ازقلم: محمد ایوب مظہر نظامی
صدر مدرس: جامعہ غریب نواز نبی نگر طیب پور کشن گنج (بہار)
رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری نے کہا تھا:
"اردو کے دشمن اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو ہندوستان کی سب سے بڑی زبان ہے اور سب سے زیادہ خوبصورت اور لطیف ہے، اردو دشمنوں کو حقیقتاً اپنے گنوارپن پر غصہ آتا ہے”
مولوی سید احمد دہلوی کی "فرہنگ آصفیہ” کی اشاعت سے قبل حالی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
"اردو لغت لکھنے کا اہل ہونے کے لئے دو شرطیں ضروری ہیں، ایک تو یہ کہ لکھنے والا دہلی کا ہو، دوسری شرط یہ کہ ڈکشنری لکھنے والا شریف مسلمان ہو، کیونکہ خود دہلی میں بھی فصیح اردو صرف مسلمان کی زبان سمجھی جاتی ہے، ہندؤں کی سوشل حالت اردوئے معلٰی کو ان کی مادری زبان نہیں ہونے دیتی”
( کلیاتِ نثر حالی، ص ٢٠٣ )
مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زبان کا بھی اپنا مذہب ہوتا ہے، اردو کے ان مسند نشینوں نے انیسویں صدی میں مذہب کے نام پر لسانی گروہ بندی کا جو شوشہ چھوڑا تھا اس نے بیسویں صدی کے اوائل میں پورے برصغیر کو اپنے لپٹ میں لے لیا، یہ خیال عام ذہنوں میں پروان چڑھنے لگا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی زبان "اردو” اور ہندو مذہب کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے "ہندی” ہے، اگر میں یہاں اپنے قلم کو جرآت مندی کی ترغیب دوں تو وہ لکھنے میں زرا بھی تأمل نہیں کرے گا کہ اردو کے تحفظ اور اس کی پرورش کا خراج وصول کرنے والے ان ادباء نے آج سے دو صدی پیشتر بنام مذہب لسانی حد بندی کا مریضانہ نظریہ پیش کرکے اردو کے بال و پر کتر دئیے اور وہ تدریجاً روبہ زوال ہوتی چلی گئی، اور ازادئ ہند کے بعد جب ہندوستان کی قومی زبان کا مسٔلہ اٹھا، تو اردو کو اس اعزاز سے محروم رکھ کر ہندی کو قومی زبان کی حیثیت سے عزت بخشی گئی، اور یہاں سے ہی اردو عروج و ارتقاء کے سارے راستے مسدود کرکے اسے اپاہج بنا دیا گیا، ، ظاہر ہے جب ملک تقسیم ہوا تو زبان بھی تقسیم ہوئی،دلوں میں کدورت نے جگہ بنانی شروع کی، عداوتوں کو پنپنے کا موقع ہاتھ لگا، اور پھر موجودہ ہندوستان میں حکومتی سطح سے عوامی سطح تک اردو کو نظرانداز کرنے کی مہم تیز ہوگئی، اردو کے لئے معشیت کے دروازے بند کر دیے گئے، اور جب اردو پسندوں کا طبقہ اٹھتا چلا گیا اور اس کی جگہ مسلمانوں کی نئی نسلوں نے سیاست اور سماج کی زمام سنبھالی تو ابتدائی سطح سے اردو کے ساتھ نظر اندازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے کان اپنی مادری زبان سے نا آشنا رہ گئے، تقسیم ہند کے بعد اردو کے لیے جب صورتحال ابتر ہوگئی اور اردو والوں نے محسوس کیا کہ اگر ہندؤں کی زبان ہندی ہے، اردو نہیں، تو ہندؤں کے زیرنگیں اردو کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی،پھر ہندؤ کیا مسلمان کیا، اردو پسندوں کا ایک بڑا طبقہ اٹھا اور اردو کی "زندہ لاش” کو اٹھا کر جب کہ وہ اپنے مدفن کی تلاش میں سرگرداں تھی، یہ کہنا شروع کیا کہ،اردو زبان مذہبی سرحدوں سے ماورا ہے، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی،
لسانی افراط وتفریط کی اس ہنگامہ آرائی میں جب ہم مدارسِ اسلامیہ پر اپنی نظر ڈالتے ہیں تو مسرتوں سے دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے کہ مذہب کی اشاعت اور اس کی توسیع کے نام پر جن مراکز کا وجود عمل میں آیا تھا عملی طور پر انہیں مراکز نے اردو کو اپنے جِلو میں سمیٹے رکھا اور مدارس کے قیام کی تاریخ سے آج تک کئی صدی گزر جانے کے باوجود لسانی کشمکش سے بے نیاز ہوکر اردو کی پرورش میں مصروف ہیں، جہاں اردو کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے نہیں ہوتے، جہاں اردو کی تاریخ اور اس کے ادبی ارتقاء کے طبقاتی مراحل پر گفتگو نہیں ہوتی، اور نہ ہی اردو کو نصاب میں شامل کرکے اس کی اشاعت کا غلغلہ بلند کیا جاتا ہے، لیکن ابتدا سے لے کر انتہا تک صرف، نحو، بلاغت، فلسفہ، منطق، عقائد، کلام، فقہ، اصول فقہ، تفسیر، قرآن اور احادیث کی افہام و تفہیم کے لیے وہاں اردو کو ہی ذریعۂ اظہار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اسی زبان میں لاکھوں مدارس میں ان کے دفاتر کا نظام چلتا ہے، مدارس کے تعلیم یافتہ اسی زبان میں مراسلت کرتے ہیں، درخواستیں دیتے ہیں، اسی زبان میں مقابلہ جاتی تحریری و تقریری بزمیں منعقد کی جاتی ہیں، برصغیر کے طول و عرض میں روزمرہ اسی زبان میں عظیم الشان کانفرنسیں اور جلسے ہوتے ہیں، سیمینار کرائے جاتے ہیں، مدارس کے فارغین اسی زبان میں مختلف موضوعات پر مضامین اور مقالے تحریر فرماتے ہیں، فتاوے کے صدور میں اسی زبان کا سہارا لیا جاتا ہے، بے شمار مذہبی موضوعات پر اسی زبان میں کتابیں لکھی جاتی ہیں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور مدارس اور خانقاہ کے مذہبی و روحانی ماحول کے بطن سے ہزاروں کی تعداد میں مذہبی رسائل وجرائد بھی منظر عام پر آرہے ہیں ایسے میں مذہبی عقیدتوں کے نام پر بالواسطہ ہی سہی، برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمان اردو میں مذہبیات کو پڑھنے پر مجبور ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے نکاسی اردو ادب کی کتابوں سے کئی گناہ زیادہ ہے،
اگر ان مدارس میں اردو کا چلن ختم ہو جائے تو اس کی باقی ماندہ سانسیں بھی دم توڑ دیں گی اس کے باوجود یہ زندہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اردو کے ادباء اور دانشوران نے کبھی بھی مدارس کو اردو کے فروغ دینے کی حیثیت سے لائق اعتنا نہیں گردانا، وہ یہ تسلیم تو کرتے ہیں کہ عصر حاضر میں اردو کا تحفظ اور اس کا فروغ مدارسِ اسلامیہ کی رہین منت ہے مگر عملی طور پر انہیں کوئی کریڈٹ یا مالی تعاون دینے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں، فروغ اردو کے دعویداروں اور ان اردو اشاعتی تحریک و تنظیم اگر آپ ایک سرسری جائزہ بھی لیں گے تو حیرت زدہ رہ جائیں گے، کیا کبھی آپ نے سنا کہ
اردو اکیڈمیوں کے منصب داروں نے کبھی کسی مذہبی شخصیت کو فروغ اردو کے نام پر کوئی اعزاز بخشا ؟ انہوں نے ایوارڈ برائے شاعری، ایوارڈ برائے صحافت، ایوارڈ برائے فروغ اردو اور ایوارڈ برائے ادب کے نام پر ہمیشہ ادبی و سیاسی ہستیوں کے قدموں میں سوغاتیں نچھاور کی ہیں، مگر مذہب کے نام پر بالواسطہ اردو کو فروغ دینے والے ان مدارس اور ان کے سرکردہ قلمکاروں، شاعروں اور صحافیوں کے لیے ان کے دل داغدار میں کوئی جگہ نہیں، آج تک اردو کی کتنی مذہبی کتابیں قومی کونسل یا اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہیں؟ فروغ اردو کے لیے ان اکیڈمیوں نے مذہبی رسائل و جرائد کو کتنے فیصد اشتہارات دیے ہیں، ایسے نہ جانے کتنے سوالات ہیں جو اردو نوازوں کی "فکری وسعت” کی قلعی کھولنے کے لیے بے تاب ہیں, اگر طبقاتی بندشوں میں الجھ کر بنام مذہب اردو کو فروغ دینے والوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی یونہی دوہرائی جاتی رہی تو ملکی سطح پر اردو کے روشن مستقبل کے آثار موہوم نظر آتے ہیں،