از قلم: دانش حنفی
ہلدوانی نینیتال 9917420179
(مولا علی رضی اللہ عنہ نے ایک خطیب کو مسجد سے نکالا)
مولا علی رضی اللہ عنہ نے ایک وعظ کرنے والے سے پوچھا کیا تم ناسخ ومنسوخ کا علم جانتے ہو اس نے جواب دیا نہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا فاخرج من مسجدنا ولا تذکر فیہ
ترجمہ ہماری مسجد سے نکل جا یہاں وعظ نہ کر
کنز العمال جلد 5- 2943
( حضرت ابوبکر کی نگاہ کا کمال)
آلحزم کے ایک شخص بیان کرتے ہیں کے حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے بہت طویل خطاب کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اس کو کہا جائے کے اٹھ اور دو رکعت نماز ادا کر اور ان میں فلاں فلاں سورت تلاوت کر تو اس کی طبیعت فورا اکتا جائیں گی
( مصنف عبدالرزاق جلد 3 حدیث
نمبر 222)
ہمارے دور میں بہت سے خطیب ہیں
جو نماز تک نہیں پڑھتے مگر وہ
خطاب کرتے ہیں تو کئی کئی گھنٹے تک
خطاب کرتے ہیں
( عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک خطیب پر جلال)
ایک شخص قصہ گو خطیب تھا کہتا ہے نصف شعبان کی رات کا اجر ثواب لیلۃ القدر کی برابر ہے حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا اگر میں اسے یہ کہتے ہوئے سن لیتا اور میرے ہاتھ میں اس وقت عصا ہوتا تو میں اس کے
سر میں مار دیتا )
ہمارے اسلاف کا طرز عمل یہ تھا خطیب سے غلط بیان نہیں سنتے تھے اور آج ہماری مجلسوں کا حال یہ ہے کوئی غلط بیان کرے تو اس کو روکتے نہیں اور اگر کوئی روکنے کی ہمت کرے تو اسی بے چارے پر لعن طعن کرتے ہیں اللہ کریم عقل سلیم عطا فرمائے
( علماء کم خطیب زیادہ ہونگے)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایسے زمانے میں ہو جس میں علماء زیادہ ہیں اور خطیب کم ہے جو شخص اس زمانے میں آپ نے علم کے دسواں حصے پر بھی عمل ترک کر دے گا
تو وہ ہلاک ہوجائے گا اور عنقریب لوگو پر ایک زمانا ایسا بھی آئے گا علماء کم خطیب بہت زیادہ ہوں گے اس زمانے میں جو شخص اپنے علم کے دسواں حصے
پر بھی عمل کرلے گا وہ نجات پا جائے گا
( مجمع الزوائد جلد 1)
یہ قیامت کی نشانی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور اب حال یہ ہیں کے عالم خال خال ملتے ہیں جبکہ خطیب کی بھرمار ہے ان کی بھاری بھرکم فیس ہے منہ مانگے پیسے لیتے ہیں مگر جب کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو جواب آتا ہے میں عالم تھوڑی ہوں
بلکہ میں تو خطیب ہوں مسئلہ کسی اور سے پوچھیں آپ نعوذ باللہ من ذالک یہ حال ہے ہمارے زمانے کے خطیبوں کا
احیاء العلوم میں حضرت امام غزالی رحیمہ اللہ آپنے دور کے خطیبوں کا حال بیان فرماتے ہیں ایک گروہ وہ ہے جو وعظ و تقریر کی اصل منہج سے پھر چکا ہے اس زمانے کے سارے خطیب اس میں مبتلا ہے سوائے ان نادر اہل علم کے جنہیں اللہ کریم نے شرور سے محفوظ رکھا ہوا ہے مزید لکھتے ہیں ان چند کے سوا ہوسکتا ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں ایسے پاکیزہ نفس لوگ موجود ہوں لیکن ہمیں اس کا علم نہیں
( احیاء العلوم جلد 3)
یہ حال امام غزالی کے دور کا ہے اس سے ہم اپنے دور کا اندازہ لگا سکتے ہیں حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں ان خطیبوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو نقطہ آفرینیاں کرتا ہے ہم وزن جملے بازیہ تکبندیوں سے کام لیتا ہے الغرض ان کی ساری کاوش جملے کی وزن بندی پر صرف ہوتی ہے وہ عوام میں جوش پیدا کرنے کے لیے وصالو فراق کے اشعار پڑھتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی مجلس میں بناوٹی وجد و نعرے بازی پائی جائے خواہ یہ سب فاسد اغراض کے لئے ہی کیوں نہ ہو کہ یہ انسان کے بھیس میں شیطان ہے انہوںنے لوگو کو راہ راست سے بھٹکا دیا ہے گزشتہ زمانوں کے خطیبوں میں اگر کوئی ذاتی کمزوری ہوتی تو کم از کم دوسروں کی اصلاح کرتے تھے شریعت کے مطابق وعظ و تقریر کرتے تھے لیکن یہ لوگ تو اللہ کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں اور انہوں نے اللہ کی مخلوق کو اللہ کی رحمت کے نام پر دلفریب امید دلاکر دھوکے میں ڈال دیا ہے تو ان کے خطاب سے سننے والوں میں گناہ پر جسارت و دنیا کے بارے میں رغبت پیدا ہوتی ہے وعظو کا یہ فریب دوآشتا ہو جاتا ہے خاص طور پر جب یہ حسین و جمیل لباس اور سواریوں سے خود کو مزین کرتے ہیں اگر آپ سر کی چوٹی سے لے کر پاؤں تک ان کو دیکھے تو دنیا کے بارے میں ان کی شدید حرص کا اندازہ ہوجائے گا تو ان خطیبوں کا فساد اصلاح کے مقابلے میں زیادہ ہے بلکہ درحقیقت اصلاح تو ہے ہی نہیں یہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور انکی دھوکہ بازی پوشیدہ نہیں ہے
( احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 486