ازقلم: پٹیل عبد الرحمن مصباحی
گجرات (انڈیا)
غیر دینی علوم؛ چاہے آپ ان کو عصری علوم کا نام دیں یا دنیوی علوم کا، بہر حال موجودہ دور میں علوم کی تقسیم اور شعبہ جات کی درجہ بندی کے حوالے سے ان کا دائرہ خوب پھیل چکا ہے. تقریباً علم و فن کے ہر میدان کو کئی درجوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور ہر درجے میں مختلف شعبوں سے متعلق جداگانہ تعلیمی و تربیتی انتظامات کیے گئے ہیں. پہلے جِسے صرف ایک علم یا فن مانا جاتا تھا اب اس میں درجنوں شعبے قائم کر کے ہر شعبہ سے متعلق ماہرین پیدا کرنے کا کام ہو رہا ہے. اس کی واضح مثال طبّ کے میدان میں دیکھی جا سکتی ہے. پہلے ایک طبیب یا حکیم متعدد بلکہ اکثر بیماریوں کا علاج کیا کرتا تھا مگر اب آنکھ، کان، ناک[ENT] سے لے کر ہڈیوں تک اور دل کے خصوصی معالج سے لے کر ذہنی صحت دیکھنے والے ماہر نفسیات تک؛ بدن کے تقریباً ہر حصے کے لیے ایک شعبہ اور اس کی خصوصی تعلیم رکھنے والا ایک ماہر؛ معین طور پر مان لیا گیا ہے. آنکھ کا ڈاکٹر صرف بینائی اور اس کے متعلقات کا علاج کرتا ہے ایسے ہی دل کا طبیب صرف ہارٹ ڈیسیز کی تفتیش کے لیے ہامی بھرتا ہے. اور ان میں سے کسی کا بھی دوسرے شعبے سے متعلق بیماری کے علاج سے انکار؛ ان کی جہالت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اپنے شعبے میں ان کی دیانت داری اور مہارت کی علامت مانا جاتا ہے۔
یوں ہی تاریخی علوم میں بھی مختلف قسم کی درجہ بندیاں وجود میں آ چکی ہیں. مثلاً ہند کی تاریخ پر مختلف زاویوں سے مہارت رکھنے والے افراد اپنے اپنے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں. صرف ایک تاریخ ہند کے موضوع پر متعدد شعبے قائم ہو چکے ہیں. قدیم ہند کی تاریخ، افغانوں کے دور کا ہند، مغلیہ سلطنت کا ہند، فرنگیوں کا انڈیا اور آزادی کے بعد کا بھارت. بلکہ تاریخ ہی سے متعلق سوانح نگاری کے ضمن میں تو اقبالیات، مجدّدیات، خیرابادیات اور رضویات جیسے شخصی شعبے بھی وجود میں آ چکے ہیں. ہر شعبے کا ماہر اپنے شعبے کی تفصیلی؛ اور دیگر تاریخی مضامین کی اجمالی معلومات رکھتا ہے. ایک مخصوص شعبے سے اس کا وابستہ ہونا اسے عار نہیں دلاتا، نہ ہی یہ احساس کراتا ہے کہ اسی فیلڈ کے دوسرے شعبوں میں وہ کم علم ہے. بلکہ اسے اپنا علمی دائرۂ کار معلوم ہونے کی خوشی ہوتی ہے اور اسی میں جد و جہد کرتے ہوئے نئی تحقیقات پیش کرنے پر وہ فخر بھی محسوس کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ حالات کی تبدیلی، ماحول کے تغيّر اور لوگوں کی کثرتِ احتیاج کے سبب ایک ہی فیلڈ میں مختلف شعبے قائم کر کے اس کے ماہر کا دائرہ کار متعین کر دیا گیا ہے. اس طریقہ تقسیم کے نتیجے میں تاریخ اور طبّ کی اہمیت بھی جوں کی توں باقی ہے. خصوصی شعبے میں محنت کے نتیجے میں نئی تحقیقات بھی سامنے آ رہی ہیں اور پڑھنے والوں کی تعداد میں جو کثیر اضافہ ہوا ہے اس کے مطابق تعلیم و تعلّم کے نئے مواقع اور امکانات بھی وجود میں آئے ہیں. شعبہ جات میں تنوّع اور ان کی تقسیم کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے بھی اپنی مطلوبہ معلومات یا سہولیات تک پہنچنا آسان ہوتا جا رہا ہے. کیمسٹری سے لے کر ریاضی، نفسیات سے لے کر حیاتیات اور فلکیات سے لے کر ارضیات تک تقریباً تمام علوم و فنون میں تقسیم اور درجہ بندی کا عمل کافی حد تک ہو چکا ہے اور رفتہ رفتہ جاری بھی ہے. تفہیم میں آسانی کے لیے اوپر ہم نے دو فیلڈ کی قدرے تفصیل ذکر کر دی ہے. دونوں مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ موجودہ دنیا نے علوم کو تقسیم کر کے ہر علم و فن کے مختلف اجزا کو ترقی دینے کا نیا طریقہ اپنایا ہے اور اس کے کچھ مفید و نفع بخش نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔
یہ بات مسلم ہے کہ ہماری شریعت زندگی کے ہر شعبے سے متعلق احکامات پر مشتمل ہے بلکہ تکمیلِ دین کا مفہوم ہی یہ ہے کہ اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کا روشن مینار ہے. اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے پاس پہلے ہی دینی علوم کے سلسلے میں زندگی بھر کو محیط تنوّع موجود ہے. بس ہمیں اسے تعلیمی میدان میں شعبہ جات کے تحت لا کر عملی شکل دینی ہے. اگر یہ ہو جائے تو مختلف دینی اداروں کی؛ اپنے خصوصی شعبوں کے سبب ایک الگ پہچان ہوگی، عوام کے لیے بطور عالم دین اپنے بچوں کا مستقبل مختلف جہتوں سے طے کرنے کا موقع بھی ہوگا، مدرسین کے لیے بطور استاد اپنے شعبے کی تعیین اور منتظمین کے ساتھ اپنے اجارے کی نوعیت طے کرنے میں بھی آسانی ہوگی، عوام کے لیے اپنی ضرورت کے مطابق متعینہ شعبے کے ماہر سے رابطہ کرنے کی سہولت ہوگی اور خاندانی و خانقاہی اجارہ داری پر اس کا اچھا خاصا اثر بھی دیکھنے ملے گا. عالم اسلام کے دیگر علاقوں میں دینی علوم کے شعبوں کی کیا کیفیت ہے اور کس حد تک ان کو تقسیم کیا گیا ہے، اس طرف جانا طول کلام کا سبب ہوگا. لہٰذا ہم تقسیم کی بحث کو برصغیر کے علمی ماحول تک محدود رکھیں گے. برصغیر کے دینی حلقوں میں اِس قسم کی تقسیم اور درجہ بندی اب تک نا کے برابر ہے. اگر موجودہ دنیا میں علوم کی ایک تقسیم ہمارے سامنے آئی ہے اور اسلامی علوم کی نشو نما میں وہ کارگر ہو سکتی ہے تو بلا شبہ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.
