اپنی حالت سے بد حواس رہے
کوئی اتنا بھی مت اداس رہے
خوش ہوں لیکن مری تمنا ہے
درد بھی دل کے آس پاس رہے
فاصلوں کا تو میں نہیں قائل
وہ مرا ہے تو میرے پاس رہے
اسکا تیور بدل بھی سکتا ہے
ہاں مگر لب پہ التماس رہے
میں نے تیرا ہی انتخاب کیا
یوں تو پیچھے مرے پچاس رہے
زہر جیسی کسیلی باتوں میں
چاہتا یہ بھی ہے مٹھاس رہے
اسکی امید پر کھرا اترے
جو بھی روشن کس کی آس رہے
نتیجۂ فکر: افروز روشن کچھوچھوی، امبیڈکر نگر اترپردیش