وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَک: حضرت تُبّع حمیری
ازقلم: محمد ارشد مصباحی
اعلیٰ حضرت فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یو۔کے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے ذکر پاک کو خود ہی بلند فرمایا۔ اِس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ ذکر سرکار ﷺ کا ہی ہو رہا ہے۔ برطانیہ جیسے غیر مسلم ملک میں بھی سرِ فہرست ناموں میں نام ’’محمد‘‘ بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رفعت و عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپﷺ کی ولادتِ طیبہ سے صدیوں بلکہ ہزاروں سال پہلے بھی آپ کا ذکر مبارک ہوتا رہا ہے۔ اس حقیقت کی بہت سی مثالیں ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتی ہیں۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ تین مثالیں پیش کرتے ہیں۔
[۱] حضور پاک ﷺ کی پیدائش سے تقریباً چھ سو سال پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلے کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوں اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام ’’احمد‘‘ ہے-(سورۃ الصف: ٦:٦١)
[۲] اِسی طرح رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے تقریباً تین ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دُعا قرآن مجید میں موجود ہے: ’’اے ہمارے رب اور بھیج ان میں ایک رسول انھیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انھیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انھیں خوب ستھرا فرما دے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت والا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۲۹:۲)
[۳] یہود کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک عادتِ کریمہ بیان کی:
’’اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلے سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۸۹:۲)
ان بیان کردہ آیات میں عالمِ اجسام کا ذکر ہے کہ انبیا، مرسلین اور اہل الکتاب آپ کا ذکر آپ کی میلاد سے پہلے بھی کثرت سے کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ نے عالمِ ارواح کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔‘‘ (سورۃ آل عمران:۸۱:۳)
عام طور پر ہر انسان کا ذکر اس کی پیدائش اور موت کے بعد کیا جاتا ہے مگر اللہ کے رسول ﷺ کا ذکرِ خیر آپ کی مبارک پیدائش اور آمد سے پیش تر بھی کثرت سے ہوتا رہا ہے۔ آخر میں اس بات پر اپنا کلام ختم کرتا ہوں کہ:
سیدالعالمین ﷺ کی تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے یمن کے بادشاہ تبع حمیری رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے۔ مدینہ شریف میں آپ کے لیے دو منزلہ گھر تعمیر کروایا اور باقاعدہ خط میں آپ کو مخاطب کیا اور لکھا: کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سیدالمرسلین محمد رسول اللہ ﷺ (کی طرف) امابعد! اے اللہ کے حبیب میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ پر نازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں، اور میں آپ کے دین پر ہوں پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا اور غنیمت، اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا۔ میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔ اس خط کو سن کر سرکار ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:
مَرحَبا بِالْاَخِ الصَّالح۔ (میں اپنے نیک بھائی کو مرحبا کہتا ہوں۔)
I Welcome my pions brother.
(المُستَطْرَفْ: حُجَّۃ اللہ علی العالمین؛ تاریخ ابن عساکر)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَک.
’’اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔‘‘ (سورۃ الم نشرح: ٤:٩٤)
قرآن پاک کی سورۃ قٓ اور سورۃ دخان میں قوم تُبَّع کا ذکر موجود ہے۔
سبحان اللہ
ما شا اللہ
بہت ھی خوب صورت، ولولہ انگیز اور دلکشا تحریر
سلام تحسین و آفریں