مذکورہ تفصیلات کو سامنے رکھ کر دینی علوم میں شعبہ جات کی تقسیم کا تصور کیجیے اور اندازہ لگائیے کہ یہ طریقہ کار دینی علوم کے لیے کتنا مفید و نفع بخش ثابت ہو سکتا ہے. ہمارے خیال میں مدارس کی دنیا میں ایسی تقسیم پرانے نقوش پر نئی راہیں تراشنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے. نیز دینی علوم کی بہت سی نہریں جو اسلاف کے ہاتھوں جاری ہوئی تھیں اور اب خشک ہیں انہیں بھی دوبارہ جاری کیا جا سکتا ہے. ویسے ہم چاہتے تو ولی اللہی خاندان کے مدرسۂ حدیث، خیرآبادی خانوادے کے مدرسۂ معقولات، بریلی میں رضوی درسگاہ کے مدرسۂ فقہ اور میرٹھ میں صدیقی تربیت گاہ کے مدرسۂ تبلیغ و سیاست؛ کو سامنے رکھ کر بھی شعبہ جات کی تقسیم سمجھا سکتے تھے. مگر چوں کہ آج کل لوگ جدیدیت سے متاثر ہونے کے سبب جدید سسٹم کی مثال کو جلدی اور زیادہ آسانی سے سمجھتے ہیں اس لیے ہم نے محض تفہیم میں آسانی کے لیے یہ راہ اختیار کی ہے. ورنہ کفر کے نظام سے مسلمانوں کو سمجھانے کے نہ ہم عادی ہیں نہ قائل. جو لوگ اسلامی علوم کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ مدارس کے لیے ایسی تقسیم نہ تو نئی ہے نہ ہی کسی خارجی محرّک کی محتاج، مگر کیا کیجیے کہ فعّالیت کا دور گویا مسلمانوں کے یہاں سے بھی اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے اور صرف انفعالی طبائع کا دور دورا ہے. اپنے ہی محل سے نکلا ہوا طریقہ؛ اپنے ہی لوگوں کو؛ ہمیں دوسروں کی جھونپڑی دکھا کر سمجھانا پڑ رہا ہے. بہر حال اب ذرا دینی علوم میں تقسیم کی ممکنہ شکلیں ملاحظہ کیجیے اور نفاذ کی حتیٰ المقدور کوشش عمل میں لا کر خوش گوار علمی ماحول کی راہ ہموار کرتے ہوئے بہتر نتائج کا انتظار کیجیے.
طبّ کی طرح فقہ کو کئی شعبوں میں تقسیم کرنا ممکن ہے. کتاب البیوع اور کتاب الزکوۃ کا خصوصی شعبہ جس میں اسلامی تجارت کے ساتھ جدید معیشت اور نئی دنیا کی تجارت کے مختلف مسائل شامل کر کے مفتیان کرام کی ایسی جماعت تیار ہو جو اسلامی معیشت کے ماہرین کے طور پر دنیا کے سامنے آئے اور اپنے شعبے میں مسلمانوں کی کامل رہنمائی کے ساتھ ساتھ جدید معیشت کے مثبت و کارآمد طریقوں کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر مسلم امہ کے لیے شرعی دائرے میں معاشی ترقی کا گراف تیار کر سکے. ایسے ہی کتاب النکاح اور کتاب الطلاق پر مشتمل خصوصی نصاب کو شعبے کی حیثیت دے کر سماجیات کے جدید مسائل حل کرنے کا ملکہ رکھنے والی ایک جماعت کا تیار ہونا بھی ایک مفید کام ہوگا. سماجی مسائل کے حل کے لیے شرعی عدالت کے طور پر ایسے افراد کے مختلف دفاتر بھی قائم کیے جا سکتے ہیں جہاں عوام آسانی سے اپنے گھریلو مسائل کا حل پا سکے. علم فقہ کی یہ صرف دو مثالیں ہیں. ورنہ اِس بحر ناپیدا کنار کے عبادات، معاملات، اوقاف، فقہ سے متعلق تعارفی تبصرہ نگاری، استخراج شدہ جدید مسائل کی ترتیب و تدوین، جزئیات کے پیچھے موجود اصول کے دلائل کا انکشاف جیسے درجنوں کنارے ہیں، جن میں سے ہر کنارہ سینکڑوں تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے لیے کافی و وافی ہے. ایسی تقسیم کی بدیہی مثال عبادات میں "منیۃ المصلی” اور معاشیات میں "کفل الفقیہ الفاھم” ہے.
