تحریر: محمد زاہد علی مرکزی، کالپی شریف
چئیرمین تحریک علمائے بندیل
کہتے ہیں جب حکومت بیساکھی کے سہارے ہو تو بہت سارے لنگڑے بہادر بن جاتے ہیں ، مہاراشٹرا حکومت بھی کئی بیساکھیوں کے ذریعے کھڑی ہے، برسر اقتدار پارٹی شو سینا کی آئیڈیا لوجی بی جے پی سے جدا نہیں ہے، یونہی کانگریس اور شرد پوار کی نیشنل کانگریس کی آئیڈیا لوجی شو سینا سے میل نہیں کھاتی ، لیکن سیاست میں مفاد ہی سب سے اہم ہوتا ہے جو شو سینا کو مل رہا ہے اس لیے آئیڈیالوجی میں قدرے نرمی ہے یا یوں کہہ لیں کہ جب گھی سیدھی انگلی سے نکل رہا ہو تو انگلی ٹیڑھی کرنے کی کیا ضرورت ہے، کسی وجہ سے اگر آج حکومت گر جائے تو آپ شو سینا اور بی جے پی کو ہاتھ ملا تے ہوئے دیکھیں گے، کیونکہ سیاست میں ہمیشہ کا نہ کوئی دوست ہوتا ہے اور نہ دشمن، انھیں جہاں مفاد دکھے گا وہاں ساتھ ہونگے –
ویسے تو انڈین سیاست میں ہم نے بہت سے مفاد والے گٹھ جوڑ دیکھے ہیں لیکن حالیہ سالوں کے دو گٹھ جوڑ یادگار ہیں پہلا گٹھبندھن ایسا بھاری پڑا کہ سارے صوبے کی تقدیر ہی بدل گئی یہ صوبہ ہے” کشمیر” سیاسی جماعتوں کو یہ گٹھبندھن بہت کچھ سبق دیتا ہے، جب سیاسی مفاد کے لئے کشمیر میں محبوبہ مفتی نے اپنی آئیڈیالوجی کے خلاف جاتے ہوئے بی جے پی سے گٹھبندھن کیا تو اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی آرٹیکل 370 ہٹانے اور کشمیری سیاست کو معطل کرنے کا وہم بھی نہ گزرا ہوگا، کاش! کشمیری جماعتیں آپس میں مل کر حکومت بناتیں تو شاید اتنا آسان نہ ہوتا – لیکن یہ دنیا ہے یہاں کئی دفعہ کنواں کھودنے والا ہی کنویں میں گرجاتا ہے، جس طرح بی جے پی نے چال چل کر اپنے آپ کو کشمیر میں مضبوط کیا تھا ٹھیک اسی کا بدلہ بی جے پی کو شو سینا نے مہاراشٹرا میں دے دیا، تقریباً تین دہائیوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے شو سینا بی جے پی چھوڑ گئی، آج مہاراشٹرا میں شو سینا کی حکومت ہے اور وہاں تریپورا میں ہوے فسادات اور آقا علیہ السلام کی گستاخیوں پر احتجاجی مظاہرے اور ممبئی بند کی کال دی گئی تھی، مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں میں میں بھی احتجاج درج کرایا گیا اور ممبئی میں بند کا کافی اثر رہا –
رضا اکیڈمی کے سربراہ جناب سعید نوری صاحب اور ممبئی و اطراف کے علمائے اہل سنت جن کی مشترکہ کاوشوں سے یہ بند بلایا گیا تھا اس میں شام ہوتے ہوتے مہاراشٹر کے تین شہروں سے نازیبا خبریں گردش کر رہی ہیں، اتر پردیش کے اگرہ سے بھی مسلم دوکانوں میں لوٹ پاٹ کی خبریں ہیں، اے بی پی نیوز کے مطابق احتجاجی جلوس کے دوران مہاراشٹرا کے تین مشہور شہر ناندیڑ، امراوتی اور مالیگاؤں سے جلوس میں پتھراؤ کی خبریں ہیں وہیں ناندیڑ کے ایس پی صاحب کا ٹویٹ بھی اس کی توثیق کرتا ہے کہ شہر میں تین چار جگہوں پر پتھراؤ ہوا ہے –
کیا گستاخیوں کا حل مظاہرے ہیں؟
