تحریر: مشتاق نوری
۱۳؍نومبر ۲۰۲۱ء
ایک بار اسباق سے اکتا کر سکندر نے اپنے استاذ ارسطو (منطق کے معلم اول)سے پوچھا کیا علم حاصل کرنے کا کوئی سہل یا شارٹ ٹرم راستہ نہیں ہے؟ ارسطو نے جواب میں کہا کہ ہمارے ملک میں لوگوں کے چلنے کے لیے دو راستے ہیں ایک کھردرا اور ٹوٹا پھوٹا جس پر عام لوگ چلتے ہیں۔دوسرا بہت چکنا اور سپاٹ جس پر صرف شاہی خاندان کے لوگ چلتے ہیں۔مگر علم کی منزل تک پہنچنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے۔جو عام عوام کے لیے ہے وہی شاہی خاندان کے لیے بھی ہے۔
حصول علم و فن کے متعلق ارسطو کا یہ فلسفہ ۲۱؍ویں صدی آتے آتے فلاپ کر گیا۔قابل غور ہے کہ اگر اس وقت سکندر نے یہ پوچھا ہوتا کہ کیا علوم و فنون کی "ڈگریاں” حاصل کرنے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے تب بھی شاید ارسطو کا وہی جواب ہوتا۔کیوں کہ ارسطو کے زمانے میں علم و قابلیت سے ہی ڈگریوں کا اعتبار تھا۔سکندر جیسے شہزادے کے لیے حصول علم کا وہی طریقہ رائج رہا جو کسی عام سے مزدور کے لڑکے کے لیے رہا ہوگا۔اتنی بات یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سکندر کو وراثت میں ملک و دنیا کی پراپرٹی تو مل سکتی ہے مگر علمیت کے لیے اسی پراسیس میں ارسطو جیسے لوگوں کے سامنے زانوۓ ادب تہ کرنا ہوگا۔
ادھر المیہ یہ ہے آج جہاں عصری تعلیمی اداروں میں علوم و فنون کی ڈگریاں بکنے لگیں، اسناد خریدی جانے لگیں، ڈپلوماز اثر رسوخ سے حاصل کیے جانے لگے۔وہیں اس غلط روش سے بعض مذہبی ادارے بھی متأثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکے۔آج یہاں حصول علم و کمال کا مساویانہ طرز بحال نہیں رہا۔کسی جمن میاں کا بیٹا ابتدائیہ،اعدادیہ کے راستے سابعہ، ثامنہ تک مختلف دراسات میں لازمی انہماک کے ساتھ حصہ تو لے گا مگر کسی خانوادے کا چشم و چراغ، یا کوئی نامور سلسلے کا شیخ زادہ جسے کل مرشد بھی بننا ہے۔مبلغ اسلام بھی اور روحانیت کا ناشر بھی، اس کے لیے حصول علم کا یہ لانگ ٹرم طریقہ غیر ضروری قرار دے دیا گیا۔جب کہ اسے کسی جمن میاں کے بیٹے سے بھی زیادہ علم و دانش درکار ہے اس لیے اسے ناصرف ابتدائیہ تا ثامنہ بلکہ مزید دو چار سال کا ایسا کوئی کورس لازما کرایا جاتا جس میں تبلیغ و ارشاد کی باریکیاں، دعوت و اصلاح کے رموز، قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھائی سکھائی جاتیں۔
جماعت خامسہ میں میرا ایک کلاس میٹ تھا۔جس کے والد گرامی پیر صاحب تھے۔ان کی بڑی خواہش تھی کہ پسر خورد عالم فاضل بن کر ولیعہدی سنبھالے۔مگر اس کو یہ لائن بالکل ہی پسند نہیں تھی۔بہت آزاد مزاج لڑکا تھا۔حدیث و تفسیر کی باتیں ایک بھی اس کے پلّے نہیں پڑتی تھی۔ہر بار امتحانات میں فیل ہوتا رہا۔جیسے تیسے کرکے باپ کا من رکھنے کے لیے پانچ جماعتیں جھیل لیں۔باپ کے اثر و رسوخ کے چلتے دستار بندی بھی مل گئی۔مگر کیا یہ اچھا ہوا؟
میرا ایک دوست جامعہ ملیہ میں زیر تعلیم تھا۔وہاں ایک شیخ صاحب آۓ۔اپنی تقریر و دعا میں کئی شرعی و لسانی غلطیاں کیں ان میں ایک یہ بھی تھا، دعا کرتے ہوۓ بار بار کہتے، یا اللہ یہ میلاد و قرآن خوانی کا ثواب غوث اعظم کی "بارگاہ بے نیاز” میں پیش کرتا ہوں قبول فرما۔وہ دوست بھی میری ہی طرح منہ پھٹ ناقد تھا دعا ختم ہوتے ہی بول پڑا کہ حضرت غوث اعظم کی بارگاہ "بے نیاز” کیسے ہوگئی۔ابھی دو روز قبل ایک دوست نے ایک مشہور شیخ(جن کے لاکھوں مریدان ہیں)کے متعلق بتایا کہ آپ نے فلاں کی تقریر سنی ہے، میں نے کہا نہیں، تو آگے ان کا جملہ تھا کہ ان کا تقریر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔تقریر کرنے سے بہت سے عیب باہر آ جا رہے ہیں۔خیر میرے خیال میں یہ تو پھر بھی چلنے لائق معاملہ ہے۔بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک اچھے عالم و قاری کے لیے کسی درگاہی کی اقتدا میں نماز پڑھنا آج ایک چیلنج بن گیا ہے۔کیوں کہ ان لوگوں کی اکثریت کو بہ رعایت تجوید قران پڑھنا نہیں آتا۔ قران کی درست تلاوت نماز کے لیے کس قدر ضروری ہے یہ اہل علم ہی جانتے ہیں۔جب خانقاہی شہزادگان کو یا کسی بڑے باپ کی اولاد کو اسپیشل ٹریٹمنٹ ملے گی تب ایسے ہی مسائل جنم لیں گے۔بنا لاگ لپیٹ کے براہ راست اہل مدارس ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
اس دہرے معیار (Discrimination) سے کئی نقصانات ہوۓ ہیں۔اسی طرح آپ جب چھ ماہ کے امامت کورس(بعض شہروں میں یہ بھی چل رہا ہے) کو رواج دے کر کسی اردو خواں کو انوار شریعت اور قانون شریعت پڑھا کر مسجد کا امام و خطیب بنا دیں گے اسے کسی صاحب علم و فضل پر ترجیح بھی دیں گے تب ایسے میں سماجی اصلاح و دین فہمی کی امید ایک بچکانہ حرکت ہی ہوگی۔کیا یہ سچ نہیں کہ چھوٹے مدارس پبلک سپورٹ پانے کے لیے اپنے مدرسے کے سالانہ جلسوں میں کراۓ پر بچے کو لا کر دستار باندھتے ہیں؟ شاید ہم لوگ تب یہ بھول جاتے ہیں کہ اس حرکت سے دستار کی قیمت گر گئی ہے۔ایسے میں کل کو کوئی نورانی قاعدہ پڑھنے والا کسی مدرسے سے دستار بندی کروا کے آجاۓ تو ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہیے۔کیوں کہ یہ شارٹ ٹرم راہ ہم نے ہی دکھائی ہے۔
ستم تو یہ کہ مذہبی حلقوں میں دس سالہ کورس کرنے والے علما کو یہ تأثر دیا جاتا ہے کہ وہ (شیخ زادہ) اگرچہ تین یا چار سال پڑھ کر فاضل بنے ہیں پھر بھی وہ تم سے بہتر ہیں کیوں کہ یہ لوگ علم کتاب سے زیادہ علم سینہ سے نوازے جاتے ہیں۔اب جب علم سینہ کی بات آ ہی جاتی ہے تو دس سال محنت کرکے فاضل بنے علما، جیسے تیسے تین چار سال پڑھ کر ڈگری حاصل کرنے والے پیر زادوں کے سامنے ہاتھ باندھے، نظریں نیچی کیے مودب کھڑے رہتے ہیں۔کوئی جائز سوال پوچھنا بھی خلاف ادب جانتے ہیں۔
جب یہ لوگ وعظ و خطابت کرتے ہیں تو بڑی ڈھٹائی سے اپنی قصیدہ خوانی میں کسی کا یہ شعر بھی کوٹ کرتے ہیں
تونے پی کتابوں سے، میں نے پی نگاہوں سے
فرق ہے بہت واعظ تیرے میرے پینے میں
محل نظر تو یہ ہے کہ آج نگاہوں سے پینے پلانے کا معیار کتنا بلند ہے؟علم سینہ کا تصور تو واقعۃ ہے مگر اب کتنے کے پاس یہ روایت برقرار ہے؟وہ فضل نواز سینے کہاں ہیں؟ اگر نوازتے ہیں تو صرف اپنے ہی خانوادے کو کیوں؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا آسان بھی ہے مشکل بھی۔
آپ عالم، فاضل کرلیں۔اختصاص کا کوئی کورس بھی کر لیں۔اضافی اسناد بھی آپ کے پاس ہوں۔تب بھی آپ کو جناب سے حضرت کا سفر کرنے میں بڑا وقت، بڑی محنت درکار ہے۔مگر وہ لوگ جن کے لیے حصول علم بطور رسم آسان کر دیا گیا ہے انہیں سیدھے "حضور” تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ایک اچھے فقیہ، ایک بہترین مفتی و مدبر کو "حضرت” تک آتے آتے عمر بیت جاتی ہے۔
یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے پہلے ہی اپنے علمی اداروں میں انہیں ہائی پروفائل ٹریٹمنٹ دے دیا۔ان کو یہ احساس دلا دیا کہ آپ کے لیے الگ قانون ہے۔باقی لوگ رول فالو کرکے ہی آگے بڑھائے جائیں گے۔
ایک "فلاں” کو عزت و احترام کی سیڑھی چڑھنے میں طویل عرصہ لگ جاتا ہے تب بھی وہاں تک بمشکل کوئی کوئی پہنچ پاتا ہے۔فلاں کو "جناب” بننے میں دیر لگتی ہے۔اس جناب کو "حضرت” کے معیار تک پہنچنے کے لیے اونچے معیار کی سند، دل سوز محنت اور بے لوث خدمت چاہیے ہوتی ہے۔ پھر حضرت کو "حضور” کا اعزاز پانے کے لیے بڑے کارنامے کی ضرورت ہوتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہاں ایک مخصوص طبقہ کو یہ سب فری میں مل جاتا ہے۔اس فساد کی جڑ تقسیم علم و فضل کا غیر مساویانہ طریق ہی ہے جو عین غیر اسلامی ہے۔