اسی طرح حدیث، تفسیر اور سیرت کے فن میں بھی مختلف شعبہ جات کی اسکیم کو عمل میں لایا جا سکتا ہے. اِن فنون میں پہلے ہی کافی تنوّع موجود ہے. صرف اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے. عالمانہ تفسیر، صوفیانہ تفسیر، تفسیر بالحديث، مختصر و متوسط و مفصل تفسیر، نحوی صرفی و لغوی تفسیر، معقولات و لسانیات پر مشتمل تفسیر وغیرہ وغیرہ. علمِ حدیث میں بھی اربعین سے لے کر جوامع و صحاح اور مختصرات سے لے کر مطول شروحات تک گوناگوں تصنیفات و تالیفات کا لمبا سلسلہ موجود ہے. روایت و درایت کے دو الگ خانے تو محدثین نے خود قائم کر کے ہمیں دیے ہیں. پھر اس میں ہمارے دور کے اعتبار سے نفسیات، حیاتیات، سماجیات وغیرہ مفید علوم کی روشنی میں متوازن معیار پر نئی تشریحات کا باب بھی باندھا جا سکتا ہے. یہ کام ہر آیت اور ہر حدیث سے متعلق کرنا یقیناً افراط سے خالی نہیں البتہ جو آیات اور احادیث بلا تکلف ان معانی پر دلالت کرتی ہوں ان کا انکشاف بہت سے دینی و دنیاوی فوائد کا باعث ضرور ہوگا. جہاں تک سیرت کا سوال ہے تو ابن اسحاق کی "سیرت” سے لے کر رمضان بوطی کی "فقہ السیرۃ” تک اتنا تنوّع موجود ہے کہ تفسیر و حدیث کے مذکورہ اکثر شعبے یہاں بھی لاگو ہو سکتے ہیں. اگر ماضی میں معانی الآثار کے تحت امام طحاوی نے عقلی دلائل کا انبار لگا دیا، عقل پر اِترانے والے کشاف معتزلی کو تفسیر کے میدان میں قاضی صاحب نے ڈھیر کر دیا اور بیمار کرداروں کو قاضی عیاض کی "شفاء” نے شفا بخشی تو جدید دور جو کسی طحاوی مزاج و بیضاوی شناس کا متقاضی ہے، یہاں بھی عقلی و نقلی تنوّع کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے.
علم کلام اور فلسفۂ قدیم و جدید پر مشتمل خصوصی نصاب کے ذریعے ایک ایسے شعبے کا تصور بھی بعید نہیں جس کے فارغین؛ الٰہیات کے باب میں اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے حقائق اشیا، کائنات کی اصل، خدا کے وجود اور اس کی صفات کی معرفت، انسانی زندگی کی حقیقت اور مقصدِ حیات سے متعلق اسلامی فلسفہ پیش کریں. پھر ملحدین کے عقلی و نقلی سوالات کا علمی انداز میں تشفی بخش جواب دے کر اقوام عالم پر اسلام کی حقانیت اجاگر کر سکیں. آج جب کہ الحاد کو بطور فیشن معاشرے میں رسوخ حاصل ہوتا جا رہا ہے ایسے میں یہ جماعت اذہان کو متاثر کرنے اور قلوب کو مطمئن کرنے میں اہم رول ادا کر سکتی ہے. اس شعبے میں تقسیم کی واضح مثال امام غزالی کی "تہافۃ الفلاسفہ” اور امام رازی کی "المطالب العالیۃ” ہے. نیز علم مناظرہ کے ساتھ جدید بحث(Debate) اور میڈیا انٹرویو کے اصولوں کو ملا کر ایک ایسا شعبہ جہاں بحث و مباحثہ کے میدان میں کام آنے والے مخصوص افراد تیار ہو سکیں. اسی کے تحت تنقید و تعاقب کی تربیت کا ایک شیڈیول بھی ہو سکتا ہے جس میں جدیدیت، استعماریت، جمہوریت، سیکولرازم اور لبرلزم جیسے خوش نما نعروں کی بدنما شکلیں اجاگر کرنے کا گُر سکھایا جائے. عقلیت کا دور (Rational age) ایسے بہت سے شعبوں کا متقاضی ہے جن کے تحت مسقتل اسلام کی نمائندگی کی تربیت دی جائے.
