تحریر: محمد عباس الازہری
انڈین مسلمانوں کی نمائندگی ہر شعبے میں کم ہوتی جا رہی ہے ! اس کے وجوہاب و اسباب پر ذمہ دار حضرات کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور مستقل لائحہ عمل طے کرنا وقت کا تقاضہ ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ خواص یا عوام, مشائخ یا علماء ,مسلم لیڈران یا دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے مسلم حضرات؟ متعدد و مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے سنی ,دیوبندی ,اہل حدیث ,شیعہ وغیرہ آخر کون لوگ ہیں ؟ ہر کوئی اپنے اپنے مکتبِ فکر میں تھوڑا بہت کام کر رہا ہے لیکن ہر مکتبِ فکر میں تعصب وتشدد کے جراثیم داخل ہو چکے ہیں ,وہابی دیوبندی اور اہل حدیث میں اختلافات کی خبریں آتی رہتی ہیں اور ایسے ہی شیعہ اور ایسے ہی سنی بریلوی کے درمیان اختلافات کی خبریں آتی رہتی ہیں اور "مسلم پرسنل بورڈ ” جس میں کبھی تمام مکتبِ فکر علماء ہوتے تھے اب ایک اس پر ایک مکتبِ فکر کی اجارہ داری ہے ! اور یہ بورڈ اب اخباری صرف بیانات پر تکیہ کیے ہوئے ہے ! ابھی جلدی ہی دہلی میں دنگا ہوا پھر تریپورہ میں فسادات ہوئے اور آگے بھی کہیں دنگا و فسادات ہوسکتے ہیں کیونکہ شر پسند عناصر شر میں کافی آگے بڑھ چکے ہیں اور اب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بولنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور خود انڈین ٢٠ فیصد مسلمانوں کے درمیان اختلاف ,عداوت ,حسد ,نفرت اور تعصب اور امیری و غریبی ,ذات و پات کو لے کر امتیاز و تفریق کا بازار گرم ہے اور خلوص و للہیت کا فقدان نظر آ رہا ہے الا ماشاء اللہ تعالی ۔مذہبی رہنما مذہب کے نام پر مذہب پر ذاتی مفادات کو مقدم رکھے ہوئے ہیں اور مسلم لیڈران قوم و ملت کے نام پر قوم و ملت سے زیادہ "ذاتی مفادات” کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی طرح چھوٹا بڑا بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھلنے کے لیے تیار ہے ! چھوٹا ہے تو چھوٹا گھوٹالہ کر رہا ہے اور بڑا ہے تو بڑا گھوٹالہ کرنے کی تاک میں لگا ہوا ہے اور دوسری طرف شر پسند عناصر منظم طریقے سے انڈین مسلم کو انڈیا کا "نیا دلت و اچھوت "بنانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور دھیرے دھیرے کامیاب ہو رہے ہیں اور انڈین میں سب کچھ ممکن ہے اگر شک ہو تو ماضی کے اوراق پلٹیں ۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