آج چھوٹی دیوالی ہے۔ یہ صرف آج 3/ نومبر 2021 علی الصباح کا ملکی سطح کا ٹیوٹر ٹرینڈ ہی نہیں بلکہ حالیہ زمانے میں ہمارے ملک کے ڈیولپ مکس ہندوانہ کلچر کا ایک بدنما رخ ہے۔
خدا غارت کرے ان سیاسی بازی گروں کو جن کی جمن گیری نے اکثریت کی چاپلوسی میں مذہبی تیوہاروں کی شبھ کامنائیں پیش کر کر کے ملک کا تہذیبی ورثہ اس قدر تہس نہس کردیا ہے کہ اب کی نسلوں کے لیے کسی بھی مذہب کی مذہبی شناخت والے تیوہار بھی مخلوط کلچر کا حصہ بن چکے ہیں اور ہر دن گئے جیسے جیسے یہ کلچر ڈیویلپ ہو رہا ہے، نہ صرف یہ کہ دینی شناختیں گم اور مذہبی غیرتیں کم ہوتی جا رہی ہیں بلکہ متعصب اکثریت کو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی بہانے اپنی بھڑاس نکالنے کا بھی موقع مل ہی جاتا ہے۔
کیا ہولی کی شبھ کامنائیں، کیا دیوالی کی مبارک بادیاں، کیا کرسمس کا وش اور کیا عید کی تہنیتیں، کس مذہب کا کون سا تیوہار ہے، جو آج صرف اس مذہب کے ماننے والوں تک محدود رہ چکا ہو۔ اپنی سیاست چمکانے اور شہر کی گلیوں میں اپنی ہورڈنگس آویزاں کرنے کے لیے سیاسی رہ نماؤں نے جس طرح مذہبی تیوہاروں کو تہذیبی رنگ دینے کی کوشش کی ہے اور آہستہ آہستہ اسے ایک مکمل کلچر بنا ڈالا ہے، اگر اس پر وقت رہتے ہوئے بند نہ باندھا گیا تو شاید آنے والے زمانے میں ایمان و کفر کے معیارات بدل چکے ہوں گے اور اتنی دیر بعد مزاج اس قدر بدل چکا ہوگا کہ اپنی غلطی تسلیم کرنا تو دور اور اگر کوئی کسی کی اصلاح کرنا چاہے گا اور اسلاف کی کتابوں سے توبہ و تجدید کے فتوے دکھانا بھی چاہے گا تو شاید ہمیں لگے گا:
اسلام بڑا سخت ہے۔ تھوڑی موڑی تو گنجائش ہونی ہی چاہیے۔ ہمارا مطلب یہ نہیں ہوتا اور یہ تو کلچرل ہے وغیرہ۔
اس ناحیہ سے دیکھا جائے تو مذہب پسندوں کے لیے یہ وقت شاید اس سماجی کلچر کی اصلاح کے لیے سب سے موزوں وقت ہے، ورنہ جس طرح آج آداب بلکہ گڈ مارننگ اور گڈ آفٹر نان کی جگہ نمستے اور نمشکار بولنا تقریباً ہر سرکاری مسلمان نے اپنا ایک عام کلچر بنا لیا ہے، ویسے ہی آنے والے زمانے میں ہر گھر میں کوئی سلمان ہولی کھیل رہا ہوگا اور کوئی شاہ رخ دیوالی منا رہا ہوگا۔
سیاست کے پیدا کردہ اس کلچر سے سب سے زیادہ نقصان بہر صورت ان خربوزوں کا ہے جو دو دھاری چھری سے آتے میں بھی کٹ رہے ہیں اور جاتے میں بھی۔
ملک کے موجودہ نفرت بھرے ماحول کے تناظر میں ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس جمن گیری کو صرف ہم ہی پروموٹ کر رہے ہیں، ورنہ ہمارا حریف دن بدن اپنے مذہبی تشخص کے تحفظ اور اس کے احیا کے لیے نہ صرف یہ کہ فکری طور پر کوشاں ہے بلکہ عملاً بھی جد و جہد کر رہا ہے۔
یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ گزشتہ ستر سالوں سے وطن دوستی ثابت کرنے کی طرح اس طرح کے سد بھاونا/ بھائی چارے/ قومی یک جہتی/ اتحاد کے تمام تر پروگراموں کی ذمہ داریاں بھی بے چارے نا تواں شبراتیوں کے سر ہی آتی ہیں۔
پرسوں کوٹہ کے رام گنج منڈی سے جے پور آتے ہوئے راستے میں واقع سوائی مادھوپور ریلوے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکی، پوری بوگی میں اتنی زور سے جے شری رام کے نعرے گونجے کہ گھبراہٹ کے ساتھ آنکھ کھل گئی۔
پچھلے ایک ہفتے سے دیوالی کی تیاری میں پرانے جے پور کو جس طرح دلہن بنایا گیا ہے، دیکھتے ہی بنتا ہے۔
آج احمد آباد کی گلیوں میں نو عمر آوارہ بچوں کو جس طرح پٹاخے چھوڑتے دیکھ رہے ہیں، ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے بھلے دیوالی کی ابتدا ہندو مذہب میں ہوئی ہو لیکن اس کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داریاں نوخیز مسلم بچوں کے سر ہے۔
پتنگ کے موسم میں پتنگ بازی کے شوق کی تکمیل کے بہانے اس تیوہار کو بھی مسلمانوں نے جس طرح ہائی جیک کیا ہے، وہ مزاج بھی واضح طور پر یہ درشاتا ہے کہ ہماری مذہبی غیرتیں کس قدر بیدار، ہمارے شوق کتنے معصوم، ہماری ادائیں کتنی پیاری اور ہماری تربیت کتنی پاکیزہ ہے۔
نیشنل ازم کے نام پر تراشیدہ نئے بت کے متعلق فکر اقبال کا تراشیدہ یہ شعر اس تہذیب نوی پر کتنا سٹیک منطبق ہوتا ہے۔
یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبَوی ہے
تحریر: خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین: تحریک علمائے ہند، جے پور