خیال آرائی: فرید عالم اشرفی فریدی
وہ ہی اب قلب کی راحت ہے خدا خیر کرے
جس کو میری نہیں چاہت ہے خدا خیر کرے
جس کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے چاہت کی جھلک
اسکےسینےمیں کدورت ہے خدا خیر کرے
اسکی بیچین سی صورت یہی بتلاتی ہے
اب اسے میری ضرورت ہے خدا خیر کرے
خود کو کہتا ہے وہی حسن و وفا کا پیکر
جس کی صورت ہے نہ سیرت ہے خدا خیر کرے
جن کے قدموں پہ لٹاۓ تھے وفا کے گوہر
ان کو اب ہم سے ہی نفرت ہے خدا خیر کرے
پیچھے غیبت مری اور منہ پہ ہے تعریف مری
یہ توبس آپکی خصلت ہےخدا خیر کرے
آنکھیں ہیں جھیل محبت کی تو زلفیں ناگن
ایسی تصویر محبت ہے خداخیرکرے
امن کے ملک میں اب ہو رہا خون نا حق
پھیلی ہر سمت بغاوت ہے خدا خیر کرے
آئے بالیں پہ فریدی وہ مسیحا بن کر
خواب ہے یا یہ حقیقت ہے خدا خیر کرے