علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ اپنے حالات کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی راستے میں بچوں کے ساتھ زور زور سے ہنستا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ چھے سال کی عمر میں مکتب میں میرا داخلہ ہوا، سات سال کی ابھی عمر تھی کہ میں جامع مسجد کے سامنے میدان میں چلا گیا، وہاں کسی تماشہ دکھانے والے کا تماشہ نہیں دیکھتا تھا بلکہ محدث کے درس حدیث میں شریک ہوتا تھا۔ وہ حدیث کی، سیرت کی جو بات کہتے تھے وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی تھی۔ گھر آکر اس کو لکھ لیتا تھا۔ بچے دریائے دجلہ کے کنارے کھیلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے کچھ صفحات لے کر ایک طرف نکل جایا کرتا تھا اور الگ تھلگ بیٹھ کر مطالعہ میں مشغول ہو جایا کرتا تھا۔ میں اساتذہ اور بزرگان دین کی مجلسوں میں حاضری دینے کے لیے اس قدر جلدی کرتا تھا کہ دوڑنے کی وجہ سے میری سانس پھولنے لگتی تھی۔ میری صبح و شام اس طرح گزرتی تھی کہ کھانے کا کوئی انتظام نہ ہوتا تھا۔
مزید فرماتے ہیں کہ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی تھی۔ جب کوئی نئی کتاب پر نظر پڑ جاتی تھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں نے طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو کوئی محال نہیں۔ مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے ہمارے اکابرین کے حالات و اخلاق، ان کی اعلی ہمت، قوت حافظہ، ذوق عبادت اور بے پناہ علوم کے ذخیرے کا ایسا علم حاصل ہو جاتا تھا جو کتابوں کے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنے زمانہ کے لوگوں کی کم علمی معلوم ہونے لگی اور اس وقت کے طالب علموں کی کم ہمتی کا اندازہ ہو گیا۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانہ کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار کتابیں تھی، اسی طرح بغداد کے مشہور کتب خانے کتب الحنفیہ، کتب الحمیدیہ، کتب عبد الوہاب، کتب ابو محمد وغیرہا جتنے کتب خانے میری دسترس میں تھے سب کا مطالعہ کر ڈالا۔
(ملخصًا: بزرگان دین کا شوق مطالعہ، مفتی قاسم قادری، ص: 10-11)
اللہ کریم ان کے صدقے ہمیں علم دین حاصل کرنے کا ذوق و شوق عطا فرمائے، آمین۔
محمد واصف مارفانی