مدارس میں طلبہ تقریباً چار سے پانچ زبانوں کا علم حاصل کرتے ہیں. عربی، فارسی اور اردو تو ان کی لازمی زبانیں ہوتی ہیں. پھر عالمی زبان انگریزی اور ملکی زبان ہندی کو معتد بہ مقدار میں پڑھا پڑھایا جاتا ہے. اس کے علاوہ اپنی مادری و علاقائی زبان سے بھی وہ واقف ہوتے ہیں. یوں بر صغیر کے طلبہ لسانیات سے متعلق ڈھیر سارا کام کرنے پر قادر ہوتے ہیں. متعلقہ زبان کے ادب پر دسترس، لغت پر گہری نظر اور فقہ اللغۃ کے تحت اس کی معنوی توجیہات یہ ایک مستقل شعبہ ہے. قرآن و سنت کی تعلیمات کو ادبی رنگ میں پیش کرتے ہوئے سماج کی برائیوں کا حل پیش کرنا بھی ایک اہم کام ہے. پھر ترجمہ نگاری کا ایک وسیع میدان ہے. ہزاروں لاکھوں کتابیں جو عربی انگریزی میں موجود ہیں اردو طبقہ ان کا محتاج ہے یا جو اردو میں ہیں تو علاقائی عوام کو ان کی ضرورت ہے. یہ شعبہ تنوّع، افادیت اور ضرورت تینوں جہت سے بہت وسیع ہے.
حاصل یہ کہ یہ صرف چند مثالیں ہیں. علی ھذا القیاس اور بھی تقسیم ممکن ہے. اب ذرا کچھ احتیاطی مراحل بھی ملاحظہ کر لیجیے تاکہ نفع کے چکر میں نقصان اٹھا کر لینے کے دینے نہ پڑ جائیں. یاد رہے! یہ ساری تقسیم پانچ چھ سال تک مکمل دینیات کا نصاب پڑھانے کے بعد کی جائے تبھی کارگر ہوگی. چھ سات سالوں میں لازمی بنیادی علوم اور اکثر دینی علوم کی بنیادی معلومات حاصل ہو جانے کے بعد اخیر میں تین یا چار سال میں شعبہ جات کی تقسیم کے ذریعے مہارت پیدا کرنے کا عمل رکھا جائے تو یہ طریقہ کامیاب ہو سکتا ہے. شعبہ جات کی تقسیم میں کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ شعبے کے تحت ان ہی افراد کو داخل کیا جائے جو متعلقہ شعبے سے وارفتگی کی حد تک دلچسپی رکھتے ہوں. اس کام کے لیے الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کا نصاب تعلیم؛ جسے صدر العلما علامہ محمد احمد مصباحی مد ظلہ نے مرتب کیا ہے؛ بہت معاون ثابت ہوگا. نیز اِس سلسلے میں ہر شعبے کے ماہرین کی سرپرستی میں نصاب پر مستقل کام بھی فائدے سے خالی نہیں.
اخیر میں ایک بات خاص طور پر ذہن نشیں کر لیجیے! یہ ساری باتیں فی الحال علمی بحران کے جزوی حل کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں، لہٰذا اسے غم کا مداوا یا علاجِ تنگی داماں سمجھنا؛ بڑی کوتاہی ہوگی. عملی طور پر یہ کام اتنا آسان بھی نہیں جتنا اولِ نظر میں محسوس ہونے لگتا ہے. پھر اِس کام میں کمالِ احتیاط درکار ہے. جدید سرمایہ داری نے علم کو ادارتی شکل میں لا کر اداروں کو "آلہ کار” افراد پیدا کرنے کی مشین بنا دیا ہے. جہاں سے صاحب علم کم اور ڈگری ہولڈر زیادہ نکلتے ہیں. کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی تقسیم میں اسی قسم کی کسی محکومیت کا شکار ہو کر رہ جائیں. یہ سارا کام خالص اسلامی اخلاقی بنیادوں پر ہونا چاہیے تاکہ جدیدیت کے اثرات سے بھی محفوظ رہا جا سکے اور لبرل یا سیکولر اسلام کے چور دروازے بھی بند کے بند رہیں. چلتے چلتے یہ حقیقت بھی سن لیجیے کہ علوم کی تقسیم میں بڑا کردار نبھانے والے سرمایہ داروں کے مقاصد بہت گھناؤنے تھے مگر ان کی نیتِ بد سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم نے موضوع کے دائرے میں رہ کر ایک خالی از تنقید تجزیہ پیش کیا ہے. ورنہ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے قدیم مدارس ماڈل سے بڑھ کر کوئی مفید و کارآمد تعلیمی نظام اب تک وجود میں نہیں آیا ہے۔