جب دھوپ اُ گی ہوٸی ہو تو پرچھائیاں پرکھ
چہرہ نہ پڑھ خیال کی سچائیاں پرکھ
جو سانس سانس درد سے مہکاٸیں جسم کو
اے طالبِ شمیم وہ پروائیاں پرکھ
مانا نڈھال کر گٸی ساون تری پھوار
تحریک دے رہی ہیں جو انگڑائیاں پرکھ
ان سے ہی شش جہات میں ہیں میری شہرتیں
اس زاویے سے تو مری رسوائیاں پرکھ
راتوں کی تیرگی میں ہی تارے چمکتے ہیں
ویرانیوں میں انجمن آراٸیاں پرکھ
نورِ سحر ہی آمدِ شب کی دلیل ہے
وقتِ وصال آئے تو تنہائیاں پرکھ
تو صرف ان پہاڑوں کی اونچاٸیاں نہ جانچ
پہلے ذرا ندی کی بھی گہرائیاں پرکھ
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج،بارہ بنکی،انڈیا