ڈاکٹر عابدہ بتول صاحبہ کے لیے بطور داد
اپنی غزل پیش کرتا ہوں۔
ازقلم: شہباز نیّر
ہر چہرے میں اُس کا چہرہ دیکھے گا
دِل ، جیسا سوچے گا ویسا دیکھے گا
آنکھوں والو سوچو، سوچ کے بتلاؤ
اندھا خواب میں دیکھےتو کیادیکھےگا
حاسد شخص کی ایک نشانی یہ بھی ہے
جل جائے گا جس کو ہنستا دیکھے گا
وہ میری تعریف کرے تو حیرت کیوں
اچھا تو ہر اک کو اچھا دیکھے گا
سارے جسم کو آنکھ بنا کر بھی دیکھے
پھر بھی دیکھنے والا کتنا دیکھے گا
تیری آنکھیں دیکھتا ہوں تو حیرت کیوں
جس کو پیاس لگے گی ، دریا دیکھے گا
مجھ کو دیکھنے کی خاطر شہباز کوئی
سب کی جانب جھوٹا مُوٹا دیکھے گا
رحیم یار خان
پنجاب, پاکستان