ازقلم: حسین قریشی
شعبہَ اردو DIET بلڈانہ، مہاراشٹر
اجتماعیت زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ زندہ اقوام ہی اپنی ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کی امداد کرتی ہیں۔ دین کے ساتھ اپنی دنیا بھی سنوارتی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے کے کاموں کو منصوبہ بند طریقوں سے مکمل کرتی ہیں۔ ایسی اقوام ہی مشوروں ، تجربات اور رہبری سے مستفید ہوتی ہیں۔ مذہبِ اسلام میں نماز با جماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ہم مسلمانوں کو متحد رہ کر کام کرنے کا موثر و مفید اشارہ ہے۔ اسی طرح جمعہ کے دن محلے بستی کے تمام مسلمانوں کو یکجا ہونے کا حکم ہے۔ تاکہ محلے والے آپس میں ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ عید کےموقع پر تمام گاؤں، شہر کو ایک جگہ بلایا تاکہ ہم سب اجتماعیت کی اہمیت سمجھکر اس پر عمل کرے۔ دیگر دنیاوی کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ ملکر ترقی کے منازل طے کرے۔ یہی نہیں حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحد کیا۔ عید بہت خوشی کا دن ہوتا ہے ۔ ایہ کافروں کے لئے سبق بھی ہے اور خوف بھی۔ س دن بھی اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ ہم تمام ایک جگہ متحد ہوکر اجتماعیت کے ساتھ عبادت کرے۔ ان تمام افعال سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اتحاد و اجتماعیت دونوں جہان کی خوشحالی اور کامیابی کا راستہ ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں بارہا اجتماعیت کی تلقین کی ہے۔ ایک جگہ ارشادِ خداوندی ہے جسکا مفہوم ہے کہ "اللہ تعالیٰ کی رسٌی کو مضبوطی سے تھام لو، آپس میں ملکر رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو افتراق و انتشار سے بچو۔” اسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارے اسلاف نے دنیا میں اسلام کے پرچم کو بلند و بالا کیا۔ حکومتیں حاصل کی۔ مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے منصوبے بنائے۔ اجتماعیت کی راہ پر سوار ہوکر دنیا میں مسلمانوں نے اپنا لوہا منوایا وسیع اور طویل مدتی حکومتیں قائم کی۔ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سلطنتیں زوال پزیر بھی اجتماعیت کو ترک کرنے کےسبب ہی ہوئی۔ چاہے وہ خلافتِ عباسیہ ہو یا پھر خلافتِ عثمانیہ (1266 سے 1922ء) ہو۔ انھیں اندرونی بغاوت نے ہی نست و نابود کیا۔ یہی نہیں 1206ء سے 1857ء تک مغلوں کی حکومت بھی انتشار کا شکار ہوتے ہوئے دم توڑا۔ "اجتماعیت” زندہ قوم کی عیاں نشانی ہے۔ جس میں قوم کی ترقیاتی منصوبوں کو اعلیٰ افراد،مفکرِ قوم و ملت، دانشوروں کے تجربات ، انکی اہلیت و قابلیت سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ فرد کو چاہیے کہ خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔ بلکہ سماج ، برادری اور خاندان کے ساتھ گردانے۔ ہم سب ایک ہے۔ ہمیں ملکر سب کی فلاح و بہبودی کے کارنامے انجام دینے ہیں۔ اسی سوچ سے "اجتماعیت” کا جذبہ پروان چڑھتا ہے ۔ ہمیں سب سے پہلے اجتماعیت کو دل سے تسلیم کرنا ہے۔ اجتماعیت میں ہمیں اپنے قائد و رہنماؤں کے مشوروںں کو دل سے قبول کرتے ہوئے اس پرعمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ دوسروں کو اپنا ماننا ایک بڑے وسیع القلب امر ہے۔ اسے سمجھے، قبول کرے اور پھر اسکی نشوونما کرنے کی کامیاب کوشش کرے۔ جس سے نہ صرف ایک فرد بلکہ قوم و ملت کی ترقی ہوگی۔ ہمارے مسائل سلجھینگے۔ کیوں کہ اجتماعیت شخص کو ایک رہبر،ایک قائد یا ایک امیر عطا کرتی ہے۔ جس کے تابع انسان اپنے حال کر دیتا ہے۔ سماج یا قوم میں موجود ہر اقسام کے افراد کی شمیولیت اجتماعیت میں ضروری و لازمی ہے۔ تاکہ تمام قوم کو انکی صلاحیتوں ،قابلیتوں اور تجربات سے استفادہ حاصل ہو۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں،بیرونِ دریا کچھ نہیں
اجتماعیت افراد کی مذہبی ,سماجی، سیاسی اورمعاشی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ یہاں ذاتی مشورے اور شخصیت کو بالائے طاق رکھنا ہوتا ہے۔ اجتماعیت کا جو فیصلہ طے پائے اسے دل سے قبول کرنا بڑتاہے۔ اس میں خیر و برکت بھی ہے۔ اسی میں کامیابی و کامرانی ہے۔ انفرادی شخص کے ساتھ شیطان ہوتاہے۔ اجتماعیت سے شیطان ڈرتا ہے۔ جہاں ایک سے ذیادہ لوگ جمع ہو وہاں سے شیطان ملعون راہِ فرار اختیار کرجاتا ہے۔ اجتماعیت سے جنت کا حصول ہوتا ہے۔ آج کے حالات کا معائینہ و مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے دیگر چھوٹی چھوٹی اقوام نے اس موثر نسخے کو اپنا لیا ہے۔ چاہے وہ الگ بھی رہے مگر اجماع کے فیصلے پر سرِ خم تسلیم کرتے ہیں۔ انھیں مشورہ کسکا تھا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ آج پھر ہمیں اجتماعیت کو دل سے اپنانے کی ضرورت ہے۔آج پھر اجتماعیت چیخ چیخ کر ہمیں پکار رہی ہے۔ مجھے اپناؤ اور حالات درست کرنے کی راہ اختیار کرو۔ اس کی ابتداء ہمیں اپنے گھر سے کرنا ہے۔ اپنے گھر میں دو تین چار جتنے افراد ہیں۔ سب ملکر رہے۔ اسکے بعد محلہ شہر ملک میں یہ اجتماعیت کی لہر دوڑےگی اور ہم پھر سے اسلاف کے راستے پر گامزن ہوکر دین و دنیا کی ترقی حاصل کرینگے۔ اجتماعیت کو اپنانے کی پکی نیت و ارادہ کرے۔
بہت بہت شکریہ