد میدان وفا تجھ پر سلام
تجھ پے لاکھوں رحمتیں لا انتہا، تجھ پر سلام
ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا
ورنہ تو ہی عہد آزادی کا ایک عنوان تھا
اپنے ہاتھوں خود تجھے اہل وطن نے کھو دیا
آہ کیسا باغ باں شامِ چمن نے کھو دیا
ٹیپو سلطان کو شہید کرنے کے بعد انگریز کمانڈر نے کہا تھا کہ ” آج سے ہندوستان ہمارا ہے” یعنی آج صرف ٹیپو سلطان نے شکست نہیں کھائی بل کہ ہندوستان نے شکست کھائی ہے۔
علامہ صدر الدین آزردہ۔ مخزن علم و حکمت، سرمایہ نازش ہندوستان مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی کے آبا و اجداد کشمیر کے تھے مگر آپ کی ولادت دہلی میں ہوئی۔مفتی صدر الدین آزردہ تمام علوم نحو، صرف، منطق، حکمت، ریاضی، معانی، بیان، ادب، انشا، فقہ، حدیث، تفسیر وغیرہ میں ید طولیٰ رکھتے تھےاور درس دیتے تھے، آپ ١٨٢٧ء سے ١٨۵٧ء تک دہلی کے صدر امین اور صدر الصدور رہے، آپ کا دولت کدہ اس وقت کے اکابر علما، فضلا، ادبا اور شعرا کا مرکز تھا، آپ کے حلقہ میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولوی امام بخش صہبائی، علامہ عبد اللہ خان علوی، مرزا اسداللہ خان غالب اور میر حسن تسکین جیسے سخنوران باکمال، کہنہ مشق شاعر اور ادیب تھے۔
آپ ایک طرف جلیل القدر عالم دین تھے تو دوسری طرف آبروئے شہر تھے، آپ کی بصیرت و قیادت اور علمی استعداد کا سکہ پورے ملک میں قائم تھا، "تاریخ عروج انگلشیہ” میں صفحہ ٧١۶ پر منشی ذکاء اللہ دہلوی جامع مسجد دہلی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” دہلی کی جامع مسجد جو شہر کی مسجدوں کی ناک تھی انگریزوں نے ایسا نکٹا بنا دیا کہ سپاہ کی بیرک اس کو بنایا، اس میں پیشاب، پاخانہ سے پرہیز نہ کیا، سکھوں نے خنزیر ذبح کر کے پکائے، کتے جو انگریزوں کے ساتھ تھے وہ درگاہ شریف میں پڑے پھرتے تھے۔”
عہد مغلیہ کی اس اہم تاریخی یادگار کو مفتی صدر الدین آزردہ صاحب نے انگریزوں کے دوسالہ قبضے سے نومبر ١٨۶٣ء میں واگزار کرایا۔
"سنہ ١٨۵٧ء کی جنگ آزادی میں حصہ” صفحہ ٧٢ پر عبدالرحمن پرواز اصلاحی لکھتے ہیں:” مفتی صاحب انگریزی صدالصدور ہوتے ہوئے بھی انگریزوں کے حامیوں کی صف میں شامل ہونے کے بجاے ١٢/ مئی سنہ ١٨۵٧ء کو بہادر شاہ ظفر کے دربار میں شامل ہوئے۔”
بہادر شاہ ظفر کو بھی اس بات کا اعتراف
تھا کہ جو کام دوس
رے نہیں کرا سکتے مفتی صاحب کرا سکتے ہیں، مفتی صاحب میں معاملات سلجھانے کی خداداد صلاحیت تھی، انقلاب سنہ١٨۵٧ء کے وقت بعض مواقع بڑے نازک آئے لیکن مفتی صاحب کی دانش مندی نے ان موقعوں پر معاملہ بگڑنے نہ دیا، ایسے نازک حالات میں ایک مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا تھا کہ ایک گروہ نے قربانی کے متعلق یہ منادی کردی تھی کہ گائے کی قربانی ہرگز نہ ہونے پائے۔شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین مولانا شاہ احمد سعید نقش بندی مجددی دہلوی نے اس گروہ کے خلاف علم جہاد بلند کیا، مفتی صاحب ہی کی کاوش سے یہ مسئلہ حل ہوا اور مسلمان متحد ہو کر انگریزوں کے خلاف سینہ سپر رہے، ان واقعات اور دیگر تاریخی روایات سے مغل حکومت کے ساتھ مفتی صاحب کی ہم دردانہ وابستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اچھی طرح یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ انگریزوں کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔
انقلاب سنہ ١٨۵٧ء کے دوران جنرل بخت خاں روہیلہ جب چودہ ہزار انقلابیوں کی فوج لےکر بریلی سے آغاز جولائی کو دہلی پہنچا تو علماے دہلی کی طرف سے انگریزوں کے خلاف ایک فتویٰ جاری ہوا، اس فتویٰ جہاد پر ٣٨/مفتیان کرام کے دستخط تھے، جن میں مفتی صاحب بھی شامل تھے، یہ فتویٰ "اخبار الظفر” دہلی میں شائع ہوا تھا، وہاں سے اس کی نقل انھیں دنوں ” صادق الاخبار” دہلی میں مورخہ ٢۶/جولائی سنہ ١٨۵٧ء میں چھپی تھی، یہ اخبار نیشنل آرکا نیوز میں محفوظ ہے۔
