غزل

غزل: کوئی اتنا بھی منت اداس رہے

اپنی حالت سے بد حواس رہے
کوئی اتنا بھی مت اداس رہے

خوش ہوں لیکن مری تمنا ہے
درد بھی دل کے آس پاس رہے

فاصلوں کا تو میں نہیں قائل
وہ مرا ہے تو میرے پاس رہے

اسکا تیور بدل بھی سکتا ہے
ہاں مگر لب پہ التماس رہے

میں نے تیرا ہی انتخاب کیا
یوں تو پیچھے مرے پچاس رہے

زہر جیسی کسیلی باتوں میں
چاہتا یہ بھی ہے مٹھاس رہے

اسکی امید پر کھرا اترے
جو بھی روشن کس کی آس رہے

نتیجۂ فکر: افروز روشن کچھوچھوی، امبیڈکر نگر اترپردیش

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے