ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری، پاکستان
اس دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے آتی ہے۔ویسے ہی چلی جاتی ہے۔وہ یوں زندگی گزراتے ہیں گویا کبھی زندہ ہی نہ تھے۔جبکہ بعض لوگ آتے ہیں۔اور ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کیوں زندہ رہتے ہیں؟؟ دونوں کی زندگیوں میں صرف ایک فرق ہے۔وہ فرق کامیابی کا ہے۔وہ کامیابیاں جو انھوں نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ان کی کامیابیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق بن جاتا ہے۔
ایک دن ایک بچے نے اپنے والد صاحب سے عرض کی۔ ابا جان مجھے اپنے پَردادا کی قبر پر لے چلیں۔ والد صاحب اپنے بچے کے ساتھ قبرستان چلا گیا۔ باپ اور بیٹا پَردادا کی قبر دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن پَردادا کی قبر نہ ملی تو بچہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ اور والد صاحب نے پوچھا۔ بیٹا کیا ہوا ؟ بیٹا جواباً عرض کرنے لگا ابا جان پَردادا سے ہمارا خونی رشتہ ہے اس کے باوجود بھی ہمیں اس کی قبر کا پتہ نہیں۔ اور ایک طرف تو ڈاکٹر اقبال ہیں جس سے ہمارا کوئ رشتہ بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا نام باقی ہے۔ اور بچہ بچہ ان کا جانتا ہے۔ والد صاحب یہ جواب سُن کر خاموش ہوگیا۔
جی ہاں میرے بھائیو!! اگر ہم بحیثیت انسان غور کریں تو اللہ عزوجل نے ان دونوں کو دو آنکھیں ، دو پائوں ، دو ہاتھ اور ایک جسم دیا۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کا نام باقی رہ گیا۔ اور اس کے دادا کا نام باقی نہ رہا۔
ٹھیک اسی طرح اس دنیا میں کچھ لوگوں کے نام کے چرچے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کے نام تو اپنے خاندان اور کچھ دوستوں تک رہتے ہیں۔حالانکہ دونوں انسان ہیں۔ پھر ایسی کونسی بات ہے جس نے ایک کو عُروج دیا اور دوسرے کو زوال ؟؟ فرق صرف اپنی ذات کو سمجھنے میں ہے۔ جس نے اپنی ذات کو سمجھا ، اور اپنی زندگی کو اہمیت دی اُس کا نام باقی رہ گیا۔ اور جس نے نہ سمجھا اس کا نام مٹ گیا۔
زندگی کو جتنی اہمیت دینی چاہیے۔ ہم اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے قیمتی چیز زندگی ہے۔ افسوس سے یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ لوگ پیسوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن زندگی کو اہمیت نہیں دیتے۔ میرے بھائیو!! زندگی ایک بار ملی ہے۔ اس لیے جینے کا حق ادا کیجئے۔ اس زندگی کو محسوس کرکے شان دار بناکر جائیے۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں کل سے کرونگا ، اس کا شان دار لمحہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی زندگی کبھی شان دار نہیں ہو پاتی۔ اسی لمحے سے شروع کیجئے۔
غُبارے کالے ہوں ، نیلے ہوں الغرض غُبارے کسی بھی کلر کے ہوں وہ غُبارے کلر کی وجہ سے نہیں اُڑتے۔ بلکہ اندر موجود گیس کی وجہ سے اُڑتے ہیں۔ اسی طرح کامیابی کا تعلق امیری،غریبی شہری،دیہاتی اچھے،کالے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اندر موجود جذبے ، جنون ، سے ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ پَروں کو کھول زمانہ اُڑانا دیکھتا ہے ، زمین پر بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});انسان کے اندر کچھ ہوگا تو وہ اُڑان کے قابل بنے گا۔ جس میں کوئی تڑپ ہے ، لگن ہے ، آنسوں ہیں۔ وہ زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔ کیونکہ "انسان طاقتور اپنے حوصلے سے بنتا ہے نہ کہ جسم سے۔ ورنہ جنگل کا بادشاہ ، شیر کے بجائے ہاتھی ہوتا۔
بس آپ سر جھکائے اپنی منزل کی طرف چلتے چلے جائیے۔ اس چیز کی پروا چھوڑ دیجئے۔ کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف اپنی منزل کا فوکس رکھئیے۔ ایک دن جب آپ کا سر اٹھائیں گیں تو زمانہ آپ کے ساتھ ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ آپ لگے رہیں۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے آپ کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