ازقلم: حیدر رضا زیدی، علی گڑھ
اختلاف کے بارے میں سائنس کا بھی ایک مسلم اصول ہے یعنی یکسانیت قانون قدرت نہیں ہے بلکہ اختلاف قانون قدرت ہے ۔ کوئی دو شخص ایک شکل کے نہیں ہوتے، نہ ہی دو گھوڑے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ایک نیم کے درخت پر لاکھوں پتّے ہوتے ہیں لیکن متشابہ ہونے کے باوجود کوئی دو پتّے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اربوں مٹر کے دانوں میں کوئی دو دانے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ان کا جب خورد بینی معائنہ کریں گےتوآپ کو فوراً ان کے دوسرے سے مختلف ہونے کا ثبوت مل جائےگا لیکن ظاہری طور پر ایک نظر آتے ہیں جس کو فورم کہا جاتا ہے، یعنی وہ مشترکات جو مٹر کو گیہوں سے الگ کرتے ہیں یا نیم کے پتّوں کو آم کے پتّوں سے الگ کرتے ہیں، ہر جنس کی وہ مشترکہ صفات جو اس جنس کا خاصہ ہیں، اگر یکساں ہیں تو اس کا شمار اسی جنس میں ہوگا گو کہ خورد بینی معائنہ میں اختلاف ہوگا ۔ ہر گھوڑا دوسرے گھوڑے سے علاحدہ ہے لیکن پھر بھی وہ اشتراکی صفات کی بنا پر گھوڑا ہے۔ یہی قانون قدرت ہے ۔ ہم مسلمان تمام تر اختلافات کے باوجود تمام غیر مسلم مذاہب سے فورم میں الگ ہیں۔ تمام مسلمان تشکیل میں یکساں ہیں لیکن تفصیل میں مختلف ہیں۔ اگر آپ اسلام کے فرقوں کا خورد بینی معائنہ کریں تو آپ کو تمام فرقے مسلمان نظر آئیں گے، سبھی توحید، نبوت ، قیامت،سزا جزا، قرآن، قبلہ، فرشتگان کے عقیدہ اور ارکان میں نماز روزہ حج زکات پر متفق ہیں، یعنی فارم میں ایک ہیں لیکن خوردبینی معائنہ کرنے پر ہر چیز میں کچھ نہ کچھ فرق نظر آنے لگتا ہے۔ لہٰذا تماثلِ قطعی کی توقع ہی غیر فطری ہے ۔ یہ اختلافات ہمارے زندہ قوم ہونے کا ثبوت بھی ہیں کیوںکہ زندہ لوگ ہی تفکر کرتے ہیں اور تفکّر کرنے کے نتیجہ کے طور پر اختلاف کا جنم ہوتا ہے۔