تحریر: گلاب مصباحی، فیض پور سیتامڑھی
گذشتہ سے پیوستہ کل کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں، اس میں ایک نو عمر لڑکا نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے، اس کی عمر بہ مشکل گیارہ سال کی ہوگی۔ پاس ہی میں ایک مسجد ہے، جس میں ایک بدعقیدہ امام ہے، اس نو عمر لڑکے کا باپ اسی بدعقیدہ کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، اور یہ خود سنی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ اس لڑکے کو کئی مرتبہ مؤذن کے تکبیر کہنے سے پہلے کھڑا ہوتے ہوئے میں نے دیکھا، میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اشھد ان محمدا رسول اللہ میں لفظ محمد(صلی اللہ تعالی علیہ و سلم) پر انگوٹھا نہیں چومتا ہے، میں نے اس سے کہا کہ تکبیر کے وقت تمام لوگ بیٹھے رہتے ہیں، تم کیوں کھڑے ہوجاتے؟ جاؤ امام صاحب سے مسئلہ پوچھ لو کہ مقتدی کو کب کھڑا ہونا چاہیے۔ اس نے کچھ جواب نہیں دیا۔ اس سے کئی مرتبہ میں نے یہ کہا، مگر وہ کچھ بھی جواب نہیں دیا، میں نے اپنے جی میں کہا کہ یہ "صم بکم” ہے کیا، کچھ بھی جواب نہیں دے رہا ہے۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ تم سلام بھی نہیں پڑھتے ہو، انگوٹھا بھی نہیں چومتے ہو، آخر کیا بات ہے؟ جب کہ سارے لوگ یہاں پر سلام پڑھتے ہیں اور انگوٹھا بھی چومتے ہیں۔ اب وہ گویا ہوا۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ نبی کی عبادت نہیں کرتے ہیں، وہ تو ہماری طرح بشر تھے، ہم ان کی کیوں عبادت کریں گے۔ میں نے اسے بالکل سنجدیگی سے سمجھانا چاہا۔ میں نے کہا کہ تم کو یہ کس نے بتایا ہے کہ ہم اہل سنت نبی کی عبادت کرتے ہیں، یا سلام پڑھنا یا انگوٹھا چومنا نبی کی عبادت ہے۔ اس نے کہا کہ ہمارے ابو ہمیں تبلیغی جماعت میں لے گئے تھے، اسی جماعت نے یہ بتایا ہے۔ میں نے کہا کہ دیکھو غور سے سنو، کوئی مسلمان نبی کی عبادت نہیں کرتا ہے، عبادت صرف ایک اللہ معبود برحق کی کرتا ہے، ہاں سارے مسلمان نبی کی طاعت و فرما برداری کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں، ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں، یا چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور نبی کی اطاعت و فرما برداری،ان سے محبت کرنے اور ان کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے کا تو قرآن حکیم میں قریباً ستائس مقامات پر خداے تعالی نے حکم دیا ہے۔ پھر میں نے کہا کہ دیکھو نبی پاک بشر ہیں اس میں کوئی شک نہیں، مگر آپ کی بشریت اعلی ہے، آپ بے شمار فضائل و خصائص کے ذریعہ سب میں ممتاز ہیں، پھر میں نے کافی تفصیل کے ساتھ سارے حقائق اس کے سامنے بیان کیے، اس نے کہا کہ ہم کو یہی بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ نبی کی عبادت کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں۔ (حال یہ ہے کہ یہ لڑکا بشر اور شرک کا معنی تک نہیں جانتا۔) بہر حال میں نے کہا کہ اس نے تم کو غلط بتایا ہے، سچائی یہ ہے، حقیقت یہ ہے، بہت دیر تک سمجھایا، الحمد للہ خدا کا فضل ہوا، محنت رنگ لائی اور اب میری موجودگی میں وہ سلام بھی پڑھتا ہے، اور انگوٹھا بھی چومتا ہے۔ آگے خدا حافظ۔
میں اس واقعہ سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تضلیلی جماعت کس قدر نوجوانوں کے ایمان و عقیدے سے کھلواڑ کر رہی ہے، ارے جماعتیو، تمہیں شرم نبی نہیں تو خوف خدا بھی نہیں، اپنا پر فریب جال بچھانے کے لیے تم کچھ بھی کہہ دو گے؟ تم سادہ لوح بچوں کے سامنے اس قدر فحش جھوٹ بولو گے؟ جو چیزیں بچوں کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں، تو عموماً بڑھاپے تک وہ ان پر قائم رہتے ہیں، ان کو حق مانتے ہیں، تو کیا بچوں کے ذہن میں غلط نظریات جمانے کے لیے تم کسی حد تک چلے جاؤ گے؟ کسی بھی فسق کو ہماری طرف منسوب کر دو گے؟ ارے جماعیتو کچھ تو شرم کرو، تمہیں بھی خدا کے یہاں منہ دکھانا ہے، تمہیں بھی خدا کے یہاں جواب دینا ہے، تم خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ خدا تمہیں راہ حق کی ہداہت نصیب کرے۔
اے کاش کہ اہل سنت کی کوئی بڑی تنظیم یا بڑی خانقاہ تبلیغی میدان میں سرگرم عمل ہوتی، کہ بہت سارے سادہ لوح بچے ان مکاروں کے مکر و فریب سے محفوظ رہتے اور ان کا ایمان و عقیدہ سلامت رہتا۔ اور اللہ رے امام مذکور کی دینی حمیت، بس لنا اعمالنا و لکم اعمالکم، یا لکم دینکم و لی دین اور بس۔ کاش کہ حتی الامکان انفرادی طور پر ہی سہی اپنا فریضہ انجام دیتے۔ رب قدیر اہل سنت کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم علیہ التحیة و التسلیم
درج بالا تحریر پر جناب افتخار حسین رضوی صاحب کا بے لاگ تبصرہ پڑھیں
بہت ہی سبق آموز واقعہ ہے آپ ہی کی طرح اگر ہمارے تمام علمائے کرام سنجیدگی سے عمدہ دلائل کی روشنی میں گمراہ نوجوانوں کو اہلسنت کے موقف اور نظریات کو سمجھانے کی کوشش کریں تو خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے،
تبلیغی جماعت نے مسلمانوں کو بہت گمراہ کیا ہے امت کو تباہ و برباد کر دیا ہے، حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے پاس تبلیغی جماعت سے زیادہ موثر اور بڑی تبلیغی و دعوتی جماعت ہونی چاہیے مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا ایک دو جماعت اور تحریک ہے تو اختلافات کی شکار ہوکر مکمل طور پر خدمات انجام دینے سے قاصر ہے۔ انتہائی حیرانی کی بات ہے کہ اہلسنت کا ہر گاؤں کسی نہ کسی پیر کے حلقہ ارادت سے منسلک ہے تو اس لحاظ سے ہمیں تو کسی تحریک کی مزید ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ اس سلسلے میں ایک تفصیلی تحریر پیش کیجیے اور واضح کیجیے کہ کس طرح ہمارے پاس ایک مکمل نظام عمل اور نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے اگر اسی نظام کو مزید بہتر اور متحرک بنا دیا جائے تو انقلاب پیدا ہو جائے گا۔
افتخار حسین رضوی