سیاست و حالات حاضرہ

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

ازقلم: محمد آفتاب عالم مصباحی (سیتامڑھی)

تاریخی داستان و واقعات اس بات کے آئینہ دارہیں کہ جب مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کو اپنا شعار زندگی بناکرعملی وعلمی میدان میں اپنا سکہ جمایا؛ تب پوری دنیا کو اپنے زیر اثر کر لیا تھا ۔ اپنے اعلی ظرفی اور پاکیزہ سیرت کا جوہر دکھاکر اپنا مطیع وفرماں بردار بنالیا تھا ۔ صاحب علم وفضل نے علم وحکمت کے خزانوں کو صرف اپنے گھروں اور درس گاہوں تک محدود نہیں رکھا، بلکہ دنیاکی پسماندہ قوموں کو بھی استفادہ کرنے کاموقعہ فراہم کیا۔ اس وقت کے اغیار نے میلوں کاسفر طے کرکے ہماری دانش گاہوں سے باقاعدہ تعلیمات حاصل کیں۔ مسلمانوں نے اپنے نئے علوم اورحیرت انگیز ایجادات سے پوری دنیاکو روشناس کیا۔ حتی کہ عروج وترقی کا ایساسبق پڑھایا، جس پرعمل پیرا ہوکرپسماندہ قوم بھی کامیابی کامینارہ چھوگئیں ۔ لیکن آج وہی قوم مسلم کے حالات کو کھنگالا جائے تو خون کے آنسو رونا آتا ہے۔ وہ کس قدر انحطاط کا شکار ہورہی ہے۔ جس قوم نے علوم وفنون کے دریا بہائے آج وہی دوسرے کی محتاج ہے۔ وہی قوم جو دنیا کی عظیم طاقت بن کر ابھری تھی، آج ظالم اور سفاک طاقتوں کے سامنے بے سروسامان نظر آرہی ہے۔ یہ وقت کا بہت بڑا سانحہ ہے؛ جس کےمضمرات کا جاننا نہایت ضروری ہے۔
آج مسلمانوں کے اندر خام خیالی عام ہوتی جارہی ہے۔نظر وفکر کو وسیع وعریض کرنےکے بجائے اس میں تعطل کے شکار ہورہے ہیں ۔ ساتھ ہی دنیا کی رنگینیوں اور لایعنی کاموں میں خود کو ڈال رکھا ہے۔

ہرفردمسلم صرف اپنی ذات اور مفاد کے پیش نظر زندگی گزار رہاہے، نہ تو قوم وملت کی نشرواشاعت کے لیے تگ و دوکرنے کا وقت ہے اورنہ ہی اپنی شریعت کی حفظ وبقاکی خاطر کوئی جوش وجذبہ ہے۔علمی، ثقافتی ، سیاسی، اقتصادی اور سائنسی میدان میں غیر کے مقابل مسلمان تنزل کی راہ پر گامزن ہے۔ صرف حب جاہ ،یا حب مال کی لالچ میں اپنی سرگرمی دکھا رہاہے۔ ذاتی مفاد واغراض کا غلبہ اس قدر ہوگیاہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کےقتل ہونے والی تعداد غیروں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ معمولی سی سیم وزر کی آڑ میں اپنی ضمیراورتشخص کو بیچ رہاہے۔ نیتوں میں خلوص کی جگہ فتور داخل ہو گیاہے۔ مسلم معاشرہ رہن سہن، تہذیب وتمدن، انداز فکرونظر، مذہبی شعار اورمعاشرتی رسوم میں دوسرے کے پیروکار اور ہم شکل ہوتاجارہاہے۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارا طرز عمل اس کےطریقہ عمل سے بلکل جداگانہ ہو۔ عبادتوں سے حلاوت اور لذت دور ہوگئی ہے، اس کی جگہ ریا اور دکھاوا حلول کرگیا ہے۔ مسلمانوں کا دینی ملی اور سماجی شعور میں دیمک لگ گیاہے۔ خشیت الہی اور شریعت کا پاس ولحاظ دلوں میں جذب ہونے کے بجائے ، دنیاداروں کا خوف وہراس داخل ہوگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہرشعبہ میں شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہاہے۔ کیوں کہ یہ سب چیزیں دین اسلام سے الگ ہیں؛ اور اہل اسلام کی سربلندیاں اسلام سے وابستہ رہنے سے حاصل ہوتی ہیں ۔
وقت کا جبری تقاضا یہ ہے کہ مسلمان عظمت رفتہ کی بازیابی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔ اگرمسلمانوں کے درمیان اعلی خیالات پیدا ہوجائیں، اور وہ غیروں کے پیچھے بھاگنا چھوڑدیں ، نیتوں میں اخلاص بھرلیں اورمسلم لیڈر وحکمراں میں تھوڑا بھی جوش وجذبہ پیدا ہو جاۓ، تو پھر بلاشبہ یکے بعد دیگرے ہرمیدان میں فتح و کامرانی نصیب ہوگی اور کامیابی قدم چومے گی۔ اسیرکی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔ مایوسی امید میں، شکست کامیابی میں، ذلت عزت و سربلندی میں اور اختلاف ونفاق وحدت ویکدلی میں تبدیل ہوجائیں گی۔

یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو روح کو تڑپادے اور قلب کو گرمادے