سعید نوری صاحب اور دیگر حضرات کی نیتوں میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا(اللہ ان سب کی عمریں دراز اور کاوشیں قبول فرمائے) لیکن کیا ہم دھرنا کرکے، بھیڑ دکھا کر کچھ اثر ڈال سکتے ہیں؟ کیا اس سے یہ گستاخیاں رک جائیں گی؟ کیا کسانوں کے احتجاج کی ناکامی اور قریب چھ سو کسانوں کی جان جانے کے بعد بھی ہمیں ابھی احتجاج کی ضرورت ہے؟ اگر ان سوالات کے جوابات ہم جانتے ہیں اور یقینا جانتے ہیں تو عوام اہل سنت کو اس سخت ماحول میں آزمائش میں ڈالنا درست ہے؟ جب مظاہرے بے اثر ہو چکے ہوں، پارلیمنٹ میں قوانین آپ کے خلاف آسانی سے بن رہے ہوں، اور گستاخ نرسمها نند اور ملعون وسیم جیسے لوگ ہزاروں ایف آئی آر کے بعد بھی آزاد ہوں، جہاں دنگائی بھیڑ جے سی بی (jcb) مشین لے کر چلتی ہو اور پولیس ساتھ میں نعرے لگا رہی ہو، ایسی جگہوں پر آپ کے مظاہروں سے کیا ہونے والا ہے؟ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تریپورا کے دنگائی آزاد ہیں اور ہماری جماعت کی ایک دردمند اور متحرک شخصیت تحریک فروغ اسلام کے بانی جناب قمر غنی عثمانی صاحب صرف اس لیے جیل میں ہیں کیونکہ وہ متاثرین سے مل کر دنیا کو اصل حالات سے آگاہ کرنا چاہ رہے تھے، جہاں ساری سیاسی جماعتیں آپ کا نام لینے سے ڈرتی ہوں اس وقت مجھے نہیں لگتا کہ ان احتجاجی مظاہروں سے کچھ ہونے والا ہے –
احتجاج کے نقصانات
عام طور پر ہم ایک بڑی بھیڑ جمع کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک بڑا کام کیا ہے، کبھی آپ نے اس طرف توجہ کی آپ کو احتجاج کی پرمیشن کیوں دی جاتی ہے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جمہوری قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں اس لیے پرمیشن ملتی ہے، ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کو احتجاج کی اجازت اس لیے بھی دی جاتی ہو تاکہ آپ کے سرخیل افراد کو ڈرایا جا سکے، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مظاہرے کریں اور کسی بھی قسم کی بدامنی نہ ہو یہ مسلمانوں سے ممکن ہے لیکن اسی احتجاج میں چند عناصر ایسے شامل کردیے جاتے ہیں جو ہلکا پھلکا غلط کام کر دیتے ہیں،کل کے احتجاج کے بعد نیوز اینکرس اپنے کام میں لگ گیے ہیں ملک کے مختلف علاقوں سے اس بند کے خلاف اکثریتی طبقے کو مشتعل کیا جارہا ہے، نیز آج بی جے پی نے بند بلایا ہے، سی سی ٹی وی کے ذریعے ان نوجوانوں کی پہچان کی جارہی ہے جنھوں نے دوکانوں پر پتھراؤ کیا ہے، مہاراشٹر کے تینوں شہروں میں حالات نازک بنے ہوے ہیں اور آج کے بی جے پی کے بند کے اعلان سے دیکھیے کیا ہوتا ہے، اگر مزید حالات خراب ہوتے ہیں تو پریشانیاں بھی بڑھ جائیں گی، ظاہر ہے ایسے کسی کام کی ساری ذمہ داری بند بلانے والے پر ڈال دی جاتی ہے ، پھر پولیس حرکت میں آتی ہے اور آپ پر مقدمہ ہوتا ہے اور یہ مقدمہ حکومت کی شہ پر ہوتا ہے، حکومت کو اس کے کافی فائدے ہوتے ہیں، مقدمہ لگنے کے بعد بندہ بڑے لیڈران کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور وہ آپ کو بچا لیتے ہیں، نتیجہ آپ سے الیکشن کے وقت اپنی حمایت کا اعلان کروا لیتے ہیں، اگر آپ اس سے دور رہنا چاہتے ہیں تو انھیں مقدموں میں تیزی لاکر گرفتاری کرا دی جاتی ہے – طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے، اب آپ یا تو حکومت کے کارندے بن جائیے یا پھر جیل کی ہوا کھائیے، بہر صورت حکومت کا فائدہ ہے، پہلی صورت میں حکومت غیر مسلموں کو آپ کا ڈر دکھا کر ووٹ لے لے گی، دوسری صورت میں آپ کی صورت دکھا کر ووٹ لے لے گی، آپ کو یا آپ کی قوم کو کیا ملا؟
