خیال آرائی : سید اولاد رسول قدسی
بند یوں دروازۂ امداد ہے
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے
ان کے بارانِ نوازش کا سماں
مدتیں گذریں ابھی تک یاد ہے
کیا پتہ بن جاۓ کِل وہ رشک نور
آج جو نابینا مادر زاد ہے
لمحہ لمحہ ریگزار فکر کا
درد و غم کی دھوپ میں بھی شاد ہے
اس گہر پر بحر کی موجیں نثار
گود میں جو سیپ کی آباد ہے
مل گئ جس کو رضاۓ والدین
مستحق خلد وہ اولاد ہے
جس کی بنجر ہوں حیا کی کھیتیاں
اس کی فصل آبرو برباد ہے
بعد میں تو کرتے رہنا شیخیاں
بول پہلے کس کی یہ ایجاد ہے
پوچھتا ہے وقت قدسی وقت سے
عمر کی کیا کوئ میعاد ہے