ازقلم: محمد یوسف نظامی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
اگردنیا کی تاریخ میںکسی ملک کی آزادی کےلئےسب سےلمبی جدوجہدکی لڑائی تھی”تووہ تحریک آزادی ہندکی لڑائی تھی”جوہندوستا نیوں نےخود کوبرطانویچنگل سے آزادہو نے کےلئے لڑی تھی۔ہندوستانی مجاہدیننےا پنی آ نکھوں میں جسآزادہندوستان کاخواب سجارکھاتھا اوراس کے لئے دام،درم، قدم،سخن اورسبکچھ نچھاورکرد یا اس خواب کوشرمندہتعبیرہونےمیںاورآزادیکی دلہن کو برطانوی حکومت کی چوکھٹ سےہندوستانیوں کی چوکھٹتک رخصت ہوکرآ نےمیں تقریبانوے(90)سال لگ گئے،اوراس کے لئےنہجا نے کتنےمجاہدین کوا پنیجان،مال اوراولادتککی قربانیدینیپڑی۔یوں توابتداءمیںوقتایافوقتا بہتسےحکمراں اور قبائل نےاپنےاپنےعلاقوں میں آزادی کی بگل بجاتے رہتے تھے اور برٹش حکومت کےخلاف بغاوت کرتے رہتے تھے۔مگرآزادیکی سب سےبڑی بغاوتکاطوفان1857ءمیں اسوقتآئیجبشمالہندکےمجاہدینوباشندےبہادرشاہظفر ثانی کے پرچم کے ماتحت آگئے اور ہندوستان کی آزادی کے لئے بغٰیر تفریق مذہب وملت ایک پلیٹ فارم پر آکر اتحاد کےسنہرےباب کاآغازکیا۔اسباباتحادمیںآزادیکیکہانیتحریرکرنےکےلئے1857ء میںانڈیننشنلکانگریستنظٰم کی بنیاد رکھی گئی،جسنےبرٹشگورنمنٹسے1930ء میں ہندوستان کی مکمل آزادی کی مانگ کی اورآخرکارسختلڑائیوں،قتل وغارت گری اورطویل جدوجہد کےبعد 15 اگست 1947ء میں ہندوستانی پرندوں کو غلامی کے پنجروں سے رہائی کا پروانہ ملا-اوراسطرحہندوستاندنیاکے نقشے پر ایک آزاد جمہوریت والا ملک بن گیا۔جس کی آزادی میں ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے شرکت وحصہ داری لی،اور اپنے اسلاف کے خواب کوشرمندہ تعبیر کردیکھایا،اس کے لئے حکومت ہندنےتقریبا ہرایک کو اعزاز واکرام سےنوازا اور خراج عقیدت بھی پیش کیا۔اوراب تک حسب معمول ہر سال 26 جنوری اور 15 اگست کو تمام ہندوستانی باشندے جشن کی شکل میں نم آنکھوں سے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے آرہے ہیں۔
سوتیلا برتاؤ کیوں؟
ہندوستانآزادی کےبعدایک جمہور یت پسندملک قرار پا یا،اور آزادی کی جنگ میں گنگاوجمنی تہذیب کی پوری جھلک دیکھنےکوملی،ہندوستان دنیاکاسبسےبڑاجمہور یت والا ملک ہے،جہاںفیصدی طورپرمسلم قوم دوسرے مقام پرہے،اسبات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اس ملک کےمسلم مجا ہد ین آزادی نےا پنےد یگرمذہبی بھائیوں کےکندھےسےکندھے ملاکرہندوستان کی آزادی میںحصہ لیااور اپنے خون سےگلستان ہند کو سیراب کرکے غلامی کی زنجیروں سے ہندوستان کو آزاد کرایا۔اس کے باو جودمسلم مجا ہد ین آزادی کےساتھ سوتیلا برتاؤ کیاگیا(سوائے چندمجا ہد ین مثلا اشفاق اللہ خان،بیر عبدالحمید ،آزاد اورسر سید وغیرہ)اور ان کےآزادی کےکارناموںکوصفحہ تاریخ اور کتب کے سرورق سے مٹادیاگیااور ابھی بھی کوشش جارہی ہے۔ساتھ ہی ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے وجود کاداغ مسلم قوم کے ماتھے کا کلنک بنادیا گیا جس کا نتیجہ یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
آج آزادی کے تقریبا 75سال بعدبھی آزادی کےجشن میں صرف انھیں چنندہ مسلم مجاہدین کو یادکیاجاتا ہےجن کو ہم اپنی انگلیوں کے پوروں پر شمارکرسکتے ہیں۔یا جن کےکارنامےاتنےروشن ہے کہ لاکھ کاوشوں کے باوجودانھیں بھولایا،یامٹایانہیں جاسکتاہے،یہاں تک کہ تاریخ کی کتابوں میں بھی صرف چندمسلم لیڈران مثلا سرسیداحمدخان،خان عبدالغفارخان،مولاناابوالکلام آزاد اور اشفاق اللہ خان وغیرہ کے کارناموں اور جدوجہد کو بیان کیاجاتاہےجوکہ ناکافی ہیں اور باقیوں کو پس پشت ڈال دیاگیا۔
فراموش قوم!
کہا جاتاہےکہ جوقوم اپنے اسلاف کےکارناموں اور ان کےطو روطریقوں کوفراموش کرد یتیہے وہ قوم بہت ہی جلدتنزلی وپستی کاشکار ہوجاتی ہے۔(جیساکہ آج مسلم قومکاحال ہے)اس لئےہمیں ان کی زندگیوں کو اپنے لئے اسوہ حسنہ بناناچاہیےاور ان کےکارناموں سے درس عبرت حاصل کرناچاہئے،غیروں نے توہمارے اسلاف کے کارناموں کو فراموش کردیاہے حتی کہ آئے دن ان کے نام ونشان کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناپاک جدوجہد وسازش کررہے ہیں توکیاہم بھی انھیں بھولادیں اور ان کے نشانیوں وہستیوں کو یوں ہی مٹنے دیں اور ہم کھڑے تماشادیکھیں؟۔
نہیں! ہم ہرگز ایسانہیں ہونے دیں گے ،اسلاف کی شخصیات کو مسخ کرنے کی ہمارا دشمن چاہئے کتنی ہی کوشش کرے اور کتنی ہی طاقت لگادے پھر بھی ہم انھیں ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے ،یہ ہمارا عزم مصمم ہے۔
چنانچہ ہمیں مسلم قوم کی نئی نسل کو ہندوستانی مسلم مجاہدین آزادی کی کارکردگیوں،احسانات،کاوشوں اور حیات طیبہ سے روشناس کرانے کےلئے اپنےاسکولوں اور گاؤں وغیرہ مٰیں 15 اگست و 26 جنوری جیسے آزادی کےجشن کے موقعوں پر محٖفلوں کو منعقد کرناچاہئے۔جس میں ایک ایک مسلم مجاہدین کی زندگیوں کے پہلوؤں کو اجاگر کرنےاور ہندوستان کی آزادی میں ان کی کارکردگی کو عوام کی خدمت میں پیش کرنے کی ادنی سی کوشش کرنی چاہئے۔تاکہ یہ ہماری جانب سےمجاہدین آزادی کےحق میں یہ صدقہ جاریہ بھی ہوسکے اور حتی المقدوت ان کے احسانات کو کم کرنے کی ناممکن کوشش اور ذریعہ بن سکے۔حالانکہ یہ بات فارسی کا مقولہ” زمیں ٹلت، زماں ٹلت مگت مبنی نمی ٹلت” کے مصداق ہے جوکسی بھی حال میں ممکن نہیں ہے،کیونکہ جو تحٖفہ مسلم مجاہدین نے ہمیں دیاہے ہم اپنی زندگی جان،مال قربان کرکے بھی اس کابدلہ چکانہیں سکتے ہیں،پس ہمارے لئے اتناہی کافی ہےکہ ہم اپنے اسلاف ومسلم مجاہدین آزادی کو وقتافوقتا یاد کرتے رہیں اور ان کے زندگیوں کی کہانیوں کو بیان کرتے رہیں تاکہ نئی نسل کو بھی ان کی کارگزاریوں سے آشنائی ہو اور آزادی کی اہمیت سے واقف ہوں۔ڈاکٹر راحت اندوری آزادی کی کہانی اپنی شاعری میں یوں بیان کرتے ہیں۔ ع
سبھی کاخون ہے شامل یہاں کے مٹی میں
کسی کے باپ کاہندوستان تھوڑی ہے