مفتی آزردہ صاحب کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے جنگ آزادی کے مجاہد اعظم مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی کو یہ مشورہ دیا کہ آپ دہلی کے بجاے آگرہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔پھر آپ ہی نے اپنے خط کے ذریعہ شاہ صاحب کا تعارف آگرہ کے ان زعماء و علماء سے کرایا جو ایک طرف سرکاری حلقوں میں باوقار تھے تو دوسری جانب قومی و ملی کارکنوں کا اعتماد ان کو حاصل تھا،حضرت مفتی صاحب کے تعارفی خط نے اساس و بنیاد کا کام کیا۔
مفتی صاحب کو سنہ ١٨۵٧ء میں انگریزی فوج کے ہنگامئہ فساد میں بہت سخت صدمہ اٹھانا پڑا، تعلق روزگار بھی ہاتھ سے گیا اور تمام جائداد اور املاک بھی جو آپ نے تیس سالہ ملازمت کے دوران جمع کی تھی ضبط ہو گئی بل کہ جہاد کے فتوے کے الزام میں چند ماہ تک جیل خانہ میں بھی بند رہے،چوں کہ آپ کا قصور ثابت نہ ہوسکا اس لیے رہا کر دیے گئے۔ اکیاسی سال کی عمر میں بمرض فالج ١۶/جولائی سنہ ١٨۶٨ء مفتی صاحب کا انتقال ہوا اور چراغ دہلی میں احاطہ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی میں دفن ہوئے۔
مولانا وہاج الدین مردآبادی۔ مولانا وہاج الدین عرف مولوی منو مردآبادی شہر کے بڑے عالم اور رئیس تھے، قومی جذبہ سے سرشار تھے، عوام و خواص آپ کو احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے، عربی، فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی آپ کو قدرت تھی۔ انقلاب سنہ ١٨۵٧ء میں آپ نے مردآباد میں نمایاں کردار ادا کیا۔١٩/ مئی سنہ ١٨۵٧ء کو مردآباد جیل خانہ پر آپ نے ایک ہجوم کے ساتھ حملہ کیا اور سارے قیدیوں کو آزاد کرالیا، مسٹر جان کرافٹ ولسن یہ خبر سنتے ہی روپوش ہوگیا تھا۔
مولانا وہاج الدین نے رام پور کا دورہ کر کے وہاں بھی جہاد اور حریت کی روح پھونکنے کا سرفروشانہ اقدام کیا کیوں کہ نواب رام پور یوسف علی خان انگریزوں کے وفادار تھے، ریاست رام پور کی منجمد فضا میں حرکت پیدا کرنا بہت ہی مشکل کام تھا، پھر بھی قصبوں اور دیہاتوں میں چکر لگا کر آپ نے آزادی کے پیغام پہنچایا اور لوگوں کو تحریک آزادی میں شامل ہونے کی دعوت دیے۔
مرزا ناظم کے بیٹے اور فرخ سیر بادشاہ کے شہزادہ فیروز شاہ جب مردآباد پہنچا تو آپ اس کے دست راست بن گئے۔ مولانا سید کفایت علی کافی اور مولانا وہاج الدین نے مل جل کر مردآباد میں انقلاب برپا کر دیا، شہزادہ فیروز شاہ کی سرپرستی میں ان حضرات نے نواب کی فوج اور انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انقلاب کی ناکامی کے بعد ایک مخبر کی غداری سے مولانا وہاج الدین کے گھر پر رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں عصر و مغرب کے درمیان انگریزوں نے سنہ١٨۵٨ء میں ایک روز دھاوا بول دیا اور گھر کے اندر ہی گولی مار کر آپ کو شہید کر دیا۔
سنہ١٨۵٧ء کی بغاوت کو کچلنے میں انگریزوں نے کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا، چناں چہ علامہ فضل حق خیرآبادی "الثورۃ الہندیہ” میں دل سوز بات لکھتے ہیں: کہ” اس مشکل وقت میں پردہ نشین خواتین پیدل نکل کھڑی ہوئیں، ان میں بوڑھی اور عمر رسیدہ عورتیں بھی تھیں جو تھک کر عاجز ہو گئیں، بہت سی خوف سے جان دے بیٹھیں، اکثر قیدی بنائیں گئیں اور طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار کی گئیں، بعض رذیلوں نے لونڈیاں بنا لیا، بہت سی ایسی غائب ہوئیں کہ پھر نہ تو لوٹ کر ہی آئیں نہ ان کا کچھ پتہ ہی چل سکا، ہزاروں عورتیں اپنے سرپرستوں، شوہروں، باپوں، بیٹوں اور بھائیوں سے جدا کر دی گئیں،شہر چٹیل میدان اور بے آب و گیاہ جنگل بن گیاتھا۔”
ان کے علاوہ بہت سے سرفروشان وطن علما ہیں جن کوشمارمیں لانے کےلیے وافرصفحات درکار ہیں۔
افسوس کے ساتھ مجھے یہ لکھنا پڑ رہا کہ چند سالوں سے ملک ہند میں مسلموں کے ساتھ عصبیت برتی جارہی ہے، ان کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اور بالخصوص گزشتہ روز دہلی کے اہم علاقے جنتر منتر پر شرپسندوں نے ایک ریلی کے دوران جو مسلم مخالف اور اشتعال انگیز نعرے بازی کی انتہائی قابل مذمت ہے، ان لوگوں نے اپنے نعرے میں جن علماے کرام اور مسلمانوں کو مارنے، کاٹنے اور بھگانے کی باتیں کہیں، انھیں معزز(علماے کرام اور مسلمانوں) کی وجہ سے آج ہندوستان آباد اور سر سبز و شاداب ہے، انھیں لوگوں کی وجہ سے آج
پارلیمنٹ
پائدار ہے، تاج محل چمک دار ہے(جس سے حکومت کو کروڑوں روپے ملتے ہیں)اور لال قلعہ قائم ہے۔
ایک انگریز افسر ہنری کوٹن بیان کرتا ہے کہ ” دہلی دروازہ سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ کے دونوں ہی جانب شاید ہی کوئی خوش قسمت درخت ہوگا جس پر انقلاب سنہ١٨۵٧ء کے رد عمل اور اسے کچلنے کے لیے ہم نے ایک یا دو عالم دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا ہو۔ ایک اندازے کے مطابق بائیس ہزار علماے کرام کو پھانسیاں دی گئیں، مسلمان مجاہدین نامی کتاب میں ایک غیر مسلم مورخ لکھتا ہے کہ ” ایک اندازہ کے مطابق سنہ ١٨۵٧ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔سنہ١٨۶۴ء تا ١٨۶٨ء تک انگریزوں نے علما کو ہلاک کرنا شروع کیا، ان تین سالوں میں چودہ ہزار علماے کرام تختہ دار پر چڑھائے گئے، دہلی میں چاندنی چوک کے ارد گرد دور دور تک ایسا کوئی درخت نہیں تھا جس پر علما کی گردنیں نہ لٹکی ہو۔ علما کو سوروں کی کھالوں میں بند کر کے جلتے ہوئے تنوروں میں ڈالا گیا، علما کے جسموں کو تانبوں سے داغا گیا۔
اتنی قربانیوں اور ستم سہنے کے بعد بھی آج شرپسند عناصر مسلمانوں کو غدار وطن اور غیر ملکی کہ رہے ہیں، میں ان سماج کے دشمنوں اور نفرت پھیلانے والوں سے کہنا چاہوں گا کہ” کل بھی ہم محب وطن تھے، آج بھی ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک رہیں گے۔”سب سے تعجب خیز بات یہ کہ اشتعال انگيز،مسلم مخالف نعرے اور زہریلے تقاریر اس پروگرام میں ہوا جس کا نام تھا ” بھارت جوڑو” جب کہ اس تقریب میں سارا کام اس کے برعکس ہوا یعنی بھارت جوڑو نہیں بل کہ بھارت توڑو جیسی باتیں کہیں گئیں اور ملک میں فساد کروانے والے کام کیے گئے۔
اس پروگرام کی سربراہی ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی لیڈر اشون اپادھیائے کر رہے تھے(ان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور نعرے بازی کرنے والوں کو میں پہنچانتا بھی نہیں ہوں)جس کی وجہ پولیس نے انھیں گرفتار بھی کیا لیکن سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے چوبیس گھنٹے کے اندر ضمانت پر رہا ہوگئے۔ہندو رکشا دل کے لیڈر پنکی چودھری برملا نیوز چینلوں پر آکر یہ اعلان کر رہا ہے کہ نعرے بازی کرنے والے میرے لوگ ہیں اس کے بعد بھی ابھی تک یہ گرفت سے باہر ہے جو دہلی پولیس کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
میں اپنے تمام بھائیوں(ہندو،مسلم، سیکھ، عیسائی) سے گزارش کروں گا کہ آپ ایسے زہریلے کیڑوں کی باتوں پر آکر ملک کی صاف و شفاف فضا کو مکدور نہ کریں،بل کہ گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھیں اور اس شعر کے تحت اپنی زندگی گزاریں۔کہ
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
(علامہ اقبال)
دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
(جعفر ملیح بادی)
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انسانوں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
(بشیر بدر)
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
(ڈاکٹر راحت اندوری)