ازقلم: ساجد محمود شیخ، میراروڈ
ہمارے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرکے آزاد ہوئے پچھتر سال ہوگئے ہیں۔ اس آزادی کے حصول کے لئے باشندگان وطن نے بڑی قربانیاں دیں اور ان مسلمانوں کا حصہ نمایاں ہے ۔ سب سے زیادہ شہادتیں مسلمانوں کی ہوئیں ۔ زندان کی تاریکیوں میں سب سے زیادہ وقت مسلمانوں نے بتایا۔ برادرانِ وطن کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور تحریک آزادی کی ہر جدوجہد میں شامل ہوئے مگر جیسے ہی آزادی ملی مسلمان اس ملک میں اجنبی بن گئے ۔ حملہ آور قرار دئیے گئے۔ ملک کے بٹوارے کے نام پر زمین کا ایک چھوٹا سا حصہ مسلمانوں کو تھما دیا گیا۔ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو ملک دشمن کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ ملک میں مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے کی کوشش شروع کردی گئی۔سب سے پہلے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے دور رکھا جانے لگا ۔ پولس،فوج اور دیگر سرکاری محکموں میں مسلمانوں کی نمائیندگی آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی۔ مسلمانوں کی ثقافتی ورثہ کو بھی نقصان پہنچایا جانے لگا۔ مسلم بادشاہوں کے زمانے کی تاریخی عمارتوں کو یا تو توڑ دیا گیا یا پھر نظر کرکے برباد ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ درسی کتب سے مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں کو حذف کیا جانے لگا۔ ملک کے نشاةٍ ثانیہ اور ملک کی تعمیر وترقی میں مسلمانوں کے حصہ کو نظر انداز کرکے مسلمانوں کو حملہ آور اور ہندوؤں کا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اردو زبان جو کہ ہندوستان کی زبان تھی اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھی اس کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کو ساتھ تعصب کی عینک سے دیکھا جانے لگا دھیرے دھیرے اردو زبان کو سرکاری دفاتر سے ختم کیا جانے لگا۔ اُردو اسکولوں اور مدارس کی سرکاری امداد روکی جانے لگی ۔ کئی ریاستوں میں جہاں اردو دوسری سرکاری زبان کا درجہ رکھتی تھی وہاں اردو کی دوسری سرکاری زبان کے درجے کو ختم کر دیا گیا۔ مسلمانوں سے تعصب کا یہ عالم تھا کہ اچھے اور باصلاحیت مسلم کرکٹ کھلاڑیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا وسیم جعفر جیسے مسلم کھلاڑی قومی کرکٹ ٹیم میں اپنی شمولیت کی آس لگائے بیٹھے رہے اور بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گئے کئی کھلاڑیوں کو اچھے پرفارمینس کے باوجود ٹیم سے باہر رکھا گیا۔ مسلمانوں کی معیشت ختم کرنے اور انہیں اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لئے ملک بھر میں ہزاروں فسادات کروائے گئے۔ جن میں ممبئی،بھیونڈی،بھاگلپور ،مظفر نگر،میرٹھ ملیانہ ہاشم پورہ بھیانک فسادات کے علاؤہ گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی بھی شامل ہے۔ فسادات کے بعد سلسلہ شروع ہوا بم دھماکوں کے نام پر مسلمانوں کی بیجا گرفتاریوں کا۔ ملک کے کسی کونہ میں کہیں بھی بم دھماکہ ہو مرنے والے چاہے کوئی بھی ہوں چاہے دھماکہ درگاہوں میں یا مساجد میں ہو یا پھر قبرستانوں میں،گرفتاری صرف اور صرف مسلمانوں کی ہوتی تھی سیدھے سادھے غریب لاچار ومجبور مسلمان،دو وقت کی روٹی کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والے مسلمان ،ہر قسم کے جرائم سے پاک مسلمان دھماکوں کے الزام میں گرفتار کر لیئے جاتے تھے۔ ان قصور مسلمانوں کو ٹاڈا،پوٹا ،یو اے پی اے جیسے سنگین قوانین کے تحت گرفتار کرلیا جاتا جن میں جلد ضمانت بھی نہیں ہوتی تھی نہ جلد مقدمہ شروع کیا جاتا اور برسوں زندان میں اپنے مقدمہ کا نمبر آنے کے منتظر رہنا پڑتا تھا۔ انکاؤنٹر کا سلسلہ شروع ہوا۔ مسلم نوجوانوں کو بدنام کرنے کے لئے انکاؤنٹر شروع کیا گیا۔ اس کے بعد ہجومی تشدّد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملک کے طول و عرض میں گئو کشی کے الزام میں مسلمانوں کو تنہا پاکر ہجوم کے ذریعے مارپیٹ اور جان لیوا حملے شروع ہوگئے۔ ایسے قوانین بنائے گئے جن سے مسلمانوں کو گرفتار کرنا آسان ہو جائے تین طلاق کا قانون اس کی مثال ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ اس درمیان مسلمان ملک سے بیوفائی کا اظہار کرنے لگے اکثریتی فرقہ کی جانب سے مسلمانوں کو نظر انداز کرنے اور بدنام کرنے کے باوجود مسلمان اس ملک کے وفادار بنے رہے ۔ جب جب بھی ملک پر بُرا وقت آیا مسلمانوں نے ملک کا ساتھ دیا جب چین سے جنگ کے وقت پیسوں کی کمی ہوئی تو حیدرآباد کے نظام نے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا جب پاکستان سے جنگ ہوئی تو مسلم فوجیوں نے اپنی جان دے کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی۔ میزائل مین سابق صدر ڈاکٹر کلام نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی کا تحفہ دیا۔
ہر سیاسی جماعت نے مسلمانوں کا محض سیاسی استحصال کیا اور ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا مغربی بنگال میں کمیونسٹوں نے تقریباً دو دہائیوں تک مسلمانوں کے سہارے حکومت کی مگر ان کے دور حکومت میں بھی مسلمان ہمیشہ حاشیہ پر رہے ۔ بہار اور یوپی کے لالو اور یادو کی حکومتیں بھی جو مسلم نواز کے طور پر
مشہور ہوئیں انہوں نے صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا اور مسلمانوں کی بدحالی اور زبوں حالی کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اب جو حکومت آئی ہے وہ کھلم کھلا مسلمانوں کی دشمن ہے مسلم دشمن سیاسی ایجنڈے پر کام کرتی رہی اور اسی بنیاد پر منتخب ہوئی ہے سخت گیر ہندوؤں نے محض بی جے پی کی مسلم دشمنی دیکھ کر اس کو برسر اقتدار لائے ہیں اور 2019 میں تمام شعبوں میں ناکامی کے باوجود اقتصادی بدحالی اور بدانتظامی کے باوجود اس جماعت کو دوبارہ اقتدار سے نوازا ۔ یہ جماعت کھلم کھلا مسلم دشمنی پر اتر آئی ہے ۔ ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں جن سے مسلمانوں کو تکلیف پہچائی جائے۔ سی اے اے اور این آر سی کے ذریعے مسلمانوں کی شہریت مشکوک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان کو ملک سے بیدخل کرنے اور کیمپوں میں پہنچانے کی بات کی جارہی ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو اب یہ بات تسلیم کر لینا چاہیئے کہ 1947 میں جو آزادی ملی تھی وہ ادھوری تھی اور اُن کے حصے کی آزادی ملنا ابھی باقی ہے۔ آزادی کے ثمرات سے محروم مسلمانوں کو مکمل طور آزادی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگا حکومتوں کے ہر ظلم و نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہئے ۔ جب جب بھی مسلمانوں نے کوشش کی حکومتیں جھک گئیں 1985 کا شاہ بانو کیس جو کہ شریعت میں راست مداخلت تھی کے خلاف جب مسلمانوں نے ملک بھر زبردست احتجاج کیا تو حکومت جھک گئی اور پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں شریعت بل منظور کیا گیا۔ گزشتہ برسوں میں جب سی اے اے اور این آر سی جیسے ظالمانہ قوانین لائے گئے تو مسلمانوں نے ملک بھر میں تاریخی احتجاج کیا اور نتیجتاً اس ظالم حکومت کو بھی این آر سی کو ٹھنڈے بستہ میں رکھنا پڑا ۔ مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے حقوق کی لڑائی انہیں خود لڑنا ہوگی نام نہاد سیکولر جماعتیں یہ کام نہیں کر سکتی ہیں ۔مسلمانوں کو متحد ہوکر ہندوستان کے آئین میں دئیے گئے شہری حقوق کو استعمال کرتے ہوئے پُر امن طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہوگا۔