تحریر : محمد رضوان احمد مصباحی
رکن : البرکات ویلفیئر ٹرسٹ، ٹھاکر گنج، کشن گنج، بہار
مقیم حال : راج گڑھ، جھاپا، نیپال
آج وطن عزیز کا ہر حصہ اور گوشہ ترنگا کی خوش رنگی سے خوشنما اور "سارے جہاں سے اچھا” کی فلک شگاف صدا سے گونج رہا ہے اور ہر ایک اپنے آپ میں آزادی کی خوشی محسوس کر رہا ہے کیوں کہ آج ہی کی تاریخ میں ١٥/اگست ١٩٤٧ کو ہمارا ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تھا۔ اور ایک نئے ہندوستان کی داغ بیل ڈالی گئی جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا.
نہ جانے اس آزادی نے کتنوں کی جانیں لی، کتنی ماؤں کو اپنے لخت جگر اور بیٹوں کی قربانی دینی پڑیں، کتنے ہی بیویوں نے اپنے شوہر کو الوداع کہا اور نہ جانے کتنے بھائی اپنی بہنوں سے ہمیشہ ہمیش کے لیے جدا ہوگئے
گوکہ اس آزادی کی خاطر بلا تفریق مذہب و مسلک اور رنگ و نسل ہر ایک نے اس لڑائی میں شرکت کی اپنی جانوں کی قربانی پیش کرکے ملک کے علم اور پرچم کو بلند و بالا کر دیا اور ہمارے ملک کو ان گوروں سے چھٹکارا دلا کر ایک آزاد ہندوستان بنایا۔
مگر افسوس! کہ جس مقصد کے لیے ہمارے آبا و اجداد اور مجاہدین نے اس ملک کو آزاد کیا تھا وہ مقصد فوت ہوتا نظر آرہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس ملک میں آزادی ختم ہوگئی ہے، تاناشاہوں کی حکومت آ گئ ہے، جمہوریت کا گلا ریت دیا گیا ہے، سیکولرازم کو پاؤں تلے دبا دیا گیا ہے۔ رنگ و نسل، مذہب و ملت اور ذات پات کے نام پر آگ بھرکائی جا رہی ہے، اقلیتوں پر حملے جاری ہیں، طرح طرح کے مظالم ڈھا کر اور اختلافات کو ہوا دے کر ایک مذہب کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔ کبھی گاؤ کشی کے نام پر، کبھی لو جہاد کی آگ سلگا کر تو کبھی C. A. A اور N. R. C بل لاکر مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جارہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اتنے امن و شانتی اور اخوت و بھائی چارگی والے ملک کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنا دیا ۔ اقبال نے جس ہندوستان کے بارے میں لکھا تھا :
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اگر آج اقبال بھی َزندہ ہوتے تو وطن عزیز کی یہ حالت دیکھ ان کو ضرور صدمہ پہنچتا اور وہ یہ کنے پر مجبور ہوجاتے:
کہتے تھے جس کو اب تک خلد وجناں ہمارا
لٹنے لگا ہے اس میں اب آشیاں ہمارا
کیونکر کہےگا یارو! درد نہاں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مگر یاد رکھیں مشکل کے یہ ایام بھی گزر جائیں گے اور ہندوستان میں پھر ایک بار جمہوریت اور سیکلورزم کا جھنڈا بلند ہوگا کیوں کہ حکومتیں تو آتی جاتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ آج بھی ہندوستان میں ایسے امن پسند لوگ موجود ہیں جو امن کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں۔ آپسی مل جل، محبت و پیار اور امن وشانتی ہی ہمارے اتحاد اور ایک ہونے کی سب سے بڑی طاقت وقوت ہے کیوں کہ:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیڑ رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں میں
ان شاء اللہ العزیز ہمارے اسلاف کے خون رائیگاں نہیں جائیں گے، تاناشاہی حکومت جلد ہی ختم ہوگی اور جمہوریت کی طاقت دوبارہ ابھر کر سامنے آئے گی مگر شرط یہ ہے کہ پہلے ہم اپنے اندر کی آپسی خانہ جنگی نکل کر باہر جھانکنے کی کوشش کریں اور حالات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہواؤں کا رخ کس طرف ہے ۔
اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے.