قرآنِ مقدس کی آیتوں سے بنے پیپر تھیلے میں مٹھائیاں بیچتا ہے "ٹینی حلوائی”
غوثِ اعظم فاؤنڈیشن نے راجستھان پولیس کی خاموشی پر اٹھائے سوال! کہا: "کیا راجستھان پولیس بھی یو۔پی۔ پولیس کی طرح ٹوئیٹر پر "تا تا تھیا” کھیلنے لگی ہے؟”
از قلم: مفتی محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز ، گورکھ پور
ملک میں آئے دن مذہبِ اسلام و مسلمین کے جذبات و احساسات کو تہِ تیغ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ملک کی مرکزی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتیں بھی تماشہ بین بنی ہوئی ہیں، بلکہ اب تو ایسا کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ یہ حکمرانِ ملک ہی سیاسی روٹی سینکنے کے لیے ایسی اونچھی حرکتیں کروا رہے ہیں۔
تازہ ترین معاملہ راجستھان کے ضلع الور کے گرام ساہوڑ اسٹینڈ کا ہے، جہاں ایک حلوائی مٹھائیاں دینے کے لیے جس پیپر تھیلے کا استعمال کرتا نظر آیا، وہ کسی عام کاغذ سے بنے ہوئے تھیلے نہیں تھے بلکہ آفاقی مذہب اسلام کی مقدس کتاب "قرآن مجید” کے اوراق سے بنے تھیلے ہیں۔۔۔ صحیح سنا آپ نے!!!
اسی مقدس کتاب کے اوراق سے بنے تھیلوں میں راجستھان کا یہ حلوائی مٹھائیاں بیچتا ہے اور نہ جانے خریدنے والوں میں کون کون، کس حال میں آتا ہے اور استعمال کرکے کہاں پھیکتا ہے؟؟؟ ان سوالوں کے تصور سے ہی ایک مسلمان کی رگِ حمیت بھڑک اٹھتی ہے۔ مگر ایسے سینسٹیو معاملات پر حکمرانوں کی خاموشی ان کی ذہنیت کو اجاگر کرتی ہے۔
مذکورہ معاملہ غوث اعظم فاؤنڈیشن کے قومی صدر حضرت مولانا محمد سیف اللہ خاں اصدقی صاحب نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ جناب اشوک گہلوت صاحب تک بات پہنچائی مگر اب تک تقریباً 18 گھنٹے ہو گئے ان کی زبان سے افسوس تک نہیں نکلا۔ اور نکلتا بھی کیسے کہ ملک کا اکثریتی طبقہ ناراض ہو جائے گا اور پھر کئی صوبوں میں انتخابات بھی تو سر پہ ہیں۔۔۔
در اصل یہ نام نہاد سیکولرزم کے ٹھیکے دار یہی چاہتے بھی ہیں۔ کیوں کہ انھیں معلوم ہے مسلمان اپنے مذہب کے تئیں گستاخی ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ لہذا وہ سڑک پر ضرور نکلے گا اور ہم اپنے کرایہ کے ٹٹؤں کے ذریعہ فتنہ فساد بپا کراکر مسلمانوں کی شبیہ داغ دار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر ملک کی اکثریت تو بس ہندو مسلم ہونے پر ہی ووٹ دیتی ہے۔
مگر آئیے ذرا سکے کو اچھالتے ہیں اور اس کے دوسرے پہلو کو دیکھتے ہیں تو تصویریں بڑی بھیانک نظر آتی ہیں……
ویسے ہم اور ہمارا مذہب نہ کبھی کسی دوسرے مذہب کی توہین کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کی آستھا (عقیدہ، جذبات) سے جڑی چیزوں کو چھیڑنے کی۔ مگر ہمارے ملک کی تاریخ ضرور ہمیں یہ کہنے اور لکھنے پر مجبور کر رہی ہے کہ خدا نخواستہ کسی مسلم شخص نے ملک کے اکثریتی طبقہ کے جذبات سے جڑے جانور کو یا پھر مذہب ہی سے جوڑ لیا جائے یعنی گائے کو صرف ہاتھ لگا دیا ہوتا یا راستہ چلنے میں دشواری ہوتی تو فرقہ پرست تنظیمیں اب تک آسمان سر پہ اٹھا لی ہوتیں اور میڈیا کو مرچ مصالہ لگانے سے کون روک سکتا ہے کہ یہی نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہی ان کی پشت پناہی کرتی ہیں۔
اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ گائے معاملہ میں صرف شک کی بنا پر مسلمانوں کو زد وکوب کیا گیا۔ انھیں موت کے گھاٹ اتار کر ان کے بیوی بچوں کو یتیم و بیوہ و بے سہارا بنا دیا گیا اور ہر ایک مسلمان کو شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا سو الگ، میڈیا نے بات کا بتنگڑ بنایا وہ الگ، گندی ذہنیت کے سیاسی رہنماؤں نے واویلا مچایا وہ الگ۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ دوسری جانب ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی گئی، سب خاموش! ہمارے خدا کو کاٹنے کا نعرہ لگایا گیا، خاموشی کی سماں!!! ہمارے مذہبی کتاب کو کبھی جلانے کی، کبھی پھاڑنے کی اور اب تھیلا بنا کر اس میں سامان بیچنے کی جرات کی جاتی رہی مگر سب کے سب ایک چپ کہ ہزار چپ!!! سانپ سونگھ گیا سب کو۔۔۔۔ کیا یہی جمہوریت کا مطلب ہے؟ کیا یہی سیکولرزم کا مفہوم ہے؟ کیا یہی اس ملک کی گنگاـ جمنی تہذیب ہے کہ جہاں گنگا میں ہاتھ دھونے پر ہاتھ کاٹ لیئے جائیں اور جمنا میں غلاظت پھیلانے پر اف تک نہ نکلے؟؟؟
خوشی کی بات: ابھی ابھی غوثِ اعظم فاؤنڈیشن کے قومی صدر حضرت مولانا محمد سیف اللہ خاں اصدقی صاحب نے واٹس ایپ کے ذریعے بتایا کہ بہت محنت کرنے کے بعد الور پولیس نے جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس جواب پر غوثِ اعظم فاؤنڈیشن کے قومی صدر حضرت مولانا محمد سیف اللہ خاں اصدقی صاحب نے الور پولیس کا شکریہ ادا کیا ہے۔