یاد رہے احتجاج صرف وہی کامیاب ہوتے ہیں جن احتجاجات میں حکومت کو جھکانے کا مادہ ہو،ورنہ حکومت کے سامنے ان کی حیثیت مذہبی جلوس سے زیادہ کی نہیں ہوتی، تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے مسلمانوں کے احتجاجات سے کبھی کوئی لیڈر نہیں بنا جب کہ غیر مسلموں کے مظاہروں سے کنہیا، کیجریوال، ہاردک پٹیل جیسے سیکڑوں لیڈر بنے ہیں –
اگر کرنا ہے تو یہ کریں –
دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ "میں اتنا پڑھ لکھ کر بھی انڈیا کی سیاست میں اس لیا گیا کیونکہ یہاں سیاست کے بغیر میں اپنی قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا” دنیا نے دیکھا کہ سیاست میں آکر انھوں نے اپنی قوم کو فرش سے عرش پر پہنچا دیا –
جمہوری نظام میں اصل کام ہے سیاسی طاقت حاصل کرنا اور اس پر ہم آنکھ بند کرکے بیٹھے ہیں، جتنی محنت ہم بھیڑ جمع کرنے میں لگاتے ہیں اگر اس کا دسواں حصہ مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں لگا دیں تو حکومتیں آپ کے بغیر ایک منٹ نہ چل سکیں گی، یہی عشق رسالت کا جذبہ اس وقت تک بیدار رکھیے جب تک الیکشن نہ آجائے اور پھر پوری قوت کے ساتھ خاموشی سے میدان میں آجائیں، ایک بار آپ سیاسی طاقت بن گیے تو ایسی بیساکھی والی سرکاروں کو جب چاہیں تب گرا بھی سکتے ہیں اور اپنی بات منوا بھی سکتے ہیں، آج آپ ناموس رسالت پر قانون بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں لیکن اس پر کوئ کان دھرنے کو تیار نہیں ہے، اگر آپ حکومت میں ہوں تو یہ قانون لانا مجبوری ہو – سیاست اصل ہے باقی سب فرع، جب تک اصل پر کام نہیں ہوگا، فرع کی فرح اگر حاصل بھی ہوئی تو وقتی ہی ہوگی – جب تک آپ لوک سبھا اور راجیہ سبھا نہیں پہنچیں گے لیڈر حضرات کے ساتھ ملاقات کی تصویری جھلکیاں ہی لے سکتے ہیں بقیہ کچھ نہیں، اور اس سیلفی کی قیمت پوری قوم چکاتی رہے گی –
بھارتی سیاست میں ہر اس قوم کو حق مل رہا ہے جس کی اپنی قیادت ہے اور ہر وہ قوم پریشان ہے جس کی اپنی قیادت نہیں ہے، ہم لاکھوں کی اسی بھیڑ کو اگر ووٹ کی شکل میں تبدیل کر لیں تو یقین جانیے آپ وہ سب کچھ کر سکیں گے جو اور لوگ کر سکتے ہیں، آج ہمارے لوگ اگر جلسوں، عرسوں میں اپنے اپنے معتقدین کو یہ سمجھانے لگیں کہ آپ کو خاموشی سے اپنی قیادت کی طرف توجہ دینا ہے تبھی آپ کی جان، مال، عزت، آبرو، مذہب سلامت رہ سکتا ہے تو کل ہی ایک بڑا بدلاؤ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہونگے – آپ کچھ بھی ہوجائیں اگر جمہوری ملک میں آپ نے سیاسی طاقت نہیں بنائی تو آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہے –
نوٹ :یہ میری ذاتی رائے آپ کو اختلاف کا پورا حق حاصل ہے۔